تربیت اولاد – سات اہم باتیں

قاضی جاوید احمد

اپنا جائزہ
بچے کی شخصیت کا تعین کرنے میں یہ بات اہم رول ادا کرتی ہے کہ والدین اس کے بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں۔ وہ آپ کے لفظوں اور ان کہے رویوں کو اہم سمجھتا ہے۔ جب اس کو یہ احساس ہو کہ والدین اس سے سچی محبت کرتے ہیں اور اس کا احترام کرتے ہیں تو پھر اس میں خودداری کا جذبہ نشوونماپاتا ہے۔ وہ اپنے آپ کو اہم خیال کرنے لگتا ہے۔ اس کو اپنی ذات کی وقعت کا احساس ہوتا ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ وہ غیر مطلوب نہیں بلکہ اہم فرد ہے۔ دوسروں کو اس کی ضرورت ہے اور دوسرے اس سے پیا رکرتے ہیں اور احترام بھی کرتے ہیں۔
اکثر بچوں کو معلوم ہوتا ہے کہ والدین ان سے محبت کرتے ہیں۔ لیکن ان کو یہ یقین نہیں ہوتا کہ والدین ان کا احترام بھی کرتے ہیں۔ بچے کو یہ احساس تو ہوسکتا ہے کہ آپ اس سے بے پناہ محبت کرتے ہیں، اس کی ہر خواہش پوری کرتے ہیں، اس کی ضرورتوں کا خیال رکھتے ہیں اور اس کے لیے جان بھی دے سکتے ہیں۔اس کے باوجود اس کے دل میں یہ خیال بھی جنم لے سکتا ہے کہ آپ نے اس کو خلوص دل سے قبول نہیں کیا ہے یا آپ اس کی صلاحیتوں پر اعتماد نہیں کرتے ہیں۔ بچہ یہ خیال آپ کے لفظوں کے بجائے آپ کے برتاؤ سے اخذ کرتا ہے۔ مثلاً جب وہ مہمانوں سے باتیں کررہا ہو تو آپ نروس ہوجاتے ہیں۔ اس کو بات مکمل کرنے دیتے اور اس کی بات کی وضاحت کرنے لگتے ہیں یا پھر اس کی بات کو احمقانہ سمجھ کر ہنسنے لگتے ہیں۔ بچہ ان باتوں کو نوٹ کرتا ہے اور ان سے شعوری یا لاشعوری طور پر نتائج اخذ کرتا ہے۔
والدین کو اس قسم کے طرزِ عمل سے اجتناب کرنا چاہیے۔ یہ بات بچے کی صحت مند نشوونما کے لیے بہت ضروری ہے۔ بچوں کی موجودگی میں والدین کو سوچ سمجھ کر زبان کھولنی چاہیے۔ بچوں میں آپ کو جو خامیاں نظر آتی ہیں، ان کی موجودگی میں ان خامیوں کا تذکرہ دوسرے لوگوں سے نہ کیجیے۔ اس سے بچوں کی عزت نفس گہرے طور پر متاثر ہوتی ہے۔
بچوں کے لیے وقت نکالیے۔ ان کو اچھی کتابوں سے متعارف کروائیے۔ اچھی نظمیں اور اچھے نغمے ان کو یاد کروائیے۔ ان کو کھیلنے کا موقع دیجیے۔ کھیلوں میں ان کی حوصلہ افزائی کیجیے۔ وہ کرکٹ کھیلنا چاہیں یا پتنگ اڑانا چاہیں تو جب تک ان کی پڑھائی کا حرج نہ ہو یا ان کے لیے کوئی خطرے کی بات نہ ہو، تو انھیں مت روکیے۔ یہ باتیں خودداری کی تعمیر میں مدد دیتی ہیں۔ ان کا خیال رکھئے۔
اپنی قدر پہچاننا
احساس کمتری میں مبتلا فرد کا وطیرہ یہ ہوتا ہے کہ وہ ہر ملنے والے سے اپنی خامیوں کا چرچا کرنے لگتا ہے۔ خود کو احمق سمجھنے والی عورت ہر ملنے والے کے سامنے اعتراف کرنے لگتی ہے کہ ’’ارے میں تو بالکل بے وقوف ہوں۔ مجھے تو دو اور دو جوڑنے بھی نہیں آتے۔ بس اسی طرح زندگی گزرگئی ہے۔‘‘
اس رویے سے دامن چھڑانا چاہیے۔ یادرکھئے کہ جب آپ اپنی خامیوں اور کمزوریوں کا دوسروں سے ذکر کررہے ہوتے ہیں تو وہ آپ کے بارے میں اپنا تاثر بنارہے ہوتے ہیں۔ جب آپ کسی سے کہتے رہیں کہ ’’میں کند ذہن ہوں، میں کوئی اچھا کام نہیں کرسکتا۔‘‘ تو پھر فطری سی بات ہے کہ وہ آپ کو کند ذہن اور نااہل سمجھنے لگے گا اور آپ کے ساتھ اسی حیثیت سے پیش آئے گا۔
اس بحث کا مطلب یہ ہے کہ ہمیں اپنے بچوں کو اپنی قدر کرنا سکھانا چاہیے۔ انھیں بتانا چاہیے کہ وہ قابلِ قدر ہیں اور انھیں اسی حیثیت سے دوسروں کے ساتھ پیش آنا چاہیے۔ اپنی ذات پر مسلسل تنقید اور نکتہ چینی کرنے سے صرف منفی نتائج ہی پیدا ہوتے ہیں۔ اس رویے سے ہمیں خود بھی بچنا چاہیے اور اپنے بچوں کو بھی اس سے محفوظ رکھنا چاہیے۔
تلافی کرنے میں بچے کی مدد
والدین کا کام یہ نہیں کہ وہ ہر وقت بچے کے پیچھے پڑے رہیں۔ ہر وقت اس کو ٹوکتے رہیں، ہر معاملے میں ہدایتیں دیتے رہیں اور ہر موقع پر جھڑکتے رہیں۔ یہ بالکل فضول قسم کی عادت ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں اکثر والدین اس عادت میں مبتلا ہیں اور اپنے طور پر وہ سمجھتے ہیں کہ وہ بچے کی رہنمائی کررہے ہیں۔
یہ طرزِ عمل قطعی طور پر نقصان دہ ہے۔ اس سے بچے میں خود اعتمادی پیدا نہیں ہوتی۔ اور وہ ہر معاملے میں اتھارٹی سے اجازت طلب کرنے اور اس کی خوشنودی حاصل کرنے کے روگ میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ آپ میں یہ عادت ہے تو بچے کے اچھے مستقبل اور اس کی شخصیت کی متوازن اور صحت مند نشوونما کی خاطر آج ہی اس عادت سے چھٹکارا حاصل کیجیے۔ والدین بچے کی کڑی نگرانی پر مامور سپاہی نہیں ہوتے اور نہ ہی ان کوہونا چاہیے۔ اس کے بجائے والدین کا طرزِ عمل بااعتماد ساتھی جیسا ہونا چاہیے۔ جب بچے رنجیدہ اور شکستہ خاطر ہوں تو ان کا حوصلہ بڑھانا چاہیے اور ان کی دلجوئی کرنی چاہیے۔ جب وہ خطرے کی زد میں ہوں تو مداخلت اور ان کو تحفظ فراہم کرنا ضروری ہے ورنہ ان کو وہ صلاحیتیں حاصل کرنے میں مدد دیں جن کے ذریعے وہ راہ کی رکاوٹیں دور کرسکیں۔ ان کو ایسے حالات اور تربیت دیجیے جن کو بروئے کار لاکر وہ آگے بڑھ سکیں۔
تلافی ایک ایسا ہی آلہ کار ہے۔ کوئی فرد اپنی قوتوں کو بڑھا کر اپنی خامیوں کی تلافی کرسکتا ہے۔ ہر شخص میں، ہر بچے میں اس قسم کی قوتیں ہوتی ہیں۔ ہمارا کام یہ ہے کہ بچوں کو اپنے مضبوط نکات، اپنی قوتیں تلاش کرنے میں مدد دیں۔
ماہر نفسیات جیمز وڈیسن کی سفارش یہ ہے کہ آپ اپنے بچے کی مضبوط صلاحیتوں کا جائزہ لیں اور ان میں سے کسی ایسی مہارت کو منتخب کرلیں جس میں کامیابی کے امکانات سب سے زیادہ ہوں۔ اس مہارت کا تعین کرتے ہوئے یہ امر بھی پیش نظر رکھیں کہ خاندان اسکول اور اس مہارت کو فروغ دینے کے وسائل رکھتا ہو۔ مہارت منتخب کرنے کے بعد بچے کو اس راہ پر ڈال دیجیے۔
مقابلہ کرنے میں مدد
ہر وقت بچے کے سر پر سوار رہنے والے والدین کے برخلاف بعض ایسے والدین بھی ہیں جو خوبصورتی، قوت اور ذہانت کے حصول کے لیے بچے پر دباؤ ڈالنے کی مخالفت کرتے ہیں۔ اس طرح وہ دوسری انتہا کو چلے جاتے ہیں۔ عمدہ راہ درمیانی راہ ہے۔ اس کا تقاضا یہ ہے کہ خود بچے کے مفاد کی خاطر ہم نہ اس کے سر پر سوار رہیں اور نہ ہی اس کو بالکل تنہا چھوڑ دیں۔ بلکہ وقتاً فوقتاً اس کی رہنمائی کرتے رہیں، اس کی حوصلہ افزائی کریں اور ضرورت پڑنے پر سختی سے کام بھی لیں۔
خوبصورتی، قوت اور ذہانت کے حصول کے لیے بچے پر دباؤ ڈالنے کی مخالفت کرنے والے والدین بھی اس حقیقت سے باخبر ہوتے ہیں کہ دنیا ان خوبیوں کی پوجا کرتی ہے۔ یہ خوبیاں زندگی کا کھیل اچھے طریقے سے کھیلنے اور اپنا مقام بنانے کے لیے ناگزیر ہیں۔ کیا والدین کو چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کو ممکنہ حد تک دلکش بنانے میں مدد یں؟ کیا اپنے’’اوسط‘‘ درجے کے بچے کو اسکول میں نمایاں پوزیشن حاصل کرنے میں ہمیں مدد دینی چاہیے اور جہاں انھیں ہماری رہنمائی اور مدد کی ضرورت وہ محسوس کریں وہاں ہمیں موجود رہنا چاہیے۔
یہ بات بھی اہم ہے کہ ہمیں اپنے بچے کو صرف دوسروں کا مقابلہ کرنے اور آگے بڑھنے کی تلقین ہی نہیں کرنی چاہیے بلکہ اس کو زندگی کی سچی اقدار کا درس بھی دینا چاہیے جن سے ان کی دنیا و آخرت سنورتی ہو مثلاً: خدا بھروسہ، ایمانداری، سچائی، نیکی، انصاف، وسعت نظر اور خودداری وغیرہ۔ ہمیں ان کے ذہنوں میں یہ بات بٹھا دینی چاہیے کہ یہ اقدار مادی کامیابی سے زیادہ اہم ہیں۔ کیونکہ اچھا انسان کامیاب انسان سے بہتر ہوتا ہے۔
ڈسپلن اور سزا
بچوں کی تعلیم و تربیت اور سزا کے معاملے میں فیصلہ کن بات والدین کی نیت ہے۔ اگر وہ بچے کی طرف سے جان بوجھ کر کی جانے والی کسی غلط حرکت یا نافرمانی پر اس کو سزا دیتے ہیں تو یہ اس کی تربیت میں معاون ثابت ہوتی ہے۔ اس کے برخلاف اگر والدین اپنی محرومیوں اور کوتاہیوں کے لیے بچے کو نشانہ ستم بناتے ہیں تو پھر یہ قابلِ مذمت طرزِ عمل ہے۔ اسی طرح دوسرے لوگوں کی موجودگی میں بچے کے ساتھ توہین آمیز سلوک غیر شائستہ حرکت ہے۔ وہ بچے کی شخصیت کو توڑ پھوڑ دیتا ہے۔ اس سے ہر حال میں اجتناب ضروری ہے۔
اس سلسلے میں ایک اور اہم نکتہ یہ ہے کہ والدین بچے کے لیے انصاف، ڈسپلن اور نظم و ضبط کی علامت ہوتے ہیں۔ اس لیے بچے کو احساس ہوتا ہے کہ اگر والدین اس سے واقعی محبت کرتے ہیں تو وہ کسی غلط حرکت پر اس کو سزا ضرور دیں گے۔ بچے کے اس احساس کو ذہانت سے استعمال کیا جائے تو واقعی سزا دیے بغیر اس کی اصلاح ممکن ہوجاتی ہے۔
پڑھائی پر نظر
والدین کو بچے کی پڑھائی کے عمل سے اچھی طرح باخبر رہنا چاہیے۔ اس امر کو یقینی بنانا چاہیے کہ اسکول میں دوسرے سال کے خاتمے تک بچہ پڑھنے کے قابل ہوجائے۔ یاد رکھئے کہ پڑھنے کے مسائل اسکول کے زمانے میں بچے کی خودداری کو دوسرے تمام عوامل سے زیادہ ٹھیس پہنچاتے ہیں۔ اگربچہ ٹھیک طرح سے پڑھ نہیں سکتا تو وہ اپنے ساتھیوں کی نظر میں نکو بن جاتا ہے۔ وہ اس کا مذاق اڑاتے ہیں اور بچہ بھی خود کو کند ذہن اور دوسروں سے کمتر سمجھنے لگتا ہے۔
پڑھنے کے معاملے میں بچہ پیچھے رہ گیا ہے تو اس کی مدد کیجیے۔ اس کو پڑھائیے۔ ٹیوشن کا انتظام کیجیے اور ہر ممکن طریقے سے اس کی مدد کیجیے۔ کبھی کبھی اسکول کی تبدیلی یا اسکول کے اندر اساتذہ کی تبدیلی بھی بچے کے بہترین مفاد میں ہوتی ہے۔
سست روی سے سیکھنا بھی بچے کی عزت نفس پر بوجھ بنتا ہے۔ اس صورت حال میں والدین کو کیا کرنا چاہیے؟ والدین اس معاملے میں بچے کی مدد کرسکتے ہیں۔ اگر وہ لکھنے پڑھنے کے معاملے میں اپنے ساتھیوں جیسی صلاحیت نہیں رکھتا تو اس کے سامنے تعلیمی کامیابیوں کی اہمیت کو بڑھا چڑھا کر بیان مت کیجیے۔ آپ کا بچہ بہترین کوششوں کے باوجود کوئی چیز حاصل نہیں کرسکتا تو اس چیز کی اہمیت کو گھٹا دیجیے۔ لنگڑا بچہ دوڑ کے مقابلے میں اول نہیں آسکتا۔ یہ اس کی مجبوری ہے۔ لہٰدا اس کے ذہن میں دوڑ میں گولڈ میڈل حاصل کرنے کا جنون پیدا کرنا محض واہیات بات ہے۔ اس طرزِ عمل سے بچیں۔
فیصلوں کی آزادی
بچپن میں جو ترتیب دی جاتی ہے، اسی سے فردکی شخصیت کی صورت گری ہوتی ہے۔ بچے کو ذمہ دار شہری بننے کی تربیت دی جائے تو بڑا ہو کر اس کے رویوں پر ذمہ داری کا احساس غالب رہتا ہے۔ شروع ہی میں بچے کو منظم ٹائم ٹیبل کی پابندی کی تربیت دینی چاہیے اور اس کی عمر کے مطابق ذمہ داری کا احساس دلانے والے امور کا سبق دینا چاہیے۔
بڑھتی ہوئی عمر کے ساتھ بچے کو اپنے فیصلے خود کرنے کی ذمہ داری سونپنی چاہیے۔ مثال کے طور پر سات سال کا بچہ عموماً اپنا لباس خود منتخب کرنے کے اہل ہوتا ہے۔ وہ اپنی کتابیں اور کھیل کا سامان سلیقے سے رکھ سکتا ہے۔ اس کو دوسروں سے میل جول کے آداب آجاتے ہیں اور وہ کھانے کے آداب بھی سیکھ لیتا ہے۔ کوئی بچہ ان اور ان جیسے دوسرے امور میں کوتاہی کا مرتکب ہوتا ہے، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کی تربیت میں کوئی کسر رہ گئی ہے۔ اس پر توجہ دینی چاہیے۔
سبھی والدین اپنے بچوں کا خیال رکھتے ہیں اور ان کو ایسا کرنا بھی چاہیے۔ لیکن بعض والدین اس معاملے سے ضرورت سے زیادہ حساس ہوتے ہیں، اس سے کئی خرابیاں پیدا ہوتی ہیں۔ مثلاً بچے میں خود اعتمادی کی کمی رہ جاتی ہے۔ وہ اپنی ذمہ داری محسوس نہیں کرتا اور ہر معاملے میں دوسروں کی رہنمائی کا طلب گار ہوتا ہے۔ اس کا ایک نتیجہ یہ بھی ہوتا ہے کہ بچہ نارمل ٹائم ٹیبل سے پیچھے رہ جاتا ہے۔ دس سال کی عمر میں اس کا کردار سات سال کے بچے جیسا ہوتا ہے۔ چند ہی سال بعد وہ بلوغت کے عہد میں داخل ہونے والا ہوتا ہے، لیکن بلوغت کے تقاضے پورے کرنے میں پیچھے رہ جاتا ہے۔ بچے کی حفاظت ضرور کیجیے، مگر اس بارے میں غیر معمولی احتیاط سے کام مت لیجیے۔ اس کو آگے بڑھنے دیجیے تاکہ وہ خود فیصلے کرسکے اور ان کی ذمہ داری بھی اٹھا سکے۔
——

 

 

 

 

 

 

 

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146