ا نسا ن اس حقیقت سے ا چھی طر ح و ا قف ہے کہ وہ دنیا میں آ یا ہے تو اسے واپس بھی جا نا ہے۔ توحید کے انکا ری تو دنیا میں بہت گز رے ہیں مگر مو ت سے انکا ر آ ج تک کسی نے نہیں کیا ۔ہم یہ بات جانتے ہیں کہ جس طر ح اسلام زند ہ انسان کی عزت اور احترام کی تعلیم دیتا ہے۔ اسی طرح اس بات کی بھی تلقین کرتا ہے کہ مرنے کے بعد بھی مسلمان کو اس کی آخری آرام گاہ کی طرف بھی بے حد عزت اور احترا م کے ساتھ لے جایا جائے۔ اور اس بات کا علم ہر مسلما ن کو ہو نا چا ہئے کہ میت کو کس طرح غسل دیا جا ئے اوراس کی تجہیز و تکفین کی جائے۔ ا للہ کے رسولؐ نے میت کو غسل اور کفن پہنا نے والے کے لئے بہترین اجر کی امید دلا ئی ہے۔ کتاب ا لمحتضر ین کی ایک روا یت ہے کہ صحا بہ کرامؓ اس بات کو پسند کرتے تھے کہ وفات کے وقت بندے کو اس کے نیک اعما ل یاد دلائیں تاکہ وہ اپنے رب کے متعلق حسن ظن رکھے اور یہ کہ اپنے مرنے والو ں کو لاالہ الااللہ پڑھنے کی تلقین کی جائے۔
رسولﷺ کا ارشاد ہے:تم میں سے کوئی شخص جب موت کے قریب ہو تو ا سے لاالہ الااللہ کی تلقین کیا کرو۔ جس نے مرتے وقت لاالہ الااللہ کہا بالآ خر وہ جنت میں چلا جا ئے گا،خواہ اس سے پہلے کتنی ہی سزا ملے۔(صحیح ابنِ حبان) ایک دوسری روایت میں ہے :جب تم کسی مریض یا مرنے والے کے پاس ہو تو صر ف اچھی بات کہو کیونکہ فر شتے تمہاری با ت پر آمین کہتے ہیں۔ (صحیح مسلم)
مو ت کے بعد کے ضروری کا م:
موت کے وقت سب سے پہلے ان للہ وانا الیہ راجعون پڑھ کر اس کی آنکھیں بند کردیںاور اس کے لئے دعا کریں۔اس کے سارے جسم کو کپڑے سے ڈھانک دیں۔حضرت عائشہ ؓ بیا ن کر تی ہیں: ’’جب آپﷺ کی روحِ اطہر پرواز کر گئی تو آپﷺ کو دھاری د ار چا در سے ڈھانپ دیا گیا۔‘‘جب مو ت واقع ہو جا ئے تو تجہیز و تکفین میں جلدی کریں۔ حضر ت ابو ہر یرہ ؓ رسول اللہﷺ کا ارشاد ہے کہ آ پﷺ نے فرما یا:’’جنا زوں کے با رے میں جلدی کیا کرو۔‘‘ (متفق علیہ) جس علاقہ میں آدمی مرا ہو ،وہیں دفن کیا جائے،کسی دوسری جگہ نہ لے جا یا جائے۔ امام نوویؒ نے الاذکار میں لکھا ہے کہ اگر مر نے والانقل جسد کی وصیت کرے تو بھی اس پر عمل نہ کیا جا ئے۔ (سنن البیہقی،مؤطا امام مالک) میت کے چہرے سے کپڑا ہٹا کر آنکھوں کے درمیان بو سہ دیا جا سکتا ۔جیسا کہ ابوبکر صدیق ؓ نے آپ ﷺ کی وفات کے بعد آپ کو بوسہ دیا اور تین دن تک رونے کی بھی اجاز ت ہے۔( صحیح البخاری) اعز ہ واقا رب کو چاہیٔ کہ جائز طریقے سے وفا ت کی اطلاع کرے۔آپﷺ نے میت پر نوحہ کرنے سے نیز گریبان چاک کرنے اور منہ پیٹنے سے منع کیاہے۔اورفرمایا ہے کہ’’ ایسے لوگو ں کا ہم سے کو ئی تعلق نہیں۔‘‘(صحیح بخاری)
غسلِ میت:
