برصغیر ہندوپاک کی تاریخ میںچند ایسی بہادر اور عقلمند عورتوں کا ذکر آتا ہے جنھوں نے آسمان شہرت پر درخشندہ ستاروں کی مانند اپنا نام ثبت کردیا۔ ان کی خدمات، ان کا عزم و حوصلہ، ان کی عقل مندی و دانائی اور ان کا علم و فضل وہ عظیم خوبیاں ہیں جو ہر دور کی خواتین کے نشان راہ بنی رہیں گی اور ہر دور کی خواتین کے تذکرے سے عزم و حوصلہ اور قوت حاصل کرتی رہیں گی۔
۱- رضیہ سلطانہ
پہلی مسلمان خاتون تھی جو دہلی کے تخت پر جلوہ افروز ہوئی۔ اس کا باپ التمش، خاندانِ غلاماں کا قابل ترین حکمراں تھا ، جس کے اٹھارہ لڑکے تھے۔ وہ کہا کرتا تھا میرے اٹھارہ لڑکوں میں اتنی دانائی اور جرأت نہیں جتنی میری ایک لڑکی رضیہ میں ہے۔ چنانچہ التمش کی وفات کے بعد رضیہ نے اسے سچا ثابت کردکھایا۔
وہ اپنے باپ کی زندگی میں ہی سلطنت کے کاموں میں حصہ لیا کرتی تھی اور التمش جب بھی کہیں دور دراز کے علاقوں میں جاتا تو سلطنت کا انتظام رضیہ کے سپرد ہوتا تھا۔ وہ مستقل مزاج، بہادر، معاملہ فہم اور دور اندیش تھی۔ اور اس نے اپنی خداداد صلاحیتوں کا اس طرح اظہار کیا کہ عورت کی خلقی کمزوریاں اس کی راہ میں حائل نہ ہوسکیں۔
تخت نشین ہونے کے بعد وہ سلطنت کی تمام کارروائی کوخود سنتی، احکام صادر کرتی، مظلوموں کی داد رسی کرتی یہاں تک کہ گھوڑے پر سوار ہوکر خود میدانِ جنگ میں بھی پہنچتی۔
۲- چاند بی بی
دکن کے علاقہ میں احمد نگر کی ریاست بہت مشہور تھی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب اکبر ہندوستان کا شہنشاہ تھا۔ احمد نگر کے والی کی لڑکی کا نام چاند بی بی تھی جس کی شادی بیجاپور کے والی علی عادل شاہ سے ہوچکی تھی مگر قسمت میں بیوگی لکھی تھی اس لیے تھوڑا ہی عرصے کے بعد علی عادل شاہ مرگیا۔ اور چاند بی بی بیوہ ہوکر اپنے ماں باپ کے گھر احمد نگر آگئی۔ وہ بہت مدبر اور بہادر عورت تھی، اس لیے اسے احمد نگر کے نابالغ والی اور اس کے بھتیجے کا سرپرست مقرر کردیا گیا۔ دکن کی تمام ریاستوں میں باہمی چپقلش جاری تھی اس لیے ایک کی دعوت پر اکبر نے اپنے لڑکے شہزادئہ مراد کو احمد نگر کی فتح کرنے کے لیے روانہ کیا۔ وہ بہت سا لشکر لے کر احمد نگر پر حملہ آور ہوا مگر چاند بی بی کا مقابلہ نہ کرسکا اور شکست کھاکر واپس چلا گیا۔
دوسرے سال شہزادئہ مراد پھر حملہ آور ہوا مگر اب کی دفعہ پھر چاند بی بی کا مقابلہ نہ کرسکا۔ اور دریائے گوداوری کے کنارے شکست کھاکر واپس چلا گیا۔ اب اکبر نے خود احمد نگر پر چڑھائی کردی اور جب دکن کی حدود میں داخل ہوا تو شہزادہ مراد کو حملہ کی غرض سے روانہ کیا۔
چاند بی بی نے بہت بہادری سے مقابلہ کیا مگر مراد کے لشکر نے قلعے کی ایک دیوار میں بہت بڑا شگا ف کردیا۔ اور چاند بی بی کی فوجوں میں خود اس کے خلاف بغاوت پھیل گئی اور سازشیوں نے افراتفری پھیلادی۔ سخت اندھیری رات تھی اور بادوباراں کا طوفان بہت زوروں پر تھا مگر چاند بی بی اپنے چند جاں نثاروں سمیت قلعے کی دیوار کا شگاف بند کرارہی تھی۔ اس نے نہایت استقلال سے ہر مصیبت کا مقابلہ کیا مگر قسمت کا مقابلہ نہ کرسکی اور باغیوں نے اسے قتل کردیا۔ دوسرے دن قلعہ مغلوں کے زیرِ نگیں تھا۔چاند بی بی کی جرأت اور دانائی و استقلال نے اکبر جیسے جری شہنشاہ سے بھی خراجِ تحسین وصول کیا۔
۳- نور جہاں
اکبر کے زمانے میں نور جہاں کے والدین ایران سے ہندوستان میںآئے اوراکبر کے دربار میں انھیں جگہ مل گئی۔ اس کا نام مہر النساء تھا۔ پہلی شادی شیرافگن کے ساتھ ہوئی اور اس کی وفات کے بعد جہانگیر سے کی گئی جہاں اس کا نام نورمحل اور پھر نور جہاں رکھا گیا۔
جہانگیر اس سے بہت محبت کرتا تھا اور سلطنت کا ساراانتظام اس کے حوالے کررکھا تھا۔ وہ تیر اندازی میں یکتا تھی، بہترین شاعرہ ہونے کے ساتھ ساتھ عطر کی موجد بھی تھی۔ وہ خوبصورتی، دانائی اور دور اندیشی میں اپنی مثال آپ تھی۔ یہاں تک کہ سکوں پر بھی نور جہاں کانام کندہ ہوتا تھا۔ وہ غریب پرور تھی اور کئی بیواؤں کووظیفے دیا کرتی تھی حالاںکہ جہانگیر کی وفات کے بعد اس کا اقتدار جاتا رہا تھا اور شاہ جہاں کی طرف سے معمولی پنشن ملتی تھی تاہم اس کی غریب پروری میں کوئی کمی نہ آئی تھی۔
شاہدرہ لاہور میں اس کا مزار اب تک دنیا کی بے ثباتی کا مظہر ہے۔
۴- ممتاز محل
یہ عزت والی خاتون شاہجہان کی بیوی تھی، تاریخ میں اس کی محبت کو لازوال مقام حاصل ہے۔ شاہجہان کو اس کی عادتیں اس قدر پسند تھیں کہ اس نے ایک بڑا شہنشاہ ہوتے ہوئے بھی دوسری شادی نہ کی۔ مرتے وقت ممتاز محل نے شاہجہان کو اپنی محبت کی قسم دے کر کہا کہ وہ دوسری شادی نہ کرے اور اسکا مقبرہ اس شان سے بنوائے کہ رہتی دنیا تک ان کی محبت کا ڈنکا بجتا رہے۔ شاہجہان نے اپنی محبوب بیوی کی دونوں آرزؤں کو پورا کیا۔
شاہجہان نے ممتاز محل کی قبر پر تاج محل جیسی نادرئہ روزگار عمارت بناکر ممتاز محل کی محبت کو ابدیت عطا کی۔ ٹیگور کا کہنا ہے کہ تاج محل شاہجہاں کی محبت کا آنسو ہے جو ممتاز محل کی یاد میں اس کی آنکھ سے ٹپکا اور منجمد ہوکر رہ گیا۔ ممتاز محل اورنگ زیب جیسے مردِ مجاہد کی ماں تھی جس کو دشمن بھی مغلِ اعظم کہتے ہیں۔
۵- اشرف النساء بیگم
یہ نواب عبدالصمد خاں حاکمِ لاہور کی لڑکی تھی۔ اس کو قرآن پاک سے عشق تھا۔ وہ نمازِ فجر کے بعد سے تلاوت قرآن میں مشغول ہوجاتی اور چاشت کے بعد تک تلاوت میں محور رہتی۔ پھر ظہر کی نماز کے بعد عصر تک تلاوت کیا کرتی تھی۔
تلاوت کرتے وقت وہ تلوار اپنے پاس رکھتی تھی۔ اس کا کہنا یہ تھا کہ قرآن تلوار چلانے کی ہدایت دیتا ہے اور تلوار قرآن کے احکام کی روشنی میں استعمال کرنا جہاد اور اس کے بغیر ظلم ہے۔
اس کی یہ دلچسپی ماں باپ کے لیے باعثِ مسرت تھی۔ اس نے شادی کی درخواست کو ٹھکرادیا اور اٹھارہ سال کی عمر میں جب سخت بیمار ہوئی تو ایک روز ماں کو پاس بلا کر کہا: ’’میں ساری عمر قرآن سے محبت کرتی رہی ہوں، میرے مرنے کے بعد میرے مقبرہ میں قرآن بھی رکھ دینا۔‘‘
جب وہ مرگئی تو اس کے مقبرہ میں قرآن رکھ دیا گیا اور قبر کے تعویذ میں خاص انداز سے دفن کیا گیا۔ مدتیں گزرنے کے بعد بندہ بیراگی کے ظالم سکھوں نے اس تعویذ کو خزانہ سمجھ کر اکھاڑا اور برباد کردیا۔ ان کا خیال تھا کہ نواب عبدالصمد خاں نے خزانہ دفن کیا ہوگا مگر یہ دیکھ کر انہیں حیریت ہوئی کہ قبر کے تعویذ میں سے خزانہ نہیں بلکہ قرآن پاک اور ایک تلوار برآمد ہوئی ہے۔
تاریخ میں اشرف النساء کو قرآن پاک سے محبت کرنے کی بنا پر نیک اور پاکباز مسلم خاتون کی حیثیت سے جگہ دی گئی ہے۔
ان چند خواتین کا ذکر کرنے سے مقصد صرف یہ تھا کہ ہماری بہنیں خود کو ہیچ نہ سمجھیں۔ یہ بات ذہن نشین کرلیں کہ اگر ایک عورت بھی اچھی صفات کو اپنالے، اور اپنے کردار کو بلند کرلے تو تاریخ میں اونچا مقام حاصل کرسکتی ہے۔