تربیتِ اولاد اور قرآنی رہنمائی

ڈاکٹر نکہت محمد رشید شیخ

مسلمان والدین کے لیے اولاد کی تربیت فرض کی حیثیت رکھتی ہے۔ اولاد کی جسمانی ضرورتوں کو پورا کردینا اور نگہداشت کے فرائض توبے زبان جانور بھی انجام دیتے ہیں۔ بحیثیت مسلمان والدین کی ذمہ داری اولاد کی جسمانی، ذہنی، فکری، نفسیاتی اور روحانی تربیت ہے۔ جو فرض عین ہے۔ اللہ سبحانہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
قوا انفسکم و اہلیکم نارا۔ (التحریم:۳)
’’بچاؤ اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو جہنم کی آگ سے۔‘‘
رسول ﷺ کو بھی آغازِ نبوت ہی میں حکم دیا گیا کہ
انذر عشیرتکم والاقربین۔
’’قریبی رشتہ داروں کو جہنم سے ڈراؤ۔‘‘
رسولؐ کے امتی ہونے کے سبب ہم پربھی یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ اپنے خاندان والوں کو آخرت کے خسارے سے بچانے کی فکر کریں۔ اسی حکم کو رسول کریم ﷺ نے ایک خوبصورت تمثیل کے ذریعے بیان فرمایا۔ آپ فرماتے ہیں:
کلکم راع، وکلکم مسؤل عن رعیتہ۔
’’تم میں سے ہر ایک نگراں ہے اور ہر ایک اپنی رعیت کے بارے میں جوابدہ ہے۔‘‘
دوسری حدیثوں سے اس بات کی مزید تشریح ہوتی ہے کہ ایک مرد اپنے پورے کنبے کے لیے ایک چرواہے کی طرح ہے، جس کے لیے اس کا کنبہ بھیڑوں کی مانند ہے۔ اسی طرح ایک عورت اپنے بچوں کے لیے مسؤل ہے اور وہ اس کی رعیت قرار دیے گئے ہیں۔ خلاصہ یہ کہ اپنے بچوں کی اسلامی تربیت ہماری اولین ذمہ داریوں میں سے ایک ہے۔
اس ضمن میں قرآنِ کریم ایک نہایت ہی حکیم والد حضرت لقمان کی مثال پیش کرتا ہے۔ جن کی حکمت اور فراست کی گواہی خود کلامِ الٰہی دینا ہے۔ جن کی حکمت کے چرچے خود عربوں کے یہاں موجود تھے۔ اس حکیم والد کی وصیت اللہ سبحانہ تعالیٰ کو اس قدر پسند آئی کہ اسے رہتی دنیا کے لیے محفوظ کرلیا۔ سورۃ لقمان کی آیت ۱۳ ہے:
’’میرے پیارے بچے! اللہ کے ساتھ کسی کو بھی شریک نہ کرنا بیشک شرک بڑا بھاری ظلم ہے۔‘‘
لقمان حکیم اپنے بچے کی تربیت کا آغاز توحید کی دعوت سے کرتے ہیں۔ ہمارے لیے اس میں یہ سبق پوشیدہ ہے کہ سب سے پہلے ہمیں جس بات کے لیے ذہن سازی کرنی ہے وہ یہ کہ اپنے بچوں کو توحید کاسبق پڑھائیں اور انھیں شرک سے محفوظ و مامون رکھنے کی کوشش کریں۔ حکیم لقمان مزید تاکید کرتے ہوئے کہتے ہیں :
’’پیارے بیٹے! اگر کوئی چیز رائی کے دانے کے برابر ہو یا کسی چٹان میں ہو یا آسمانوں میں ہو یا زمین میں ہو پھر بھی اللہ تعالیٰ اسے ضرور لائے گا اللہ تعالیٰ باریک بین اور خبردار ہے۔ اے میرے پیارے بیٹے! تو نماز قائم رکھنا، اچھے کاموں کی نصیحت کرتے رہنا، برے کاموں سے منع کیا کرنا اور جو مصیبت تم پر آجائے صبر کرنا (یقین مان) کہ یہ (بڑی) ہمت کے کاموں میں سے ہے۔ لوگوں کے سامنے اپنے گال نہ پھلا اور زمین پر اترا کر نہ چل۔ کسی تکبر کرنے والے شیخی خورے کو اللہ تعالیٰ پسند نہیں فرماتا۔ اپنی رفتار میں میانہ روی اختیار کر، اور آواز پست کر، یقینا آوازوں میں بدترین آواز گدھے کی آواز ہے۔‘‘ (لقمان:۱-۱۳)
یہ نصیحتیں والدین کے لیے ایک مکمل اسلامی تربیت کا ماڈل پیش کرتی ہیں۔ اولاً یہ کہ انداز نہایت ہی مشفقانہ ہو، بہت ہی پیار اور اپنائیت کے ساتھ یہ تعلیمات دی جائیں۔ دوم: اسلامی تربیت کا آغاز توحید یعنی عقیدہ کی درستگی سے ہو، لیکن تربیت کا یہ طرز صرف عقائد اور عبادات پر مشتمل نہیں بلکہ معاملات بھی اس میں ایک اہم رکن کی حیثیت سے شامل ہیں۔ غور کیا جائے تو ان نصیحتوں میں پہلی دو نصیحتیں عقائد یعنی توحید اور آخرت سے تعلق رکھتی ہیں اس کے بعد کی تین عبادات سے متعلق، جس میں اقامتِ صلوٰۃ اور امر بالمعروف و نہی عن المنکر شامل ہے۔ اس کے بعد کی پانچوں نصیحتیں معاملات اور اخلاقیات سے متعلق ہیں۔ اسلامی تربیت میں یہ سارے پہلو عقائد، عبادات، اخلاقیات او رمعاملات شامل ہونے چاہئیں۔
سوم: حکیم لقمان نے اپنے بیٹے کے سامنے آخرت کو ایک اٹل حقیقت کے طور پر پیش کیا۔ جس کا مقصد بچوں کی ذہن سازی میں آخرت کی جوابدہی کا احساس اور شعور پیدا کرنا ہے۔ یہ کام آغاز سے ہی شروع ہوجانا چاہیے۔ چوتھی وصیت اقامتِ صلوٰۃ سے متعلق ہے۔ خود نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اپنے بچوں کو نماز پڑھاؤ جب کہ وہ سات سال کے ہوجائیں اور جب وہ دس سال کے ہوجائیں تو ان پر نماز کے لیے زور ڈالو اور ان کے بستروں کو علیحدہ کردو۔ (ابوداؤد)
عادتِ نماز اگر کم عمری ہی میں راسخ ہوجائے تو پھر اس کا ادا کرنا نہیں بلکہ اسے قضا کرنا مشکل معلوم ہونے لگتا ہے۔
چہارم: دین کو مکمل طور پر پیش کرنا کہ اس میں محض عبادات شامل نہ ہوں بلکہ دوسروں کی خیرخواہی اور انسانیت کی محبت کا جذبہ بھی پایا جاتا ہو جس کے تحت ایک انسان امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ انجام دیتا رہے۔ اس کام کو کرنے میں جو بھی مشکلیں آئیں انہیں برداشت کرنا چاہیے۔
پنجم: لوگوں کے ساتھ معاملات کی درستگی جس میں اخلاقیات کو سب سے زیادہ اہمیت دی گئی ہے۔ اپنے چہرے کے اتار چڑھاؤ سے لے کر چال ڈھال تک کا خیال۔ مزید یہ کہ کبھی آواز سے بھی کوئی غیر اخلاقی یا غیر مہذب انداز نہ جھلکے۔
دوسری عظیم مثال جو قرآن کریم پیش کرتا ہے وہ ایک عظیم المرتبت اور جلیل القدر پیغمبر حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ہے۔ جب انھوں نے اپنے خواب کے متعلق اپنے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام سے فرمایا: ’’میرے بیٹے! میں خواب میں اپنے آپ کو تجھے ذبح کرتے ہوئے دیکھ رہا ہوں۔ اب تو بتا کہ تیری رائے کیا ہے؟‘‘ غور کیجیے کہ یہاں ایک حکم الٰہی بذریعہ خواب حضرت ابراہیمؑ کے پاس پہنچ رہا ہے لیکن تب بھی سختی نہیں بلکہ نہایت پیار و شفقت کے ساتھ نوجوان بیٹے سے مشورہ کیا جارہا ہے۔ اس کی رائے لی جارہی ہے۔ صالح تربیت کا ہی نتیجہ ہے کہ بیٹا خود کو اس مقصد کے لیے بلا تردد پیش کردیتا ہے۔ یہ مثال والدین کے لیے یہ اسوہ پیش کرتی ہے کہ ہم اپنی اولاد کے ساتھ بات کریں، صرف اپنا حکم صادر کرنے کے لیے اور اپنی بات سنانے کے لیے نہیں بلکہ ان کی بھی سنیں اور انھیں سمجھنے کے لیے باہم گفتگو کرتے رہا کریں۔ آج ماہرینِ نفسیات یہ بتاتے ہیں کہ بچوں سے مشورہ کرنے سے نہ صرف ان کے اندر خود اعتمادی میں اضافہ ہوتا ہے بلکہ ساتھ ہی ساتھ جو نصیحت آپ انھیں دینا چاہ رہے ہیں وہ اسے خود اپنے فیصلے کے طور پر قبول کرتے ہیں، چنانچہ اس پر عمل پیرا ہونا بھی ان کے لیے آسان ہوجاتا ہے۔
قرآن کریم کی ان مثالوں میں مسلمان والدین کے لیے مکمل ہدایات موجودہیں۔ ہمیں چاہیے کہ ان باتوں پر توجہ دیں اور اپنی عملی زندگی میں ان سے فائدہ اٹھائیں اور ساتھ ہی یہ بھی جاننے کی فکر کریں کہ قرآن کریم اور رسول ﷺ نے ہمیں تربیت اولاد کے سلسلے میں کیا کیا ہدایات دی ہیں۔
——

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں