نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا: ہر بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے پس اس کے ماں باپ اس کو یہودی یا نصرانی یا مجوسی بنادیتے ہیں۔ (بخاری و مسلم) نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا: باپ اپنی اولاد کو جو کچھ دیتا ہے اس میں سب سے بہترین عطیہ اس کی اچھی تعلیم و تربیت ہے۔ (مشکوٰۃ)
اولاد کی تعلیم و تربیت ہماری بنیادی ذمہ داری بھی ہے اور ہماری زندگی کا سرمایہ بھی۔ اولاد کی اچھی تعلیم و تربیت، ان کے مستقبل کو روشن کرنے کی فکر، روزگار، معاشی خوشحالی کے حصول کے لیے احساسِ ذمہ داری ہر ماں باپ کی خواہش بھی ہوتی ہے اور کوشش بھی، لیکن کیا اسی طرح ہم ان کی آخرت سازی، کردار سازی اور بلندی اخلاق کی بھی فکر کرتے ہیں؟ یہ اہم سوال ہے۔ یہ سوال اس لیے بھی اہم ہے کہ براہِ راست ہماری اپنی زندگی سے جڑا ہے۔ اگر ہم اولاد کی صالح تربیت کی فکر اور کوشش کریں گے تو وہ نیک اور فرماں بردار ہوگی اور اگر اولادفرماں بردار مل گئی تو گویا دنیا ہی میں جنت حاصل ہوگئی۔ اور اگر ایسا نہ ہوسکا تو کتنے ہی لوگ ہیں جن کی زندگیوں کو ان کی اولاد کی نافرمانیوں نے جہنم بنادیا ہے اور وہ ان کی نافرمانی پر ہر دم شکوہ کرتے رہتے ہیں۔ اس میں اولاد کا قصور کم والدین کا زیادہ ہے۔ کیونکہ جہاں نیک اور تعلیم یافتہ ماں باپ ہوں وہ گھر تہذیب و انسانیت کی درس گاہ ہوتا ہے۔
ہمارے رسول ﷺ نے اس حقیقت پر بہت واضح اور زور دے کر متوجہ کیا ہے کہ والدین اپنی اولاد کو صالح تربیت دیں۔ اس سلسلے میں آپ نے یہ بھی ہدایت فرمائی کہ والدین کن چیزوں پر توجہ دیں،کیا کریں اور کیا نہ کریں۔
شیخ سعودؒ نے فرمایا اگر تم چاہتے ہو کہ تمہارا نام باقی رہے تو اولاد کو اچھے اخلاق سکھاؤ۔نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا جب اولاد کی عمر سات سال کی ہو تو اسے نماز کا حکم کرو اور دس سال کی عمر میں مار کر نماز پڑھاؤ۔ (مشکوٰۃ) بے شک نماز مسلمانوں پر فرض ہے متعین وقت کے ساتھ (النساء: ۱۰۳)
امام غزالیؒ نے فرمایا: تمہاری نابالغ اولاد کی مثال نرم و نازک لکڑی یا بیل کی طرح ہے اگر تم انہیں سیدھا رکھوگے تو وہ سیدھی رہیں گی تم اس کو ٹیڑھا کروگے یا یوں ہی چھوڑ دو گے تو ٹیڑھی ہوجائیں گی یا قریبی سہارے کو پکڑلیں گی، اب تمھیں اختیار ہے جس حالت کو چاہو اختیار کرو۔
حضرت لقمان نے اپنی اولاد کو کچھ نصیحتیں فرمائیں۔ اللہ کو یہ نصیحتیں اتنی پسند آئیں کہ اللہ نے ان کو قرآن میں نقل کردیا اور قیامت تک کے لیے ہر ماں باپ کو ان پر عمل کرتے ہوئے اپنی اولاد کو اس طرح نصیحتیں کرنا ہوگا۔
’’اور جب لقمان نے اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے کہا: بیٹا! اللہ کے ساتھ کبھی شرک نہ کرنا، بے شک شرک بہت بڑا ظلم ہے۔ اے میرے بیٹے! اگر کوئی عمل رائی کے دانے کے برابر ہو، اور ہو بھی کسی پتھر کے اندر یا آسمانوں میں مخفی ہو یا زمین میں ہو تو اللہ اس کو بھی لے آئے گا، بلا شبہ اللہ بڑا باریک بیں ہے اور خبردار ہے۔ اے میرے بیٹے! نماز پابندی سے ادا کرتے رہنا اور اچھی باتوں کا حکم کرتے رہنا اور بری باتوں سے منع کرتے رہنا اور معصیت پر صبر کرتے رہنا جو تجھے پہنچے۔ بلاشبہہ یہ بڑی ہمت کے کام ہیں اور لوگوں کے سامنے (غرور) سے اپنے گال نہ پھلانا، اور زمین پر اکڑ کر نہ چلنا، بے شک اللہ کسی متکبر فخر کرنے والے کو پسند نہیں کرتا، اور اپنی چال میں میانہ روی اختیار کرنا اور اپنی آواز کو پست رکھنا بے شک آوازوں میں سب سے بری آواز گدھوں کی آواز ہے۔‘‘ (لقمان: ۱۳،۱۶،۱۹)
اللہ نے فرمایا: ’’مومنو! تم اللہ سے ڈرو اور درست (سچ) بات کیا کرو۔‘‘ (احزاب: ۷۰)
نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’سچائی اختیار کرو، اس لیے کہ سچائی نیکی کی طرف رہنمائی کرتی ہے اور نیکی انسان کو جنت تک لے جاتی ہے۔‘‘ (مسلم)
اللہ نے فرمایا: ’’اور وہ اللہ ہی ہے جس نے رات کو تمہارے لیے پردہ اور نیند کو آرام کی چیز بنایا اور دن کو اٹھنے کا وقت بنایا۔‘‘ (فرقان: ۴۷)
ان نصیحتوں پر ہم خود عمل کرکے اپنی اولاد کو ان کی تلقین کریں گے تو اولاد نہ تو ماں باپ کی نافرمان ہوگی نہ اللہ اور رسول ﷺ کی نافرمان ہوگی بلکہ فرمانبردار ہوگی۔ ان شاء اللہ