جب کسی انسا ن کی مو ت واقع ہوجائے تو چند افراد کو اس کے غسل کا فی الفور انتظام کر نا چاہیے۔ خصوصاً ہمارے ملکوں میں یہ بات دیکھنے میں آتی ہے کہ میت کو غسل صرف پیشہ ور خوا تین یا مرد ہی دیںگے کوئی اور نہیں دے سکتا۔ قر یبی رشتے دار رونے اور سوگ منا نے میں لگے رہتے ہیں۔اور یہ سمجھتے ہیں کہ یہ ان کی ذمہ داری نہیں ہے ۔حالاںکہ میت کو غسل قریبی رشتہ داروں کو ہی دینا چاہیے۔ایک اور غلط فہمی جو ہمارے یہاں پائی جاتی ہے کہ شوہر کے انتقال کے بعد بیوی اور بیوی کے انتقال کے بعد شوہر ایک دوسرے کے لئے نا محرم ہو جا تے ہیں۔ یہ بات بالکل غلط ہے اس کی کوئی دلیل نہیں۔مرد اپنی بیوی کی میت کو اور بیوی اپنے شو ہر کی میت کو غسل دے سکتے ہیں۔ حضر ت علیؓ نے اپنی زوجہ فا طمہ ؓ کو غسل دیا تھا۔ اسی طرح ابوبکر صدیقؓ کو ان کی زوجہ اسماء ؓ نے غسل دیا تھا۔ ( المؤطا)
غسل دینے والے کیلئے اجر کی خوشخبری:
ْْْْرسول اللہ ﷺ کا ارشادِ مبارک ہے:’’میت کو وہی شخص غسل دے ، جو اس کا سب سے قر یبی ہو اور علمِ (دین) رکھتا ہو اگر قریبی عزیز عالم نہ ہوتو پھر جسے تم عالم اورپرہیزگار سمجھو، وہ غسل دے۔ ]خواہ وہ قرابت دار نہ بھی ہو[ (مسند احمد)
غسل دینے والوں کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ خالص اللہ کی رضا کے لیے اور اپنے گناہ کو بخشوانے کی غرض سے میت کو غسل دیں۔میت میں کوئی عیب یا نا پسندیدہ بات نظر آئے توپردہ پوشی اور راز رکھے۔نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:’’جس نے کسی مسلمان کو غسل دینے میں حقِ امانت ادا کیا اور اس کا راز نہ کھولا، وہ اس طرح گناہوں سے پاک ہوا جیسے آج ہی پیدا ہوا ہے۔‘‘ (مسند احمد) ایک اور حدیث میں آپﷺ کا ارشادِ مبارک ہے:’’جس نے کسی مسلمان کو غسل دیا اور اس کے عیب کو چھپا لیا، اللہ تعا لیٰ اسے چالیس مرتبہ معاف فرما دیتا ہے۔جس نے قبر کھود کر دفن کیا،اسے اتنا اجر ہے جیسے کسی کو تا قیا مت رہا ئش فراہم کر دی اور جس نے کفن پہنا یا اللہ تعالیٰ اسے روزِ قیامت جنت کے عمدہ ریشمی کپڑے اور کمخواب سے آراستہ فرمائیں گے۔‘‘ (مستدرک حاکم)
غسل کے لیے ضروری سامان
(۱) بیری کے پتے،صابن یا شیمپو (۲) روئی /کاٹن(۳)کافور/عطر(۴)کپڑے کے دستانے/ کپڑے کی چھو ٹی تھیلیاں(۵)جسم خشک کر نے کے لیے کوئی صاف کپڑا (۶)پھول داریا گہرے رنگ کی چادریں جو میت کے پردہ کے لیے استعمال میں آئیں گی۔
غسل کا پانی
٭ غسل کا پانی پاک اور صاف ہونا ضروری ہے،پانی نیم گرم ہو، تھو ڑے پانی میں بیری کے پتوں کو جوش دلا کر یہ پانی غسل کے پانی میں ملا دیا جائے۔ (بیری کے پتے اگر آسانی سے نہ مل سکیں تو کوئی بھی خوشبو استعمال کی جاسکتی ہے)۔ (بحوالہ صحیح بخاری)
٭ایک بالٹی میں کا فور ملا کرالگ رکھ لیں، یہ میت پر بہایا جانے والا آخری پا نی ہوگا۔میت کو غسل طاق اعداد میں دیا جائے گا۔
٭غسل دینے والے کے پاس صرف وہی افراد ہو نے چاہئیں جو اس کو مدد دینے کے لیے پہلے سے موجودتھے، کسی دوسرے کی موجودگی مکروہ ہے۔ (ہمارے ملکوں میں اکثر یہ بات دیکھنے میں آ ئی ہے کہ غسل دینے والی خواتین جب میت کے غسل سے فارغ ہوجاتی ہیں آخر میںقریبی رشتہ داروں کو بلایا جاتا ہے کہ آکر میت پر ایک ایک مگ پانی بہائیں اس کی کوئی دلیل ہمیں سنت سے نہیں ملتی)۔
٭میت کے کپڑے اگر آسانی سے نہ اتر سکیں تو قینچی کی مدد سے کاٹ لیے جائیں۔کپڑے اتارتے وقت میت پر گہرے رنگ کی چادر ہو نی چاہیے تاکہ گیلا ہونے پر بھی پردہ رہے۔تمام غسل چادر کے اندر سے ہاتھ ڈال کر ایا جائے گا تاکہ میت کے ستر پر نظر نہ پڑے۔(سنن ابی دائود)
٭نہلا نے والے سب سے پہلے میت کا سر اٹھا کراسے آہستگی سے بیٹھا ہونے کی پوزیشن میں کردیں،پھر اس کے پیٹ کو اطراف سے نرمی سے دبایا جائے‘ تاکہ جو کچھ نکلنے کے قر یب ہو وہ نکل جائے۔ اس موقع پر کثرت سے پانی بہایا جائے تاکہ جو کچھ نکلا ہوپانی اسے بہاکر لے جائے۔
٭غسل دینے والا اپنے ہاتھ پر کپڑے کی تھیلی یا دستانہ پہن کر میت کی طہارت (استنجا) کرے، اور جو بھی نجا ست وغیرہ رہ گئی ہو، اسے اچھی طرح میت کے جسم پر سے صاف کردے۔ یہ دستانہ اب اتارد یا جائے۔
٭ میت اگر خا تون ہو تو سر کے بند ھے ہوئے بال کھول دیں‘۔اب دوسرا صاف دستا نہ پہن لیں اور نہلا نے والا میت کی طرف سے غسل کی نیت کرکے بسم اللہ پڑھ لے۔
وضو
پہلے میت کے ہاتھ دھو ئیں ( ہر عمل تین تین بار اور د ا ئیں طرف سے شروع کریں) پھر گیلی روئی یا کپڑا دائیں سے بائیں پھیرتے ہوئے ہونٹوں کے اندرونی حصہ اور دانت صاف کریں اور ہونٹو ں کو ہلکا سا دباتے ہوئے منہ کو بند کردیں،اسی طرح گیلی روئی نچوڑ کر ناک اور کانوں کو نرمی سے صاف کریں اور صاف روئی ناک اور کانوں میں لگادیں جسے غسل کے بعد نکال دیا جائے گا۔ اس کے بعد چہرہ دھو ئیں، پھر پہلے دایاں ہاتھ اور پھر بایاں ہاتھ کہنیوں تک دھوئیں اور سر کا مسح کریں۔ آخر میں پہلے دایاں پھر بایاں پائوں دھوئیں۔
٭سر کو صابن یا شیمپو سے دھوئیں،دائیں جانب سے غسل کرائیں،دائیں بازو سے پانی ڈالنا شروع کریں دائیں پیر تک پھر ہلکی کروٹ دلا کر پچھلا دایاں حصّہ بھی دھو لیں۔
٭ یہی عمل بائیں طرف دہرائیں، غسل کا پانی طاق اعداد میں بہائیں‘ ۳‘۵‘۷ مرتبہ۔آخری مرتبہ خوشبو(کافور) ملا ہوا پانی ڈالیں۔حضرت امِ عطیہؓ بیان کرتی ہیں کہ:’’رسول اللہ ﷺ ہمارے پاس تشریف لائے، اس وقت ہم آپﷺ کی بیٹی زینبؓ کو غسل دے رہے تھے‘ آپﷺ نے ارشاد فرمایا: تین بار پانچ بار سات بار اور اگر تم مناسب سمجھو تو اس سے بھی زیادہ بار غسل دو، حضرت امِ عطیہؓ بیان کرتی ہیں کہ میں نے عرض کیا: طاق عدد میں؟آپﷺ نے فرمایا:ہاں اور آخری بار کچھ کافور بھی ملا دینا‘پھر جب تم فارغ ہو جائو تو مجھے اطلاع کرنا۔ جب ہم فارغ ہو گئیں تو آپﷺ کو اطلاع کی۔آپﷺ نے ہماری طرف اپنا تہہ بند پھینک کر فرمایا:یہ اندر(اس کے بدن پر ) لپیٹ دو، وہ بیان کرتی ہیں کہ ہم نے ان کے بالوں کو تین حصے کرکے کنگھی کی اور پیچھے ڈال دئیے۔‘‘(صحیح بخاری)
٭ اب چا در جو گیلی ہوچکی اسے نکا ل کر خشک چادر ڈال دیں اور نیچے بھی ایک چادر بچھادیں، اب تو لیہ سے جسم اور بال صاف کرلیں۔ کنگھی بھی کی جاسکتی ہے۔ بال سلجھانے مشکل ہوں تو سر کو رومال سے باندھتے وقت یونہی تین لٹیں کرکے پیچھے ڈال دی جائیں۔
٭ میت کو غسل دیتے وقت مکمل خاموشی اختیار کریں۔ اس وقت کسی قسم کی دعائیں،نعتیں یا اشعار پڑھنا سنت سے ثابت نہیں۔
٭ اللہ کے رسولﷺ نے فرما یا:’’ سفید لباس پہنا کرو۔ یہ تمہارا بہترین لباس ہے اور اسی میں اپنے مُردوں کو کفن دیا کرو۔‘‘( ترمذی)
٭ کفن میں مرد کے لئے تین کپڑے استعمال ہو تے ہیںاور عورت کے لئے پانچ کپڑے۔
کفن کس طرح بچھایا جائے
٭سب سے پہلے تختہ پر ایک مو ٹی چادر بچھادیں، جو میت کو اٹھانے اور قبر میں اتارنے میں مدد دے گی۔
٭ کفن کو با ندھنے کے لیے درمیان، سرہانے اورپیروںکی جانب پٹیاںبچھادیں۔ اس کے اوپر بڑی چادر بچھادیں ۔( کفن کی) اب اس چادر کے اوپر قمیص کا پچھلا حصہ بچھائیں، اگلا حصہ تہہ کرکے پیچھے کی جانب رہنے دیں۔ اس کے بعد ناف سے پائوں تک تہبند بچھائیں۔ پھر سینہ بند گر دن سے گھٹنوں تک بچھائیں۔
کفن پہنانا
٭نہلا نے والے تختے سے چادر پر اٹھا کر میت کو اس جگہ پر رکھیں جہاں کفن بچھا یا گیا ہے۔ احتیاط سے رکھیں کہ بچھا ہوا کفن ہلنے نہ پائے۔ جس چادر پر اٹھا یا تھا اب وہ چادر کروٹ دلا کر نکال دیں۔ اوپر کی چادر ابھی نہیں ہٹا ئی جائے گی۔اس کے اندر سے ہی کفن پہنانے کا عمل جاری رہے گا۔ ہر کپڑے کا بایاں حصہ اندر اور دایاں اوپر آئے گا اور مضبو طی سے لپیٹا جائے گا۔
٭اب ترتیب وار جو کپڑے پہلے بچھائے تھے انہیں لپیٹنا شروع کریں۔ بائیں جانب سے سینہ بند کو دائیں جانب لے جاکر اچھی طرح دبادیں۔اس کے بعد تہبند لپیٹ دیں ‘سب کپڑے اچھی طرح لپیٹیں۔ سر کی طرف تہہ کی ہوئی قمیص کے کٹے ہوئے حصہ میں سے سر نکال کر یہ کپڑا میت کے سینہ پر ڈال دیں اور دونوں بازو سے اچھی طرح دبادیں۔٭سر کے رومال کو عورت میت کے ماتھے ( پیشانی) اور کانوں کو ڈھانپتے ہوئے سامنے گردن کے گرد لپیٹتے ہوئے پیچھے لے جاکر باندھ دیں ۔بال اچھی طرح اندر ہو نے چاہئیں۔
٭جو چادر پردے کے لئے ڈالی گئی تھی اب اسے ہٹادیں۔ اب سب سے پہلے جو کفن کی بڑی چادر بچھائی گئی تھی اسے اچھی طرح لپیٹ کر ‘ سر پیر اور درمیان میں جو پٹیاں بچھائی تھیں اس سے گرہ لگادیں۔ قبر میں اتارنے کے بعد یہ گرہیں کھول دی جائیںگی۔
٭ جن لوگوں نے میت کو غسل دیا ہے ان کے لئے مستحب یہ ہے کہ غسل کرلیں ‘ یا صرف وضو بھی کرلیں تو کافی ہے۔
——