بچوں کی تربیت میں جہاں بہت سارے اصول اہم ہیں اور ان کی اپنی اپنی جگہ افادیت ہے، وہیں تنبیہ کا اصول بھی اہم ہے۔ ’تنبیہ‘ کا مطلب یہ ہے کہ بچے کی تعلیم و تربیت صحیح رخ پر جارہی ہے۔ وہ نیکی اور خیر کی راہ پر گامزن ہے، مگر اس کے باوجود والدین ان کو شیطانی وساوس، بگاڑ کے ممکنہ راستوں اور خیر کے راستوں سے بھٹکنے کے امکانات اور اندیشوں کے بارے میں متنبہ کرتے رہیں۔ اس سلسلہ میں درج ذیل باتیں اہم اور قابلِ توجہ ہیں:
(۱) بچے کو ہمیشہ متنبہ اور خبردار کرتے رہنا، اس کے دل میں شر اور فساد کی کراہیت کو بٹھا دیتا ہے اور اس کے نفس میں زیغ وضلال کی نفرت پیدا کردیتا ہے۔
(۲) زیغ و ضلال، الحاد و آزادی اور بے راہ روی کو کھول کر بیان کردینا مربی کے لیے تربیت کی ذمہ داری، عزم و پختگی کو بڑھا دیتا ہے اور بچے کو شر سے دور رہنے اور باطل سے کنارہ کش ہونے کی تعلیم دینے اور رہنمائی کرنے میں معاون ثابت ہوتا ہے۔
ان دو حقائق کو بیان کرنے کے بعد اب ہم اصل موضوع کی طرف لوٹتے ہیں تاکہ اس کے ہر پہلو پر اچھی طرح روشنی ڈال سکیں۔ اللہ ہی مددگار ہے، اسی پر اعتماد اور بھروسہ ہے۔
اگر ہم اللہ کی کتاب اور نبی کریم ﷺ کی سنت کو غور سے پڑھیں تو محسوس ہوگا کہ شر سے بچانے اور باطل کو بیان کرنے کا اسلوب قرآنِ کریم کی بہت سی آیات اور بے شمار احادیث میں بالکل عیاں ہے، ان آیات و احادیث کا بعض حصہ ذیل میں درج کیا جاتا ہے۔
’’اللہ (برحق) کے ساتھ کوئی اور معبود مت تجویز کر (یعنی شرک مت کر) ورنہ توبدحال، بے یار مددگار ہوکر بیٹھ رہے گا۔‘‘ (بنی اسرائیل:۲۲)
’’اور اپنی اولاد کو ناداری کے اندیشے سے قتل مت کرو (کیوں کہ) ہم ان کو بھی رزق دیتے ہیں اور تم کو بھی۔ بیشک ان کو قتل کرنا بڑا بھاری گناہ ہے۔‘‘ (بنی اسرائیل: ۳۱)
’’اور زنا کے پاس بھی مت پھٹکو، بلاشبہ وہ بڑی بے حیائی (کی بات) اور بری راہ ہے۔‘‘ (بنی اسرائیل: ۳۲)
اس کے علاوہ بہت سی آیات ہیں جو عقیدہ میں زیغ و کجی اور اخلاق میں فساد و خرابی اور اعمال میں کوتاہی و خامی سے منع کرتی اور ڈراتی ہیں۔
نبی کریم ﷺ ارشاد فرماتے ہیں:
’’تم جھوٹ سے بچو،اس لیے کہ جھوٹ ایمان کی ضد ہے۔‘‘(مسند احمد، ترمذی)
’’تم خریدوفروخت میں زیادہ قسم کھانے سے بچو، اس لیے کہ اس سے سودا تو خوب بکتا ہے، لیکن برکت ختم ہوجاتی ہے۔‘‘ (مسلم)
’’تم زیادہ ہنسنے سے بچو، اس لیے کہ وہ دل کو مردہ کردیتا ہے اور اہلِ جنت کے نور کو ختم کردیتا ہے۔‘‘ (سنن ابن ماجہ)
’’تم عجمیوں کا لباس پہننے سے بچو۔‘‘ (صحیح ابن حبان)
اس کے علاوہ اور بہت سی احادیث ہیں جو برائی، شر اور فساد سے ڈراتی ہیں اور وہ حدیث کی کتابوں میں بکثرت مذکور ہیں۔
لیجیے اب ہم مربیوں کے سامنے ڈرانے اور متنبہ کرنے کے سلسلے میں وہ اہم مسائل ذکر کیے دیتے ہیں، جو بچے میں شعور پیدا کریں اور اس کے ذہن کو صاف کریں اور عقیدے کو مضبوط کریں اور اس کے اخلاق و کردار کو سنواریں۔
(۱)ردت(مرتد) ہونے سے ڈرانا
ردت کا مطلب یہ ہے کہ مسلمان اپنے اس دین کو چھوڑ دے جو اللہ نے اس کے لیے پسند کیا ہے اور اس کے بجائے کوئی اور مذہب و عقیدہ اختیار کرلے جو دین اسلام کے خلاف ہو۔
ارتداد کے مظاہر میں سے یہ بھی ہے کہ اللہ کی حاکمیت کے مقابل غیر اللہ کی اطاعت و حاکمیت کو ترجیح دی جائے اور اس کے تحت فیصلہ کیا جائے۔
’’اور جو کوئی اس کے موافق حکم نہ کرے جو کہ اللہ نے اتارا، سو وہی لوگ کافر ہیں۔‘‘ (المائدۃ:۴۴)
ارتداد کے مظاہر میں سے اسلام کے کسی فریضے کو ناپسند کرنا بھی ہے، مثلاً کوئی کہنے والا یہ کہے کہ میں روزے کو اس لیے ناپسند کرتا ہوں کہ اس سے امت اقتصادی لحاظ سے پسماندہ ہوجاتی ہے یا کوئی شخص یہ کہے کہ میں عورت کے لیے حجاب و پردہ کو اس لیے اچھا نہیں سمجھتا کہ یہ پسماندگی کی علامت ہے یا کوئی شخص یہ کہے کہ میں اسلام کے مالیاتی نظام کو اس لیے برا سمجھتا ہوں کہ اس میں سود وغیرہ حرام ہے۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں :
’’اور جو لوگ کافر ہیں، ان کے لیے بربادی ہے اور (اللہ) ان کے اعمال کالعدم کردے گا۔ یہ اس سبب سے کہ انھوں نے اللہ کے اتارے ہوئے احکام کو ناگوار جانا۔ اس لیے ان کے اعمال کو اکارت کردیا۔‘‘
ارتداد کی علامات میں سے یہ بھی ہے کہ دین کی کسی بات کا مذاق اڑایا جائے یا اسلام کے شعائر میں سے کسی شعار کا استہزاء کیا جائے۔
ارتداد کے مظاہر میں سے یہ بھی ہے کہ ان چیزوں کو حلال کیا جائے جنھیں اللہ نے حرام قرار دیا ہے اور ان چیزوں کو حرام سمجھا جائے، جنھیںاللہ نے حلال کیا ہے۔
ارتداد کے مظاہر میں سے اسلام کے کچھ حصہ پر ایمان لانا اور کچھ کا انکار کرنا بھی شامل ہے۔ مثلاً یہ کہ کوئی شخص یہ ایمان رکھے کہ اسلام صرف عبادات پر مشتمل دین ہے اور اس سے انکا رکرے کہ اسلام نظام و قانون والا دین ہے یا یہ مان لے کہ اسلام روحانی، اخلاقی اور تربیتی نظام کو تو پیش کرتا ہے لیکن اسلام کے دوسرے نظام کا انکار کرے، مثلاً سیاسی، اقتصادی، معاشرتی یا اجتماعی نظام کا۔
ارتداد کے مظاہر میں سے صرف قرآن کریم پر ایمان لانا اور سنتِ نبویہ کا انکار بھی ہے۔ جیسے کہ وہ قادیانی فرقہ جس کی کاشت انگریزوں نے ہندوستان میں کی تھی، جس کا مقصدشریعتِ اسلامیہ کی بیخ کنی اوررسول اکرمﷺ کی نبوت میں شک پیدا کرنا تھا۔
ارتداد کے مظاہر میں سے یہ بھی ہے کہ رسول اکرم ﷺ کے افعال میں سے کسی فعل کا مذاق اڑایا جائے یا اس پر نکیر کی جائے۔ جیسے کہ وہ لوگ جو رسول اکرم ﷺ کے زیادہ شادیاں کرنے پر اعتراض کرتے ہیں کہ آپ نے بیک وقت نوازواجِ مطہرات سے شادی کررکھی تھی۔ اسی طرح ارتداد کے مظاہر ے میں سے قبر کا طواف یا سجدہ و نیاز یا رسول مبارک کو عالم الغیب، حاضر و ناظر یا نور من نور اللہ کہنا اور آپ کی بشریت اور انسانیت کا انکار کرنا بھی ہے یا جنت، دوزخ، فرشتے اور جنات سے انکا رکرنا۔
ارتداد کے نمونوں میں سے اللہ تعالیٰ کی صحیح معرفت کا نہ حاصل کرنا بھی ہے، مثلاً یہ اعتقاد رکھنا کہ (العیاذ باللہ) اللہ تعالیٰ اپنی بعض مخلوق میں حلول کرجاتے ہیں یا اللہ تعالیٰ کو کسی ایسی صفت کے ساتھ متصف کرنا جو اس کی عظمت وجلال کے منافی ہو، تو ایسا شخص کافر اور دین اسلام سے خارج ہوجائے گا۔ اس لیے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتے ہیں:
’’اس کو آنکھیں نہیں پاسکتیں، وہ آنکھوں کو پاسکتا ہے اور نہایت لطیف و خبردار ہے۔‘‘(الانعام: ۱۰۳)
اور فرمایا:
’’کوئی چیز اس کے مثل نہیں اور وہی (ہر بات کا) سننے والا ہے ہر چیز کا دیکھنے والا ہے۔‘‘ (الشوریٰ: ۱۱)
اور جو شخص یہ کہتا ہے کہ تین خداؤں میں سے ایک خدا اللہ بھی ہے، تو وہ بھی گمراہ اور کافر ہے۔
’’بیشک کافر ہوئے جنھوں نے کہا کہ اللہ تین میں سے ایک ہے۔‘‘ (مائدہ:۷۳)
اور جو شخص اللہ جل شانہ کی طرف لڑکے کی نسبت کرتا ہے وہ بھی گمراہ اور کافر ہے اور جو شخص اللہ تعالیٰ کو کسی ایسی صفت سے متصف کرتا ہے جو اس کی شان کے لائق نہ ہو، تو وہ بھی گمراہ اور کافر ہے۔
’’بے شک اللہ نے سنی ان لوگوں کی بات جنھوں نے کہا کہ اللہ فقیر ہے اور ہم مالدار ہیں۔‘‘ (آل عمران: ۱۸۱)
اس کے علاوہ ارتداد کے دوسرے مظاہر و علامات بھی ہیں جو ان کے حامل و مرتکب افراد کو اسلام سے نکال دیتی ہیں۔ اور کفر و گمراہی کے دائرے میں داخل کردیتی ہیں، العیاذ باللہ تعالیٰ۔
خود نبی کریم ﷺ نے اس زمانے سے ڈرایا ہے جس میں ارتداد عام ہوگا ایسی صورت میں مسلمانوں کو اس بات پر ابھارا ہے کہ وہ اعمالِ صالحہ کی طرف سبقت کریں اور ایمان کے محفوظ قلعے میں پناہ لیں، تاکہ کفر و ارتداد میں ڈالنے والی چیزوں سے متاثر نہ ہوں۔ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے:
’’نیک اعمال کی طرف سبقت کرو اور جلدی کرو۔ اس لیے کہ عنقریب بہت سے فتنے سیاہ رات کے ٹکڑوں کی طرح آئیں گے، جن میں ایک شخص شام کو مومن ہوگا اور صبح کو کافر ہوجائے گا اور ایک شخص صبح کو مومن ہوگا اور شام کو کافر ہوجائے گا۔ اپنے دین کو دنیا کے تھوڑے سے سامان کے عوض بیچ دے گا۔‘‘
(۲) الحاد سے ڈرانا
الحاد سے مراد اللہ کی ذات کا انکار کرنا اور ان شریعتوں کا انکار کرنا ہے، جنھیں اللہ کے رسول ﷺ لے کر آئے ہیں۔ الحاد بھی ارتداد کی ایک قسم ہے، بلکہ یہ تو اس سے بھی بدتر اور بری چیز ہے۔
الحاد اگرچہ ارتداد کے مفہوم ہی میں داخل ہے، لیکن یہ معاشرے اور افراد کے حق میں ارتداد کی دوسری اقسام یہودیت یا عیسائیت کے اختیار کرنے یا برہمن بننے سے زیادہ برا اور خطرناک ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ الحاد ملحد کے دل سے مسئولیت کا احساس ختم کردیتا ہے اور اس کو اس بات پر آمادہ کردیتا ہے کہ اس بے مقصد زندگی میں حیوانوں کی طرح زندگی بسر کرے جس میں نہ آخرت کے ثواب کی امید ہے اور نہ اسے اس دن کے عذاب اور گرفت کا ڈر ہو، جس دن تمام لوگ احکم الحاکمین کے دربار میں کھڑے ہوں گے۔
قرآنِ کریم نے اس فاسق و فاجر جماعت کا درج ذیل آیت میں ذکر فرمایا ہے:
’’اور یہ (بعثت کے منکر) لوگ یہ کہتے ہیں کہ بجز ہماری اس دنیوی زندگی کے اور کوئی حیات نہیں ہے، ہم مرتے ہیں اور جیتے ہیں اورہم کو صرف زمانے (کی گردش) سے موت آجاتی ہے اور ان لوگوں کے پاس اس پر کوئی دلیل نہیں۔ محض اٹکل سے ہانک رہے ہیں۔‘‘ (الجاثیہ: ۲۴)
جب آپ نے یہ حقائق جان لیے تو اب آپ کا فریضہ ہے کہ آپ خوب اچھی طرح سے اس بات کی کوشش کریں کہ اپنے بچے کو ارتداد کے خون خوار پنجوں سے اور الحاد کے داغوں سے بچائیں، تاکہ آپ کا بچہ راسخ ایمان اور مضبوط اسلام والا بنے اور شاندار استقامت پر قائم ہو اور ایسے لوگوں میں سے ہوجائے جن کو اللہ تعالیٰ نے نعمت ایمان اور کرامت اسلام سے قیامت تک کے لیے نواز دیا ہے۔ اسی میں بے شک اس کی بھلائی ہے اورآپ کی بھی۔ اس لیے کہ اگر اسے اپنے اعمال و افعال کا جواب دینا ہے تو آپ سے بھی آپ کی اس ذمہ داری کے بارے میں سوال ہوگا جو اس کی تربیت کے سلسلے میں آپ پر اللہ کے احکام اور رسول اللہ کے فرمان کی روشنی میں عائد ہوتی ہے۔
——