تحفہ ایک ایسا لفظ ہے، جسے سنتے ہی ذہن میں اپنائیت، پیار، محبت اور خلوص جیسے جذبات پیدا ہوتے ہیں۔ ایسے ہی فطری جذبات، جو اگرچہ کسی تعارف کے محتاج تو نہیں، مگر اظہار کا تقاضا ضرور کرتے ہیں۔ بقول شیکسپیئر جو اس کا اظہار نہیں کرتا، وہ دراصل اس سے آشنا ہی نہیں ہے۔ تحفہ دینا انھی جذبات اور احساسات کا مظہر ہے۔ زبانی کلامی دعوؤں کی نسبت اپنائیت اور تعلق کا اظہار تحفہ کے بغیر ادھورا اور پھیکا سا محسوس ہوتا ہے۔ یہ احساس ہی نہایت خوش کن ہوتا ہے کہ ہمارا کوئی اپنا ہمیں اتنی اہمیت دے رہا ہے۔ اس سلسلہ میں نہ تو کوئی موقع اور وقت مقرر ہے اور نہ جنس اور مقدار۔ یہ تو ایک کھلا آفر ہے تھادوا تحابوا تحفہ دو اور محبت بڑھاؤ۔ چناں چہ اللہ کے رسولﷺ نے اس سلسلہ میں واضح ہدایت دی۔ ان ہدایات سے جو بات واضح ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ اس کی اصل اور بنیاد محبت اور اخلاص ہے نہ کہ دکھاوا اور مفاد پرستی۔ آپؐ نے فرمایا:
’’اے مسلمان خواتین! کوئی عورت پڑوسن کو چھوٹی سے چھوٹی چیز بھی ہدیہ میں دینے کو حقیر نہ سمجھے۔ اگر اس کے پاس بکری کی ایک کُھری ہی ہو تو وہی بھیجے۔‘‘
ایک اور جگہ آپ نے خواتین کو اس بات کی تاکید کی کہ اگر گھر میں سالن کم ہے تو کوئی بات نہیں تھوڑا سا پانی ملادو اور اس کا کچھ حصہ پروس میں بھیج دو۔
تحفہ ہمارے پر خلوص جذبات کے اظہا رکا ایک بہترین ذریعہ ہے۔یہ مسرت اپنوں کے خلوص اور پیار کی ہی مرہون منت ہے کہ کوئی ہمیں یاد رکھے، پھر تحفہ خریدنے میں ہماری پسند و ناپسند کو ملحوظ رکھے، یہ عمل ہمیں ایک قسم کی آسودگی کے احساس سے روشناس کراتا ہے۔ چھوٹے چھوٹے تحائف کے تبادلوں سے رشتے مضبوط ہوتے ہیں اور دلوں میں اپنائیت پیدا ہوتی ہے۔ چاہے تحفے میں ایک پھول ہی کیوں نہ دیا گیا ہو، اس کی بھی بہت اہمیت ہے۔
ٹوٹے ہوئے دلوں کو جوڑنے، رنجشیں مٹانے اور مضبوط قرابت داری کے لیے تحائف کو بہت اہمیت حاصل ہے۔ شاید ہی کوئی سماج ایسا ہو، جہاں تحفہ دینے کی روایات قدیم عرصے سے موجود نہ ہوں۔ البتہ ثقافتی مناسبت سے ان کی نوعیت اور طور طریقے ضرور مختلف ہیں۔ جیسے بعض علاقوں میں جب مہمان کسی کے گھر جاتے تھے، تو خالی ہاتھ نہیں جاتے تھے۔ ہمارے ہاں بھی بہت سے گھرانوں میں یہ روایت موجود ہے، تاہم اب یہ کچھ ماند سی پڑ گئی ہے۔
سال گرہ، شادی یا عید بقرعید کے موقع پر تحائف دینے لینے کا رواج آج بھی قائم ہے۔ تحفہ چاہے جیسا بھی ہو اس کی صورت، شکل، قیمت کوئی اہمیت نہیں رکھتیں، بلکہ بس یہ احساس ہمیں خوشی دیتا ہے کہ ہمارے لیے کسی کے دل میں اپنائیت موجود ہے۔ ان کا خلوص بڑا ہوتا ہے، کیوں کہ قیمت سے تحفے کی اہمیت اور وقعت میں کوئی اضافہ نہیں ہوتا۔ اگر دینے والے کے جذبات میں خلوص ہے تو اس کی اہمیت بڑھ جاتی ہے۔ تحفہ دینا دوسروں کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کی اندرونی خواہش کی عکاسی کرتا ہے۔
ایک اندازے کے مطابق مردوں کی نسبت خواتین زیادہ تحائف دینا پسند کرتی ہیں۔ خوشی کا کوئی بھی موقع ہو وہ تحائف کے ذریعے ہی خوشی محسوس کرتی ہیں، کیوں کہ تحفہ دینا محبت کے اظہار کا ایک بہترین ذریعہ ہے۔ مہنگی چیزیں خریدنے کے بہ جائے تحفہ وصول کرنے والے کے مزاج کو مدنظر رکھیں، چیزیں اچھی خریدیں مہنگے سستے پر نہ جائیں، بس جاذب نظر ہونی چاہیے۔ آپ جب کسی کو تحفہ دیں، تو پورے خلوص کے ساتھ دیں، جن لوگوں کو آپ خصوصی اہمیت دیں، ان کی پسند و نا پسند کا بھی خاص خیال رکھیں۔ تحفہ آپ کے ذوق کا پتا دیتا ہے۔ اسے فقط ایک ذمہ داری کو سر سے اتارنے کے طور پر نہ لیں، بلکہ خوش اسلوبی سے یہ کام انجام دیں۔ آپ اپنے احساسات کو دوسروں تک اسی طرح پہنچا سکتے ہیں۔ تحفہ پیش کرنا بھی ایک خصوصی توجہ کا حامل ہے۔ خوب صورت کارڈ اور تازہ مہکتا ہوا گل دستہ بھی ساتھ ہو تو لینے والے کی خوشی دیدنی ہوتی ہے۔ تحفہ دیتے وقت لبوں پر پرخلوص اور دل کش مسکراہٹ، آنکھوں میں چمک، چہرے پر خوشی اور زبان پر دعائیہ کلمات ہونے چاہئیں۔ تحفہ ایک اخلاقی فریضہ ہے، جو دینے والے کو احساس دلائے گا کہ آپ بھی اس کے ساتھ مخلص ہیں۔ عید پر دوستوں کو ہی نہیں بلکہ ان کو بھی تحائف دیں، جو آپ سے ناراض ہیں۔ تحفہ دے کر دلوں کی کدورتیں ختم کریں، اسی میں زندگی کا حسن ہے۔lll