تربیت اولاد میں اخلاص اور عمل کی اہمیت

ڈاکٹر نکہت محمد رشید شیخ

اولاد کی تربیت کے سلسلے میں والدین کے لیے قرآن مجید میں ایک نہایت اہم مثال حضرت مریم کی والدہ کے اسوہ میں ہے۔ اور وہ اسوہ ہے اللہ سبحانہ تعالیٰ سے اخلاص و عاجزی کے ساتھ دعا کرنا۔ قرآن کہتا ہے:’’جب عمران کی بیوی نے کہا کہ اے میرے رب! میرے پیٹ میں جو کچھ ہے، اسے میں نے تیرے نام وقف کرنے کی نذر مانیہے تو میری طرف سے قبول فرما! یقینا تو خوب سننے والا اور پوری طرح جاننے والا ہے۔‘‘ (آل عمران: ۳۵)
’’جب بچی کو جنا تو کہنے لگیں کہ پروردگار! مجھے تو لڑکی ہوئی۔ اللہ تعالیٰ کو خوب معلوم ہے کہ کیا اولاد ہوئی ہے اور لڑکا لڑکی جیسا نہیں، میں نے اس کا نام مریم رکھا، میں اسے اور اس کی اولاد کو شیطان مردود سے تیری پناہ میں دیتی ہوں۔‘‘ (آل عمران: ۳۶)
حضرت مریمؑ کی والدہ کا یہ اخلاص و ایمان اور دعا تھی کہ جس نے تاریخ انسانی میںایک ایسی عورت کو جنم دیا جس کی گواہی قرآن نے دی کہ اسے ہم نے دنیا کی عورتوں پر فضیلت عطا کی۔ حضرت مریمؑ کی پاکی اور شرف و فضیلت قرآن کریم یوں پیش کرتا ہے:
’’اور جب فرشتوں نے کہا: اے مریم! اللہ تعالیٰ نے تجھے برگزیدہ کردیا اور تجھے پاک کردیا اور سارے جہان کی عورتوں میں سے تیرا انتخاب کرلیا۔‘‘ (آل عمران: ۴۲)
مریم کی والدہ کا اخلاص اس شان کا تھا کہ ان کے نزدیک انھوں نے ایک لڑکی کو جنم دیا جو کہ ان کی نظر میں وہ کام نہیں کرسکتی تھی ، جو لڑکے اس معاشرے میں انجام دے سکتے تھے۔ لیکن اس والدہ کی دعا کی بدولت اللہ تعالیٰ نے انھیں ایسی لڑکی سے نوازا اور اس سے وہ کام لیا جو دنیا کا کوئی لڑکا بھی نہیں کرسکتا تھا۔ یہ حضرت مریمؑ کی ہی فضیلت ہے کہ عیسیٰؑ کی پیدائش کی تکالیف سے لے کر بنی اسرائیل کی افترا پردازیاں سبھی کچھ راہِ خدا میں برداشت کیا۔ عیسیٰ کی پیدائش از خود ایک معجزہ ہے جس کے ظہور کے لیے مریمؑ کے پاک نفس کا انتخاب کیا گیا۔
الغرض یہ ہماری نیتوں کے اخلاص پر منحصر ہے کہ ہم اپنی اولاد کو کیا بنانا چاہتے ہیں اور کیا دیکھنا چاہتے ہیں۔ محض ہماری دنیاوی حیثیت اور Status و معیار کا بلند کرنے کا ذریعہ یا ہماری اخروی نجات کا زینہ۔ اللہ کے رسولؐ نے فرمایا کہ مرنے کے بعد صرف تین چیزیں ایک انسان کے کام آتی ہیں: (۱) وہ صدقہ جو اس نے کسی کارِ خیرمیں لگایا۔ (۲) وہ علم جس سے لوگ مستفید ہورہے ہوں (۳) نیک اولاد جو اس کے لیے دعائے مغفرت کرتی ہے۔
حضرت مریمؑ کی پاکیزگی اور نیکی سے متاثر ہوکر زکریاؑ پڑھاپے میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں حالانکہ ان کی بیوی بانجھ تھیں اس کے باوجود اللہ تعالیٰ انھیں حضرت یحییٰ جیسی اولاد سے نوازتے ہیں۔ جس پر سلامتی خود اللہ سبحان اللہ بھیجتے ہیں۔ اس واقعے کی تفصیل سورہ مریم آیات ۱۳ اور ۱۴ میں ملتی ہیں۔
حدیثوں میں کثرت سے وارد ہے کہ اللہ تعالیٰ والدین کی دعا، اولاد کے حق میں قبول کرتے ہیں۔ والدین کے لیے یہ ایک اہم اسوہ ہے کہ مسلسل، تکرار اور ایک معمول کے ساتھ ہم اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے رہیں۔ دعااس بات کی کہ اللہ ان کی دنیا کو سنوارے اور یہاں انھیں حسنات سے نوازے، ساتھ ہی ساتھ وہ ہماری اخروی نجات کا بھی ذریعہ بن جائیں۔
قرآن کریم مال اور اولاد کو ایک فتنہ یاامتحان کے طور پر پیش کرتا ہے۔ والدین کے لیے اولاد ایک امتحانی پرچہ ہے جس کے ذریعہ ہم جنت یا جہنم کے حقدار ہوں گے۔ ان کی اعتدال و انصاف کے ساتھ پرورش جن میں ان کی تربیت بھی شامل ہے یا تو ہمیں جنت کا حقدار بنادے گی یا پھر ان کی محبت میں غلو اور اللہ تعالیٰ کے فرامین سے پہلو تہی ہمیں جہنم کی آگ میں پہنچادیں گے۔
ایک بہترین اور مؤثر دعا جو خود اللہ تعالیٰ والدین کو سکھا رہے ہیں جس کو ہمیں اللہ تعالیٰ سے مانگنا چاہیے۔ یہ ہے: ’’اے ہمارے پروردگار! تو ہمیں ہماری ازواج اور اولاد سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرما اور ہمیں پرہیزگاروں کا پیشوا بنا۔‘‘ (الفرقان :۷۴)
متقیوں کا امام یعنی اللہ سبحانہ و تعالیٰ ہماری رعیت میں نیک لوگوں کو شامل کرجو کہ دنیا میں بھی ہمارے لیے آنکھوں کی ٹھنڈک ثابت ہوں۔
والدین کی کوشش یہ ہونی چاہیے کہ وہ خود اپنے آپ کو اور اپنی اولاد کو اسلام کے سفیر بنائیں۔ جن کے اعلیٰ و عمدہ اخلاق، عادات واطوار، چال، ڈھال غرض ہر چیز اسلام کا نمونہ نظر آئیں۔جو اپنے کردار سے اسلام کی دعوت دنیا کے لوگوں تک پہنچائیں۔ ان کو دیکھ کر لوگ کہیں کہ کیا شاندار تعلیمات ہیں قرآن کی جو اس خصوصیات کے لوگ دنیا میں پیدا کرتی ہے۔
والدین کا خواب عام طور پر یہ تو ہوتا ہے کہ ہمارے بچوں کو دنیا کے اعزازات و انعامات سے نوازا جائے۔ مسلمان والدین کی خواہش یہ بھی ہونی چاہیے کہ قیامت کے دن ہمارے آقا، رسول کریمﷺ ہماری اولاد کے سر پر کامیابی کا تاج رکھیں۔ آپؐ کو ہم پر فخر ہوکہ ہم آپؐ کے امتیوں میں شامل ہیں۔ اگر ہماری سوچ یہ ہوگی، یہ فکر اور لگن ہمارے اندر ہوگی اور اس کو پانے کے لیے ہم مسلسل و پیہم کوشش کرتے رہیں گے۔ اخلاص کے ساتھ دعا کرتے رہیں گے تو اللہ سبحانہ و تعالیٰ ضرور بہ ضرور ہماری اولاد کو نیک اور آنکھوں کی ٹھنڈک بنائے گا۔
سارے اقدامات کرنے کے باوجود دنیا کے چند بہترین والدین کے گھر بھی ناخلف اولاد پیدا ہوئی ہے۔ حضرت نوحؑ اور حضرت لوطؑ اس کی واضح مثال ہیں۔ بعض اوقات بت گر کے گھر میں ہی بت شکن بھی پیدا ہوئے ہیں۔ حضرت ابراہیمؑ کا شمار انہی چیدہ شخصیات میں ہوتا ہے۔
اولاد ہمارا امتحان ہے۔ اللہ تعالیٰ کے یہاں ہم مسئول اس بات کے ہیں کہ ہم اپنی ذمہ داری انجام دیتے ہیں یا نہیں۔ اپنے فرض کی انجام دہی میں کوئی کوتاہی اور لاپرواہی تو نہیں برتتے۔
والدین کی ذمہ داریوں میں اہم یہ ہے کہ عملی نمونہ اپنی اولاد کے سامنے پیش کریں۔ قرآن میں ہے: ’’اے ایمان والو! تم وہ بات کیوں کہتے ہو جو کرتے نہیں؟ اللہ کے نزدیک یہ نہایت ہی گندی بات ہے کہ تم جو کرتے نہیں وہ کہتے ہو۔‘‘ (الصف: ۲،۳)
اولاد کی صحیح تربیت کے لیے والدین کو خود اپنی تربیت اور تزکیہ کرنا ہوگا۔ اکثر اوقات بچے اپنے والدین کے طرزِ عمل کو ہی اختیار کرتے ہیں۔ رسول اکرمؐ نے فرمایا : ’’ہربچہ سلیم الفطرت پیدا ہوتا ہے۔ بعد میں اس کے والدین اسے یہودی، نصرانی یا مجوسی بنادیتے ہیں۔‘‘ یعنی یہ کہ اللہ تعالیٰ تو ایک سلیم الفطرت بچہ عطا کرتے ہیں جن کے اندر کوئی شر، گندی عادت و خصائل نہیں ہوتے لیکن ہمارا ماحول اور ہماری تربیت ہی بچے کے اندر باطل طرزِ عمل کو پیدا کردیتی ہے۔وہ اپنے والدین سے ہی اچھائی یا برائی سیکھتا اور اخذ کرتا ہے۔ اس صورت حال میں والدین کے لیے ضروری ہوجاتا ہے کہ پہلے وہ خود اچھائیوں کو اپنائیں۔ پھر اس کی تلقین اپنی اولاد کو کریں۔ بچہ جب اپنے گھر میں یہ ماحول پاتا ہے کہ اس کے ماں باپ دن میں پانچ بار سجدہ ریز ہوتے ہیں تو خود بخود وہ بھی سجدہ ریز ہوجاتا ہے۔ اس کے لیے اس عبادت کو اپنانا زندگی کا ایک اٹوٹ حصہ بن جاتا ہے۔
اس طرح ہمارے اچھے اخلاق، ایک دوسرے کے ساتھ بھلائی کا رویہ، رحم دلی، محبت، صبر اولاد کے اندر از خود چیزیں پیدا ہوتی ہیں۔ ایک نہایت ہی سبق آموز مشاہدہ ہے۔ ایک بہن نے جب یہ دیکھا کہ اس کا آٹھ سالہ بچہ اپنے قلم کو پورے گھر میں ہر طرف جھنجھلاہٹ کے ساتھ تلاش کررہا تھا اور تاخیر ہونے پر مزید چڑچڑے پن کا اظہار کرتے ہوئے دروازوں اور میزوں کی درازوں کو پٹک رہا تھا۔ یہ والدہ بچے کی اس حرکت پر اسے صبر کی نصیحت کرنے لگیں کہ اچانک انھیں خیال آیا کہ دو دن پہلے جب ان کی چابی انھیں نہیں مل رہی تھی تب بالکل اسی انداز میں وہ اپنی چابیوں کو تلاش کررہی تھیں۔ اور دو دن بعد بالکل وہ ہی حرکت ان کا بچہ کررہا تھا۔
الغرض بچوں کے اندر بے شمار عادتیں دراصل ہمارا اپنا عکس ہوتی ہیں۔ اولاد کی تربیت کے ضمن میں اگر ہم نے ان کے سامنے اچھی مثال پیش کی تو وہ بھی اچھی عادتیں اپنائیں گے اور اگر ہم نے غلط مثال پیش کی تو اسے بھی وہ بلا تاخیر اپنا لیں گے۔
——

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146