تربیت اولاد: طریق کار اور اہم جہات

مجتبیٰ فاروق ، حیدر آباد

اسلام نے بچوں کی پرورش اور پرداخت کرنے کے ساتھ ساتھ ماں باپ پر یہ بھی ذمہ داری عائد کی ہے کہ ان کی اچھی تعلیم وتربیت کریں اور اسلام کی اساسی تعلیمات سے روشناس کراکر صحت مند سماج کے لئے بہترین اور کار آمد فرد بنائیں۔اللہ کے رسول ﷺ نے ایک مرتبہ ارشادفرمایا: ’’کوئی بھی باپ اپنی اولاد کو حسنِ ادب سے زیادہ بہتر کوئی چیز نہیں دے سکتا۔‘‘

سماج اور معاشرے کے لیے کارآمد اور بہترین فرد بنانے کے لیے جہاں بچوں کو حسنِ ادب اور اسلامی آداب زندگی سکھانا ضروری ہے وہیں یہ بھی ضروری ہے کہ ان کی فطری صلاحیتوں کو اجاگر کیا جائے، انہیں پروان چڑھایا جائے اور فطرت انسانی میں درآنے والی غلاظتوں اور برائیوں سے پاک اور محفوظ بنانے کی کوشش کی جائے۔ یہی تربیت کا اصل مفہوم اور معنویت ہے۔

اولاد کی نیک تربیت اور حسنِ ادب سکھانے کو اللہ کے رسولؐ نے موت کے بعد کی زندگی سے جوڑ کر دیکھنے کی تلقین کی ہے۔ یہ چیز اس بات کے لیے مہمیز دیتی ہے کہ ہم اپنی اولاد کو نیک بنانے کی فکر کریں۔ ایک مرتبہ آپؐ نے فرمایا کہ مرنے کے بعد انسان کے لیے عمل کا راستہ بند ہوجاتا ہے۔ مگر اس کا صدقۂ جاریہ اس کے لیے موت کے بعد بھی اجر سمیٹنے کا موقع دیتا ہے۔ اس صدقۂ جاریہ میں نیک اولاد بھی ہے جو اس کے لیے دعائے خیر کرتی ہو۔

قرآن مجید نے تربیت اور حسنِ ادب سکھانے کے لئے جوخوبصورت اور بلیغ لفظ استعمال کیا ہے اسے ’’تزکیہ ‘‘ کہا ہے،جس میں جامعیت کے ساتھ ساتھ گہرائی بھی ہے۔ تذکیہ کے معنی نفس کے جملہ برائیوں، گندگیوں اور گناہوںسے پاک کر نا اور پھر اس کو اچھائیوں اور خوبیوں سے خوب تر قی اور پروان چڑھا نا ہے۔ تزکیہ نفس ہی اخلاقی،اچھائی، روحانی اور مادی ترقی کا ضامن ہے۔ تزکیہ نفس ہی کو حقیقی کامیابی قرار دیا گیاہے۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ: قَدْ أَفْلَحَ مَن تَزَکَّی (الا علیٰ:۶) ’’یعنی فلاح پا گیا وہ جس نے نفس کا تزکیہ کیا۔‘‘تزکیہ ایک جامع لفظ ہے جس کا مادہ ’زک ی‘ہے۔ زکی کے معنی بڑھانے ،مہذب بنانے اور نشونما کے ہیں اور اس میں انسانی زندگی کی اصلاح و خیر اور عبادات میں پاکیزگی کا مفہوم بھی شامل ہے۔ دوسری جگہ قرآن مجید میں یہ بھی آیا ہے کہ

قَدْ أَفْلَحَ مَن زَکَّاہَا وَقَدْ خَابَ مَن دَسَّاہَا

(الشمس :۷۔۶)

’’یقیناً فلاح پاگیا وہ جس نے نفس کا تزکیہ کیا اور نامراد ہوا وہ جس نے اس کو دبا دیا۔‘‘

لہٰذا ضروری ہے کہ نئی نسل کے فکر و عمل کو صحیح رخ دیا جائے اور صحیح رخ پر صلاحیتوں کو آگے بڑھایا جائے۔ انہیں اسلام کے دیے ہو ئے نظام تزکیہ کے مطابق ڈھالا جائے ، ان کے لیے سوچنے سمجھنے اور فہم و شعور حاصل کر نے کا زاویہ متعین کیا جائے۔

رسولؐ کا اندازِ تربیت

اس حوالے سے اللہ کے رسول ؐﷺکا وہ تربیتی منہج سامنے رکھنا چاہیے جس کی بدولت انہوں نے نوجوانوں کی ایک بہترین ٹیم تیار کی تھی جس نے بعد میں بڑے بڑے معرکے سر کیے اور کارنامے انجام دئیے ۔ اللہ کے رسول ﷺ نوجوانوں کو ان کے رجحان اور طبیعت کو مد نظر رکھتے ہوئے تر بیت کر کے ذمہ داریاں سونپتے تھے ۔ اللہ کے رسول ؐﷺکاتربیتی منہج بڑا شاندار اور منفرد انداز کا ہے۔ آپ ﷺان کی کردار سازی پر بہت توجہ فر ماتے تھے ۔اور نہ صرف ان کے خارجی مسائل حل کرتے تھے بلکہ ان کے نفسیاتی مسائل بھی حل کرتے تھے ۔ ایک دن قریش کا ایک نوجوان رسول ﷺکی خد مت میں آیا اور بلا خوف وتردد عرض کیا’’اے اللہ کے رسول ﷺمجھے زنا کی اجازت دے دیجئے۔‘‘صحابہ کرامؓاس نوجوان کی بے ہودہ جسارت پر بپھر گئے مگر رسول ؐﷺنے بالکل منفرد انداز اختیار کیا آپ ﷺنے اس نوجوان کو قریب بلایا اور کہا کیا تم یہ بات اپنی ماں کے لئے پسند کرتے ہو؟ نوجوان نے کہا میر ی جان آپ ؐﷺپر قربان ہو یہ بات میں اپنی ماں کے لئے کبھی پسند نہیـں کر سکتا۔ پھر آپؐﷺنے اس کی بہن ، پھوپھی اور خالہ کے بارے میں اس طرح کے سوالات کئے۔ بعد میںاس سے پوچھتے کیا تم اسے پسند کرتے ہو وہ ہر بار یہی کہتا میری جان آپﷺ پر قربان ہو، خدا کی قسم یہ با ت میں ہر گز پسند نہیں کر سکتا۔ پھر آپ ﷺنے ا س نوجوان کو اپنے قریب بلایا اور اس کے لئے اللہ سے دعا کی۔اللھم اغفر ذنبہ،و طھر قلبہ، وحصن فرجہ جس کے بعد وہ کبھی بھی اس بے ہودہ کام کی طرف مائل نہیں ہوا۔(الطبرانی فی المعجم الکبیر) اس واقعے سے ہم کو بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ نئی نسل کے نفسیاتی مسائل کو کس طرح پیار سے سمجھانے اور حل کرنے کی ضرورت ہے ۔

حضور پاکؐ کے اندازِ تربیت کو جاننے کے لیے مختلف واقعات سیرت کی کتابوں میں ملتے ہیں۔ ان میں سب سے اہم اللہ کے رسولؐ کا حضرت انسؓ کے ساتھ معاملات ہیں۔ حضرت انسؓ بہت کم عمری سے اللہ کے رسولؐ کی خدمت ان کے خدمت گار کے طور پر رہے۔ اس طویل مدت میں کبھی ایسا نہیں ہوا کہ حضور پاکؐ نے کبھی انہیں مارا ہو بلکہ ڈانٹا تک نہیں۔ اس کی شہادت خود حضرت انسؓ دیتے ہیں۔

اس سے جو بات صاف طور پر سمجھ میں آتی ہے وہ یہ ہے آپؐ کا منہج تربیت محبت و شفقت تھا جس میں مار پیٹ اور ڈانٹ ڈپٹ کی بھی گنجائش نہ تھی۔ اس سے یہ نتیجہ نکالا جانا چاہیے کہ تربیت کے میدان میں کام کرنے والوں کو، خواہ وہ والدین ہوں یا تعلیم گاہوں سے وابستہ افراد، انہیں محبت و شفقت کا اسلوب زیادہ اور ڈانٹ ڈپٹ اور سختی کا اسلوب کم سے کم اختیار کرنا چاہیے۔

3- سماجی فہم و شعور

سماج کیا ہے ؟ اس کی ماہیت کیا ہے ْ اس کے محاسن کیا ہیں ؟ اس کے فاسد عناصر کیا ہیں ؟ ان سبھی پہلوؤں کا صحیح اورگہرا شعور اور فہم نئی نسل کو دیا جانا چاہیے۔سماج گھر کی طرح ہو تا ہے فر ق صرف یہ ہے کہ گھر ایک چھوٹی سی اکائی ہوتی ہے جب کہ سماج ایک بڑی اکائی کا نام ہے۔جس طرح ہمیں اپنے گھر اور گھر کے افراد کو محفوظ رکھنا ہے ٹھیک اسی طرح اسلام سماج اور معاشرے کے تحفظ کی بھی تلقین کرتا ہے۔ لہٰذا اس بڑی اکائی کو صالح بنیادوں پرتشکیل دینا اور اس کا ہر برائی سے تحفظ کرنا ہر نوجوان کی اولین ذمہ داری ہو۔اسلام یہی چاہتا ہے۔ سماج میں ایک ذمہ دار فرد کی حیثیت سے جینے کے لیے احساسِ ذمہ داری،ملنساری، اتحاد و اتفاق، جذبہ مسابقت الی الخیراور عدل و انصاف کے قیام کی تلقین کر تا ہے۔اسلام دوسروں کے حقوق ادا کر نے کے معاملے میں ایثار اور خیر خواہی کی تلقین کر تا ہے۔

سماجی زندگی گھریلو زندگی سے مختلف ہوتی ہے اس لیے سماجی زندگی میں انسانوں کو اپنے رویوں اور اعمال میں زیادہ محتاط، حساس اور ذمہ دار ہونا چاہیے۔ یہ بات ہمیں اپنی نئی نسل کو اچھی طرح باور کرانی ہے۔ سماجی رویوں سے ذمہ دارانہ انداز اور جواب دہی کا شعور و احساس انسان کو پاکیزہ بناتا ہے۔ اس پاکیزگی کو اللہ کی رضا سے جوڑنا اور اس کے برعکس رویوں کو اللہ کی ناراضگی کا ذریعہ تصور کرانا تربیتی عمل کا وہ اہم نقطہ ہے جس سے عام طور پر لوگ غفلت برتتے ہیں۔

برائی اور بھلائی کی شناخت

نئی نسل کی تربیت کے ضمن میں موجودہ دور میں سب سے بڑا مسئلہ ان کے اندر برائی اور بھلائی کے درمیان تمیز کرنے کی صلاحیت پیدا کرنا ہے۔ ایسا اس وجہ سے ہے کہ فتنوں کے اس دور میں بے شمار برائیاں ایسی رواج پاگئی ہیں یا یوں کہیے کہ بھلائی کا لبادہ اوڑھ کر سامنے آتی ہیں کہ بچے کیا بڑے بھی دھوکا کھاجاتے ہیں۔ اسی طرح بہت بھلائیاں سماج میں اجنبی بن گئی ہیں۔ بعض اوقات بھلائی پر قائم رہنا سماجی زندگی میں ایسا لگتا ہے جیسے کوئی گناہ کررہا ہو۔ ایسے میں ہمیں نہ صرف اپنی نسل کے اندر اچھائی اور برائی کو پرکھنے کے پیمانے فٹ کرنے ہیں، بلکہ ان اچھائیوں پر مضبوطی سے قائم رہنے کا جذبہ اور حوصلہ پیدا کرنا ہے ساتھ ہی ان کے اندر یہ جذبہ بھی پروان چڑھانا ہے کہ برائی سے بچے رہنا ہی نہیں بلکہ دوسروں کو بھی اس سے بچانے کی فکر کرنی ہے خواہ کسی صورت میں ہمیں نقصان ہی کیوں نہ برداشت کرنا پڑے۔

یہ بھی پڑھیں!

https://hijabislami.in/14004/

https://hijabislami.in/10194/

https://hijabislami.in/4980/

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں