تربیت اولاد میں نبوی رہنمائی

پروفیسر محمد سلیم

شخصیت فرد کی جسمانی ذہنی اور روحانی صفات سے مل کر بنتی ہے اور ان صفات کے جسم انسانی میں خاص تناسب سے پروان چڑھنے سے شخصیت کی تکمیل ہوتی ہے۔ عام طور سے مضبوط اور صحت مند انسان کو اچھی اور پسندیدہ شخصیت سمجھا جاتا ہے جبکہ اسلامی نقطۂ نگاہ سے جسمانی اور ذہنی صحت کے ساتھ روحانی اور اخلاقی صحت کو اس سے بھی زیادہ اہمیت حاصل ہے۔ اسلام کی نظر میں بہترین فرد وہ ہے جسے ’’انسان مرتضیٰ‘‘ بننے کا شرف حاصل ہے اور جو تقویٰ کے اعلیٰ مقام پر فائز ہو جس طریقے اور پروگرام سے فرد اس مقام پر پہنچتا ہے اسے اسلام نے بڑی وضاحت سے بیان فرمادیا ہے۔

علمِ نفسیات کی جدید تحقیقات کے مطابق تشکیل شخصیت کا عمل پیدائش کے ساتھ ہی شروع ہوجاتا ہے۔ فرائڈ ایڈلریونگ اور ہارنے گیرن نے ’’انسانی شخصیت سے متعلق جدید نظریات‘‘ کے حوالے سے اس حقیقت کی نشاندہی کی ہے۔ فرائڈ نے تو بطور خاص بچپن کے حالات کو شخصیت کی تشکیل میں اہمیت کا حامل قرار دیا ہے۔ اس کی دو کتابیں اس ضمن میں خصوصی اہمیت رکھتی ہیں۔

علم نفسیات کے مطابق ۳ سے ۱۰ سال کی عمر کا زمانہ شخصیت کی تشکیل میں اہم رول ادا کرتا ہے اس عمر میں بچہ نیم شعوری کی کیفیت سے شعوری حالت کی طرف بتدریج ترقی کرتا چلا جاتا ہے۔ اس کے اندر آزادیٔ فکر و عمل کی روح ابھرنا شروع ہوجاتی ہے۔ اس دوران بچہ اسکول اور مدرسے کے ماحول سے بھی آشنا ہوتا ہے وہ اساتذہ کی نگرانی میں علم بھی حاصل کرتا ہے اور اپنے ساتھیوں سے تعلقات بھی بڑھاتا ہے۔ اس موقع پر والدین اور اساتذہ دونوں پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ بچے کے ذہن کی تعمیر کریں۔ والدین بچوں کو فضائل اخلاق، سچائی دیانت داری، ادب، اخلاق اور محنت کی تعلیم دیں اور رذائل اخلاق جیسے جھوٹ، بددیانتی، غیبت، منافقت کی برائیوں اور دیگر خرابیوں سے آگاہ کریں۔ خود ان کے سامنے کوئی ایسا عمل نہ کریں جو رذائل اخلاق کے دائرہ میں آتا ہو اور کبھی قول و عمل سے کسی ایسی بات کا مظاہرہ نہ کریں جو انہیں دی گئی تعلیم کے برعکس ہو، بچے کے ذہن میں اچھائی اور برائی میں تمیز کا نقش اسی صورت میں قائم ہوگا جب وہ بتانے والوں کو بھی اس کے مطابق عمل کرتا دیکھے گا۔ وگرنہ قول و فعل میں دو رنگی کا مظاہرہ اس کی شخصیت کو تقسیم کرنے کا سبب بنے گا۔ اور غلط اور صحیح میں تمیز کرنے کی صلاحیت سے بچہ محروم رہ جائے گا جس کا اثر عملی زندگی میں ہمیشہ قائم رہے گا۔

چھوٹے بچے کی تربیت کو اسلام میں غیر معمولی اہمیت حاصل ہے اس کا اندازہ قرآن مجید کی متعدد تعلیمات اور آنحضور ﷺ کے کثیر اقوال سے لگایا جاسکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔

اے ایمان والو! اپنے نفس کو اور اہل و عیال کو دوزخ کی آگ سے بچاؤ، التحریم :۶، بعض اجمالی تعلیمات ہمیں سورہ لقمان کی ان نصیحتوں سے ملتی ہے جو حضرت لقمان نے اپنے بیٹے کو دیں۔

ان آیات کریمہ کا مفہوم یوں ہے کہ ’’جب لقمان نے اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے کہا کہ بیٹا خدا کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرانا۔ بیشک شرک بڑا ظلم ہے اور ہم نے انسان کو اس کے ماں باپ کے متعلق حسن سلوک کی تاکید کی ہے۔ اس کی ماں نے ضعف پر ضعف اٹھا کر اس کو پیٹ میں رکھا اور ۲ برس تک دودھ چھڑانے کا عرصہ لگا ہے۔ تاکہ تو میرا اور اپنے والدین کا شکر ادا کرے تجھے میری ہی طرف لوٹ کر آنا ہے۔ اور تجھ پر اگر وہ دونوں (والدین) اس بات کے لیے زور دیں کہ میرے ساتھ کسی ایسی چیز کوشریک ٹھہرائے جس کی تیرے پاس دلیل نہیں تو ان کی بات نہ ماننا اور دنیا میں ان کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنا اور میری طرف رجوع والے لوگوں کے راستے پر چلنا۔ پھر تم سب کو میری طرف آنا ہے۔ پھر میں تم کو جتلا دوں گا جو کچھ تم کرتے تھے۔ بیٹا اگر کوئی عمل رائی کے دانے کے برابر ہو وہ کسی پتھر کے اندر ہو یا زمین و آسمان کے اندر ہو اللہ تعالیٰ اسے لے آئے گا۔ بے شک اللہ باریک بیں اور باخبر ہے۔ بیٹے! نماز پڑھ، نیکی کا حکم دیاکر اور برائی سے منع کیا کر اور جو مصیبت آئے اس پر صبر کیا کر۔ یہ ہمت کے کاموں میں سے ہے اور لوگوں سے اپنا رخ نہ پھیرا کر اور زمین پر اکٹر کر نہ چل بے شک اللہ تکبر اور فخر کرنے والے کو پسند نہیں فرماتا اپنی رفتار میں اعتدال پیدا کر اور اپنی آواز کو پست رکھ۔ بے شک آوازوں میں سب سے بری آوازگدھے کی ہے۔

ان آیات مبارکہ میں جن چیزوں کی تعلیم دی گئی ہے انہیں عقائد و معاملات میں دو حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے:

عقائد میں: (۱) اقرار توحید (۲) شرک سے اجتناب (۳) اللہ کی نعمتوں پر اظہار تشکر

معاملات میں: (۴) والدین کے ساتھ حسن سلوک (۵) اللہ کی نافرمانی اور والدین کے شرک کے حکم پر انکار (۶) ہر بڑے اور چھوٹے عمل پر جزاء وسزا کا حکم (۷)قیام صلوٰۃ (۸) امربالمعروف (۹) نہی عن المنکر (۱۰) اللہ کے راستے میں مصائب پہنچنے پر صبر (۱۱) لوگوں سے تکبر کی وجہ سے رخ پھیرنے کی ممانعت (۱۲) اترانے اور اکڑ کر چلنے کی ممانعت (۱۳) رفتار و گفتار میں میانہ روی اختیار کرنے کا حکم۔

مندرجہ بالا تعلیمات کی وضاحت آنحضور ﷺ کے اقوال سے بھی ہوتی ہے۔

ترمذی شریف کی حدیث ہے۔

’’کسی باپ کا کوئی عطیہ اپنے بیٹے کے لیے اس سے بڑھ کر نہیں کہ اس کی اچھی تعلیم و تربیت کرے۔‘‘ ایک اور جگہ آپ نے فرمایا:

’’جو شخص تین بیٹیوں یا تین بہنوں یا دو بیٹیوں کی پرورش کرے اور ان کو اچھی تعلیم دے اور عمدہ آداب سکھائے اور پھر اس کے بعد نکاح کردے تو ایسا شخص جنتی ہوگا۔‘‘

بخاری اور مسلم شریف کی روایت ہے کہ حضرت ابوحفص عمرؓ بن ابو سلمہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ کی پرورش میں ابھی بچہ ہی تھااور میرا ہاتھ پیالے میں گھومتا تھا۔ آپؐ نے مجھ سے فرمایا اے لڑکے بسم اللہ پڑھو اور داہنے ہاتھ سے کھاؤ اور اپنے قریب سے کھاؤ ۔آپؐ کے ارشاد کے بعد میرے کھانے کا طریقہ یہی رہا۔

ان احادیث سے بچوں کی تربیت کرنے کی اہمیت معلوم ہوتی ہے کہ حضور ﷺ کو بچوں کا حسن ادب اور اچھی عادات کس قدر عزیز تھیں کہ آپؐ نے خود بچوں کو سکھایا اور امت کو یہ خوش خبری دی کہ بچوں کی صحیح تربیت کرنے والا شخص جنت میں جائے گا اور یہ کہ والدین کا بچوں کے لیے یہی بہترین تحفہ ہے کہ ان کی بہترین تعلیم و تربیت کی جائے۔ تعلیم و تربیت کے لائحہ عمل اور عمر کے تعین کے سلسلہ میں آپؐ کا یہ فرمان خصوصی اہمیت کا حامل ہے کہ

’’جب بچے سات سال کی عمر کو پہنچ جائیں تو انہیں نماز کا حکم دو اور دس سال کی عمر میں (نماز نہ پڑھنے کی وجہ سے) انہیں مارو اور ان کے بستر الگ کردو۔‘‘ اس حدیث پاک میں دو چیزوں کی نشاندہی فرمائی گئی ہے:

(۱) عملی تعلیم کے لیے عمر کا تعین (۲) نماز و عبادت و فضائل اخلاق کی تعلیم۔

آپؐ نے سات سال کی عمر میں نماز کی ترغیب کا جو حکم دیا ہے اس کی حکمت میں یہ بات بظاہر نظر آتی ہے کہ نماز چونکہ عبادات کا خلاصہ ہے اور برائی اور بے حیائی سے بچانے کا ذریعہ ہے اور بچہ اس وقت تک اچھی اور بری چیز میں تمیز کرنے کے قابل ہوجاتا ہے اس لیے اس عمر میں بچے کو نماز کی تعلیم دینا اسے نیکی طرف راغب کرنے کا ذریعہ بنتا ہے۔

اس حکم سے اس طرف بھی اشارہ ملتا ہے کہ نماز کے ساتھ فضائل اخلاق اختیا رکرنے کی ترغیب بھی جاری رکھنی چاہیے اور یہ دونوں کام سات سال کی عمر سے ہی توجہ کے ساتھ شروع ہوجائیں۔ اور دس سال کی عمر تک محبت اور شفقت سے بچے کو ان امور کی طرف راغب کرتے رہنا چاہیے یہ تین سال کا زما نہ ٹریننگ او رتربیت کا وقت ہے۔ اس مسلسل تربیت کے بعد اگر بچہ نماز اور دیگر فضائل اخلاق کی طرف توجہ نہیں دیتا ہے۔ تو پھر اس پر سختی کی جاسکتی ہے اور سختی کے لیے یہی وقت موزوں ترین ہے۔ اگر دس سال کی عمر میں بھی نرمی اور لاڈ پیار کی وجہ سے بچے کی سرزنش نہ کی گئی تو اس کی شخصیت میں یہ چیزیں کبھی بھی راسخ نہ ہوسکیں گی اور پندرہ سال کی عمر کے بعد اگر ہم بچے کو سختی سے نیکی کی طرف راغب کریں گے اور برائی سے روکیں گے تو اس کے خاطر خواہ نتائج نہیں نکل سکیں گے۔ آپؐ کی یہ حدیث تربیت کے ضمن میں عمر کے صحیح وقت کا تعین فرماتی ہے اور اس وقت کی اہمیت کو اجاگر کرتی ہے۔

اس عمر میں والدین پر ایک اور اہم ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ کہ وہ بچے کے کردار و عمل کا بغور مطالعہ کرتے رہیں تاکہ انہیں معلوم ہوتا رہے کہ بچے کا عمل اس تعلیم کے مطابق ہے یا نہیں۔ اگر عمل اس تعلیم کے برعکس ہو تو اس کے اسباب معلوم کرکے مناسب حال تجاویز اختیار کرنی چاہئیں۔ ان اسباب میں عام طور پر بری سوسائٹی، مخرب اخلاق لٹریچر اور برے دوست شامل ہوسکتے ہیں بچے کو نرمی اور سختی ہر دو ذرائع سے برے امور سے بچنے کی تلقین کرتے رہنا چاہیے، تاکہ تعمیر شخصیت کا عمل صحیح رخ پر قائم رہے۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں