محبت حسنِ اخلاق کا سب سے اہم حصہ ہے، محبت معاشرہ کو جوڑنے والا سیمنٹ ہے۔ محبت کا اظہار مختلف طریقوں سے ہوتا ہے۔ آپس میں محبت و خلوص کو بڑھانے کے لیے ہدیوں اور تحفوں کا تبادلہ بہت مفید چیز ہے۔ ہدیوں کے لینے دینے سے دل جڑتے ہیں، محبتوں میں اضافہ ہوتا ہے، تعلقات خوشگوار ہوتے ہیں اور انسان بہت سے فتنوں سے بچ جاتا ہے۔ وہ حسد سے محفوظ رہتا ہے اور عافیت اور سکون کا ماحول قائم کرنے میں کامیاب ہوتا ہے۔ پیارے رسول ﷺ ارشاد فرماتے ہیں:
’’ایک دوسرے کو ہدیہ بھیجا کرو تو آپس میں محبت پیدا ہوگی اور دلوں کی کدورت اور دوری جاتی رہے گی۔‘‘ (مشکوٰۃ)
نبی کریمﷺ خود اپنے اصحاب کو کثرت سے ہدیے دیتے تھے اور آپؐ کے صحابہ بھی آپس میں ایک دوسرے کو ہدیے اور تحفے دیتے رہتے تھے، اپنے رشتہ داروں اور دوستوں سے خلوص و محبت کا اظہار کرنے کے لیے تحفوں کا تبادلہ کرتے رہتے۔ تحفہ یا ہدیہ دیتے وقت اپنی حیثیت کو سامنے رکھئے اور یہ نہ سوچئے کہ آپ جس کو ہدیہ یا تحفہ دیں قیمتی ہی دیں۔ جوکچھ بھی میسر ہو دیجیے۔ تحفہ کے قیمتی ہونے یا نہ ہونے کا انحصار آپ کے اخلاص و جذبات پر ہے اور یہی خلوص و جذبات دلوں کو جوڑتے ہیں، ہدیہ یا تحفہ کی قیمت نہیں جوڑتی۔ حضرت ابوہریرہؓ کی روایت ہے کہ سرورِ کائنات ﷺ کے ارشاد کے بموجب ایک پڑوسن دوسری پڑوسن کو بکری کا ایک کھر بھی ہدیے میں دے تو یہ کم بات نہیں ہے۔‘‘
حضور نبی کریمﷺ کے ارشاد کا منشا یہ ہے کہ ہدیہ یا تحفہ دینے کے لیے کسی چیز کا عمدہ ہونا کوئی شرط نہیں ہاں یہ ضروری ہے کہ چھوٹا ہدیہ ایسے شخص کو دیا جائے جو اسے لینے میں ہتک اور توہین نہ سمجھے۔ اگر خوف ہے کہ معمولی یا گھٹیا چیز تحفے میں دیے جانے سے لینے والے کو توہین و تذلیل محسوس ہوگی تو ایسے تحفہ دینے سے نہ دینا اچھا ہے۔ اس سلسلہ میں حضورؐ کا طریقہ یہ تھا کہ ہدیہ اور تحفہ بخوشی قبول فرماتے تھے اور اس کے جواب میں خود بھی تحفے اور ہدیے دیا کرتے تھے۔ چنانچہ بخاری شریف میں ہے کہ ’’رسول اللہ ﷺ ہدیہ قبول فرماتے تھے اور اس کے جواب میں خود تحفہ دیتے تھے اور آپؐ نے ارشا فرمایا: ’’اگر مجھے تحفہ میں کوئی بکری کا ایک پایا بھی پیش کرے تو میں ضرور قبول کروں گا اور اگر کوئی دعوت میں ایک پایا بھی کھلائے تو میں ضرور اس کی دعوت میں جاؤں گا۔‘‘ (ترمذی)
رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے کہ ’’اگر کوئی شخص تحفہ دینے والے کو جواباً کوئی مناسب تحفہ نہ دے سکے تو اظہارِ تشکر ہی کافی ہے۔ اگر کسی شخص نے اظہارِ تشکر بھی نہیں کیا تو یہ بداخلاقی کی بات ہے۔ ایک حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ تحفہ لے کر آدمی جزاک اللہ بھی کہہ دے تو شکرانِ نعمت کا حق ادا ہوجاتا ہے، لیکن اگر کوئی شخص کسی کے ہدیے تحفے کو چھپائے یا ذکر کرنے سے اعراض کرے تو یہ ناشکری کی بات ہے اور سخت ناپسندیدہ ہے۔ آپؐ کے الفاظ یہ ہیں:
’’جس شخص نے احسان کرنے والا کا شکریہ ادا نہیں کیا اس نے اللہ کا شکرادا نہیں کیا۔‘‘
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
ہل جزاء الاحسان الا الاحسان۔ (الرحمن)
’’احسان کا بدلہ سوائے احسان کے اور کیا ہوسکتا ہے؟‘‘
حضرت ابوذر غفاریؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
’’تم میں سے کوئی احسان کی کسی صورت اور کسی قسم کو بھی حقیر نہ سمجھے، پس اگر اپنے بھائی کو دینے کے لیے کچھ بھی نہ پائے تو اتنا ہی کرے کہ شگفتہ روی کے ساتھ اس سے ملاقات کرے (یہ بھی حسنِ سلوک کی ایک صورت ہے) اور جب تم گوشت خریدو یا ہانڈی پکاؤ تو اس میں شوربا بڑھا دیا کرو۔ پھر چمچہ بھر اس میں سے اپنے پڑوسی کے لیے بھی نکالا کرو۔‘‘ (جامع ترمذی)
مطلب یہ ہے کہ ہر شخص کو چاہیے کہ وہ اپنے رشتے داروں اور اپنے پڑوسیوں کے ساتھ حسنِ سلوک کیا کرے، حسبِ استطاعت ان کو تحفے دیا کرے اور اگر تحفے دینے کے لیے کوئی عمدہ چیز نہ ہو تو جو کچھ بھی میسر ہو وہی دے دے اور اس کو حقیراور معمولی سمجھ کر دینے سے نہ رکے۔ اگر کچھ بھی میسر نہ ہوتو اتنا ہی کرے کہ شگفتہ روی اور خندہ پیشانی کے ساتھ ان سے ملا کرے یہ بھی حسنِ سلوک کی ایک صورت ہے ا ور تحفہ تحائف کی طرح اس سے بھی باہمی محبت میں اضافہ ہوتا ہے۔