تربیت اولاد میں والدہ کا کردار

ڈاکٹر تمنا مبین اعظمی

اس میں کوئی شک نہیں کہ اولاد کی تربیت ماں باپ دونوں کی ذمہ داری ہے لیکن اس میں ماں کا کردار باپ سے زیادہ اہم ہوتا ہے اور بچوں پر والد کے بہ نسبت والدہ کا اثر اور ان کے ساتھ انسیت بھی زیادہ ہوتی ہے۔ پھر مائیں بچوں کے ساتھ زیادہ وقت گزارتی ہیں جب کہ باپ روزی روٹی کے لئے عموما مصروف ہوتے ہیں۔ اس لئے یہ نہایت ہی ضروری اور وقت کی اہم ضرورت ہے کہ مائیں اپنی ذمہ داری کو سمجھیں اور تربیت اولاد کے لئے مستقل فکر مند اور کوشاں رہیں اور جس ذمہ داری کو اللہ نے ان پر ڈالا ہے اسے حتی الامکان نبھانے کی کوشش کریں۔
ہمارے معاشرے کا المیہ یہ ہے کہ نہ تو شادی کے وقت نوجوان بچے بچیوں کی کونسلنگ ہو تی ہے اور نہ ہی جب وہ والدین بننے والے ہوتے ہیں۔ کوئی نہیں بتاتا کہ اولاد کی صورت میں کتنی اہم ذمہ داری آنے والی ہے اور اسلامی نہج پر کیسے اس کی تربیت کرنا ہے اور اس مقصد کے لئے کیسے اپنا کردار درست کرنا ہوگا۔نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ایک دو بچوں میں ماؤں کو پتا ہی نہیں ہوتا کہ کیسے کیا کرنا ہے ، جس سے بچوں میں کئی کمیاں پیدا ہو جاتی ہیں۔ کچھ تجربے کے بعد چیزیں سمجھ میں آتی ہیں تب تک بہت دیر ہو چکی ہو تی ہے۔ اس سلسلے میں تجربہ کار ماؤں کو چاہیے کہ اپنی بیٹیوں اور بہؤوں کو جس طرح سے جسمانی طور پر دوران حمل تیار کرتی ہیں ویسے ہی ذہنی اور جذباتی طور پربچوں کی اعلیٰ اور بہترین تربیت کے لیے بھی تیار کریں۔
عورت کی اصل ذمہ داری
اس دنیا میں ہر شخص حقوق اور ذمہ داریوں کے ساتھ بھیجا گیا ہے۔ عورت کو اس کے شوہر کے گھر اور بچوں کی تعلیم و تربیت کا ذمہ دار بنایا گیا ہے۔ اس سلسلے میں نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: کلکم راع و کلکم مسئول عن رعیتہ۔۔۔المراۃ راعیۃ علی بیت زوجہا و ولدہ تو عورت کی اصل ذمہ داری جس کے بارے میں وہ جواب دہ ہوگی شوہر کے گھرکی دیکھ ریکھ اور بچوں کی تعلیم و تربیت ہے۔ اپنی اس ذمہ داری کے سلسلے میں ہمیں ویسے ہی ہمہ وقت تیار رہنے اور کوشش میں لگے رہنا چاہئے جیسا کہ عبادات کے لئے رہتے ہیں۔ یہ کوئی دنیاوی کام نہیں ہے بلکہ سراسر عبادت ہے جس میں کوتاہی ہونے کی صورت میں سزا کی مستحق ہو سکتے ہیں۔ اب سوچنے کا یہ مقام ہے کہ کیا ہم اولاد کی تربیت اس طرح سے کرتے ہیں جیسا کہ کرنے کا حق ہے؟؟؟
پھر یہ دیکھیے کہ ماں کے حقوق اتنے زیادہ ہیں، کیوں؟؟اتنا بڑا درجہ یونہی تو نہیں مل گیا بلکہ ذمہ داری کے سبب ہے۔ جب ذمہ داری ہی نہیں پوری کی تو درجے کی امید کیسی؟ جب اولاد کی تربیت ہی نہیں کی تو ان سے اکرام و تکریم اور عزت کا مطالبہ کیسا؟ ان کی سنگ دلی اور بے حسی پر رونا کیسا؟ ہم نے اپنا فرض ادا نہ کرکے اپنی دنیا بھی خراب کر لی اور اپنے عزیز از جان بچوں کو جہنم کا ایندھن بننے کا سامان بھی کردیا۔ (نعوذ باللہ من ذلک)
تربیت اولاد کی تیاری
