دنیا کی قدیم و جدید قوموں میں کوئی قوم ایسی نہیں ملتی جس نے ایسے نوجوان تیار کیے ہوں جیسے کہ عہدِ رسالت میں اور پھر اس کے بعد عہدِ خلافت راشدہ میں امت مسلمہ نے تیار کیے تھے۔ چنانچہ اس وقت کے تربیتی نظام نے انتہائی مختصر مدت میں سرفروش نوجوانوں کی ایسی جماعت تیار کردی جو اپنے دین و عقیدے کو ہی اپنا سرمایۂ حیات سمجھتی تھی اور یہ دین و عقیدہ اس کی رگوں میں خون بن کر گردش کرتا تھا۔ چنانچہ وہ اس دین و عقیدہ کی راہ میں قربان ہوجانے کی خاطر میدان جنگ کے لیے ایک دوسرے سے بڑھ جانے کی کوشش کرتے تھے۔
اس بات میں کسی کو حیرت نہیں ہونی چاہیے کیونکہ انھوں نے قرآن سے یہ زندئہ جاوید خدائی تعلیم پائی تھی کہ ’’اللہ کے رسول ﷺ کی زندگی میں تمہارے لیے اچھا نمونہ ہے۔‘‘
واقعہ کے اس پہلو کا مطالعہ کیا جانا چاہیے کہ آخر وہ کون سے ذرائع تھے جن کی مدد سے اسلامی نظام تربیت نے کمسن اور کم عمر نوجوانوں کو بھی روحِ جہاد سے سرشار کردیا تھا چنانچہ بدر کے لیے کوچ کرتے ہوئے رسول اللہ ﷺ کو راستہ میں کچھ بہت کم عمر کے لڑکے ملے جو فریضۂ جہاد میں شرکت کے متمنی تھے۔ کاش ہمارے دور کے نوجوان اس دور کے نوجوانوں کی زندگی سے کچھ سبق لیتے۔
اسی طرح غزوۂ احد کے موقع پر رسول اللہ ﷺ کو راستے میں چند لڑکے ملے جن میں عبداللہ بن عمرؓ زید بن ثابتؓ اسامہ بن زیدؓ، براء بن عازب اسید بن حضیرؓ، عرابہ بن اوسؓ، زیدبن ارقمؓ اور ابوسعید خدریؓ شامل تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے ان سے دریافت فرمایا کہ کہاں جارہے ہیں؟ تو معلوم ہوا کہ ارادئہ جہاد لے کر نکلے ہیں اور جنگ میں شریک ہونا چاہتے ہیں لیکن نبی ﷺ نے ان سب کو ان لوگوں کے ساتھ واپس کردیاجو معذور تھے۔
کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ یہ سب کچھ نتیجہ تھا صرف محمد ﷺ کی قیادت کا۔ چنانچہ جب آپ دنیا سے تشریف لے جاچکے تو نہ وہ نظام تربیت باقی رہ گیا نہ ہی وہ نوجوان۔ لیکن ایسا کہنے والے حضرات اللہ تعالیٰ کی وہ بات بھول جاتے ہیں جو اس نے محمد ﷺ کی زبان سے کہلوائی کہ:
’’آج تمہارے لیے تمہارے دین کو ہم نے مکمل کردیا اور اپنی نعمت تم پر پوری کردی اور تمہارے لیے اسلام دین پسند کیا۔‘‘
نوجوانوں کی رہنمائی کے لیے محمد ﷺ کا پیش کیا ہوا نظامِ تربیت ہر زمانہ اور ہر جگہ کے لیے مفید اور قابلِ اتباع ہے وہ کبھی بھی محمد ﷺ کی ذات کے ساتھ مخصوص یا آپ کی زندگی تک ہی محدود نہ تھا۔
نوجوانوں کی صحیح خطوط پر تربیت یاان کے لیے کوئی تربیتی نظام مرتب کرنے کے سلسلے میں حضرت ابوبکر صدیقؓ علم نفسیات اور فن تربیت دونوں پر بیک وقت دستگاہ رکھتے تھے اور ایسا کیوں نہ ہو جب کہ وہ خود درسگاہ نبوت کے تربیت یافتہ تھے اور عشرۂ مبشرہ میں سے تھے۔ حضرت ابوبکرصدیقؓ نے تربیت کا جو طریقہ اختیار کیا تھا اس کے اہم بنیادی نکات درج ذیل ہیں:
(۱) اللہ کا تقویٰ اختیار کرو کیونکہ وہ تمہارے ظاہر و باطن دونوں سے یکساں طور پر باخبر ہے۔
(۲) جب کسی جماعت کے پاس تمہارا آنا ہو تو ان کے ساتھ اچھی ہم نشینی اور خیرسگالی کے جذبات کا مظاہرہ کرو اور ان سے بھلائی کا وعدہ کرو۔
(۳) جب انھیں نصیحت کرو تو کم لفظوں میں کرو کیونکہ زیادہ بولنا ایک بات دوسری بات کو ذہن سے محو کردیتا ہے اور آدمی اسے بھول جاتا ہے۔
(۴) اپنے آپ کو درست کرلو تو سارے لوگوں کو اپنے لیے درست پاؤ گے۔
(۵) جب تم سے کسی معاملہ میں مشورہ طلب کیا جائے تو سب سے اچھی بات صحیح مشورہ ہے۔
(۶)نیک لوگوں کے پاس بیٹھو۔
ان چھ شرطوں یا قیمتی نصیحتوں نے ان تمام شرائط کو اپنے اندر سمیٹ لیا ہے جن کا نوجوانوں کے کسی قائد یا مسلمانوں کے کسی ذمہ دار میں پایا جانا ضروری ہے۔