تربیت اولاد کی تیاری دوران حمل سے ہی شروع کر دینی چاہئے اور ذہنی طور پر اس نئی ذمہ داری کے لئے خود کو تیار کر لینا چاہیے۔ اس دوران مائیں لڑائی جھگڑے، غلط سوچ و خیالات سے دور ہیں ۔عبادت و ریاضت اور اچھے کاموں میں اپنے آپ کو مصروف رکھیں۔کوشش کریں کہ نوزائیدہ کے مسائل، ان کی دیکھ ریکھ اور ابتدائی دور میں تربیت کے حوالے سے معلومات حاصل کرتی رہیں۔
تربیت کے ذرائع
بچے تین ذرائع سے سیکھتے ہیں:۱۔ تقلید۲۔ رہنمائی ۳۔ تجربہ
ان تینوں ذرائع میں بچوں کے معاملے میں پہلا ذریعہ سب سے اہم اور مؤثر ہے ۔جس دن ایک نیا فرد خوشیوں کی سوغات کے ساتھ ساتھ بڑی ذمہ داری لے کر آپ کے گھرآیا سمجھ لیجئے کہ ایک سی سی ٹی وی کیمرہ آپ کے گھر لگ گیا جو چوبیس گھنٹے گردو پیش میں ہونے والی ایک ایک ایکٹیوٹی کو ریکارڈ کر رہا ہے۔ یہ ہر گز نہ سمجھیں کہ بچہ ہے اسے کیا پتا کہ کیا ہو رہا ہے، نہیں دنیا میں آتے ہی اس حواس خمسہ کام کرنے لگتے ہیں وہ ایک ایک چیز کو محسوس کرتا ہے۔ ماں کے لمس اور دوسروں کے لمس کو پہچانتا ہے۔ وہ محبت، غصہ، نرمی اور سختی کے فرق کو سمجھتا ہے یعنی وہ شروع کے ایام سے ہی اردگرد کے ماحول کا اثر قبول کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ تو تربیت میں بڑے ہونے یا شعور کو پہنچنے کا انتظار کیوں؟ تب تک تو بہت دیر ہو چکی ہو گی ۔ ابھی بچہ اس نئے کمپیوٹر کی طرح ہے جسے آپ بازار سے لائے ہیں اور پلگ لگا کر آن کیا ہے۔ کوئی ڈیٹا نہیں ہے۔ اب آپ کے اوپر ہے کہ اس کے اند ر کیسا ڈیٹا فیڈ کرناچاہتے ہیں ۔ ابتدا کے سات سالوں تک یہ بچہ صرف اسٹور کرنے والی مشین ہے وہ تمام چیزیں اپنے دماغ میں محفوظ کررہا ہے۔ جذبات و احساسات ، ایکسپریشن اور ہر قسم کے ہونے والے کام اس کے دماغ میں محفوظ ہو رہے ہیں۔ یہ تربیت کے سب سے اہم ترین سال ہیں۔ اس میں محنت کر لی تو آ گے آسانی ہو گی، یہاں کوتاہی ہوگئی تو اب راہ راست پر لانا ایک مشکل عمل ہو گا۔لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ عموما یہ وقت ہم بچوں کو چھوٹا، ناسمجھ سمجھتے ہوئے ضائع کر دیتے ہیں۔اب سات سال کے بعد جو کچھ بچے نے دماغ میں فیڈ کیا ہے اس کے مطابق کام کرنے کا عمل شروع ہوتا ہے۔ یہ سب کچھ بالکل آٹومیٹک ہوتا ہے۔ کس سیچویشن میں کیا کرنا ہے وہ اپنی یادداشت کے مطابق کرے گا۔ اب تک بچے نے جیسا دیکھا ، سنا ہو گا ویسے ہی کام کرے گا۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اس عرصے میں محفوظ ہوئی چیزیں ہی آئندہ زندگی میں اس کی شخصیت کیسی ہو گی اس کو طے کریں گی۔
ابھی جو سات سالوں تک تربیت کے مرحلے کا ذکر ہوا ہے تو یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس چھوٹی عمر میں تربیت کیسے کی جائے تو اس کا بس ایک ہی جواب ہے اپنے عمل کے ذریعے۔ آپ جیسا اپنے بچے کو بنانا چاہتے ہیں ویسا آپ کو خود بننا پڑے گا۔ آپ کا عمل اس کے لئے نمونہ ہوگا۔ آپ کے عمل اور کردار سے چیزیں بچوں کے ذہن میں نقش ہوتی چلی جائیں گی جو پوری زندگی اس کی رہنمائی کریں گی۔
رہنمائی
سات سال کے بعد بھی آپ کے پاس تھوڑا وقت ہے جو کمی بیشی ہو گئی ہے تربیت میں اسے صحیح کرنے کا۔ چودہ پندرہ سال کے بعد اب آپ کچھ نہیں کر سکتے جب تک کی بچہ خود کسی چیز کو غلط سمجھ کر خود چھوڑ دے یا کسی چیز کو صحیح سمجھ کر خود اپنا لے۔ اب آپ صرف اسے اپنے اعتماد میں لیں اور اسے بے لوث محبت دے کر خود سے قریب رکھیں۔سوائے اس رویے کے کوئی زور زبر دستی انہیں سدھار نہیں سکتی۔ عمر کی اس دور میں اسے رہنمائی کی ضرورت ہے۔ زندگی کے مختلف امور کی ادائیگی میں ابھی اس کا فہم اتنا پختہ نہیں ہوا ہے کہ وہ خوددرست نتائج اخذ کر سکے ۔ اس موقع پر درست اور مناسب رہنمائی کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ کو ئی بھی غلط عادت یا رویہ پختہ ہو کر اس کے اخلاق و کردار کا حصہ نہ بن جائے۔ رہنمائی میں بھی آپ کو مثال بننا پڑا گا تب کام آپ کے لئے آسان ہوگا ۔ مثال کے طور پر بچہ کام والی آنٹی سے بد تمیزی سے بات کرتا ہو تو اس عادت کو درست کرنے لئے آپ کو کام والی کے ساتھ عزت سے پیش آنا پڑے گا۔ محض یہ بتا دینے سے کہ یہ غلط بات ہے بچہ اس کا عادی نہیں ہو پائے گا۔
تجربہ
تقلید کے ساتھ ساتھ بچہ تجربے سے بھی سیکھتا ہے۔ مثال کے طور پر بچے کو منع کرتے رہو کہ چائے گرم ہے جل جائیں گے لیکن وہ اسی کی طرف لپکتے رہیں گے لیکن ایک بار جب جل جائیں گے تو اب دوبارہ بہت سنبھل کر چائے پیئں گے۔ لیکن بچے تجربات سے جو نتیجہ اخذ کرتے ہیں ضروری نہیں ہے کہ وہ صحیح ہی ہو یہاں بھی انہیں رہنمائی کی ضرورت ہوتی ہے۔ تجربے کرنے دیں لیکن بغور مشاہدہ کرتے رہیں تاکہ غلط نتیجہ بچے کی شخصیت پر اثر انداز نہ ہو۔
تربیت کے چند بنیادی اصول
(1) تربیت ایک مسلسل عمل ہے جس طرح ہر آن ہر لمحہ بچے کا جسم نشوونما پا رہا ہے بالکل ویسے ہی اس کی عادات بھی تشکیل پا رہی ہیں۔ بچہ جو ایک باشعور ہستی ہے جس کا مشاہدہ بہت تیز ہے اس کی تربیت کے لئے بڑے ہونے کا انتظار نہ کریں۔
(2) تربیت میں انعام اور سزا دونوں کی اہمیت ہے۔بچہ اگر چھوٹا ہی ہے اور کچھ بھی کرکے خوش ہو رہا ہے تو اس کی حوصلہ افزائی کریں،خوشی کا اظہار کریں، کوئی غلط کام سر زد ہوگیا، کچھ گرا دیا ، توڑ دیا تو آنکھ دکھا دیں ، ناراضگی ظاہر کریں بچہ سمجھ جائے گا کہ یہ کام غلط ہے۔دونوں میں اعتدال بہت ضروری ہے۔
(3) ہر بچہ منفرد ہے اس کی صلاحیتیں اور شخصیت دوسروں سے جدا ہیں۔ ہر وقت بچوں کا باہم موازنہ کرتے رہنا ان کی شخصیت میں منفی رویہ پیدا کر سکتا ہے۔ بچے کی صلاحیت کو ابھارنے اور پروان چڑھانے کی کوشش کریں۔ ایک پلان بنائیں کہ بچہ کو کیسا بننا ہے کیا کرنا ہے اور اس پلان کے مطابق رہنمائی بھی کریں لیکن اس میں اتنی لچک ضرور ہو کہ بچے کی صلاحیت اور شخصیت متاثر نہ ہو۔
(4) اپنے بچوں کو نظم و ضبط سکھا نے کے لئے گھر میں کچھ قوانین بنائیں جوآپ سمیت گھر کا ہر فرد مانے تاکہ بچے وقت کی اہمیت کو سمجھیں اور ایک نظم و ضبط کے ساتھ زندگی گزارے کے عادی ہوں۔بچوں کو جو بھی آداب سکھانے ہوں ان پر عمل در آمد کے معاملے میں یکسانیت اور مستقل مزاجی ہو۔ جو غلط ہے وہ ہمیشہ غلط ہے۔
(5) بچپن سے ہی اس میں اچھی عادات کی تشکیل کریں۔ بچہ جو کام بار بار کرتا ہے وہ اس کی عادت کا حصہ بن جاتا ہے اور تادم حیات اسے کرتا ہے۔ مثلا کھانے کے آداب، مختلف کاموں کو کرتے وقت کی دعائیں پڑھنے کی عادت، سویرے سونے اور جلد بیدار ہونے کی عادت، نماز اور تلاوت کی عادت وغیرہ وغیرہ لیکن جو بھی عادت ان میں ڈالیں اس کام کی اہمیت اور اس فائدہ کیا ہے اسے بھی بتاتی رہیں۔ صرف چند بار نہیں بلکہ بار بار جیسا کہ قرآن کہتا ہے : اے لوگوں جو ایمان لائے ہو اپنے اہل و عیال کو نماز کا حکم دو اور اس پر جمے رہو۔ ہم دو چار بار کہنے کے بعد غصہ کرنے لگتے ہیں۔ ڈانٹنے پھٹکارنے لگتے ہیں اس سے گریز کریں۔
(6) گھر کا ماحول خوشگوار ہو اور گھر کے ہر فرد کا دوسرے کے ساتھ مضبوط تعلق ہو ۔ اس کا بچے کی شخصیت پر مثبت اثر رونما ہو گا اور رشتوں کو نبھانا بچہ عملی طور پر دیکھ کے سیکھے گا۔بڑوں کا احترام اور چھوٹوں سے پیار ہو۔ تمام اخلاقی خرابیوں سے والدین کے ساتھ ساتھ افراد خانہ خود کو بچا کر رکھیں ، بچہ خود بخود سیکھتا چلا جائے گا۔
(7) شروع سے ہی طہارت، لباس، شرم و حیا کے بارے میں بتاتی رہیں تاکہ بچوں کے ذہن میں رچ بس جائیں۔ اپنے پرائے کے فرق کو بتائیں، اچھے ٹچ اور برے ٹچ کے بارے میں بتاتی رہیں۔
(8) بچوں سے خوب بات کریں، اسکول کے بارے میں، ٹیچر اور دوستوں کے بارے میں، وین کے ڈرایئور کے بارے میں، کسی ملنے جلنے والے والے کے ساتھ بچوں نے اکیلے وقت گزارا ہو اس کے بارے میں، کسی رشتے دار کے گھر گیا ہو تو اس کے بارے میں۔ اس سے کسی بھی انہونی کے بارے میں بچہ بتائے گا اور آپ خود اس کے انداز اور باتوں سے محسوس کر لیں گی کہ بچے کے ساتھ خدا نخواستہ کچھ غلط تو نہیں ہو رہا ہے۔ بچوں کو سنئے۔ ان کی تمام چھوٹی اور عام سے باتوں میں دل چسپی لیجئے۔ اچانک در آنے والی کسی بھی تبدیلی یا انداز گفتگو پر چونکنا ہو جائیں۔ حالات بہت خراب ہیں بچوں کی حفاظت کیجئے۔کہانی سنانے کی عادت ڈالیں اس کا بہت اچھا اثر پڑتا ہے۔
(9) عمر کے حساب سے بچوں کواپنی حفاظت کے طریقے بتائیں۔کوئی انجان پکڑ رہا ہو،کسی جگہ کھو گئے ہوں ، کوئی زبر دستی کچھ کھانے کو دے رہا ہے وغیرہ حالات میں انہیں کیا کرنا ہے اس سے ضرور آگاہ کریں۔ ہر ممکنہ حالات کے لئے ذہنی طور پرتیار رکھیں۔ حفاظت کے طریقوں پر ویڈیوز بھی ہیں وہ دکھا سکتی ہیں۔موبائل نمبر اور گھر کا ایڈریس، والد کی نوکری کی جگہ، کس ادارے میں ہیں وغیرہ چہزوں کے بارے میں بتائیں۔
(10) بچوں کو بہادر بنائیں۔Never give up کی تعلیم دیں۔ صرف اللہ سے ڈرنا اور اسی سے مانگناسکھائیں۔
(11) تربیت کی تمام کوششوں کے ساتھ ساتھ اللہ سے دعائیںکرتی رہیں۔ اللہ پاک ہمیں اپنی ذمہ داریاں بہترین طریقے سے کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ ہمارے بچوں کو تمام آفات ، بلاؤں اور برے لوگوں سے محفوظ رکھے۔ آمین!

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں