تربیت اولاد میں والد کا کردار

ڈاکٹر تمنا مبین اعظمی

اللہ رب العزت دنیا میں نسل انسانی کی بقا کے لئے نکاح کے ذریعے اجنبی مرد و عورت کو اٹوٹ بندھن میں باندھ دیتا ہے اور پھر اولاد کی آمد ان کے رشتے کو مزید مضبوطی عطا کرتی ہے۔ اولاد دونوں کا تمام تر محور و مرکز ان کی اولاد ہوجاتی ہے۔ دونوں مل کر اولاد کی فلاح و بہبود کے لئے محنت و مشقت کرتے ہیں۔ عموماً اولاد کی تربیت کے سلسلے میں یہ خیال پایا جاتا ہے کہ تربیت سراسر ماں کی ذمہ داری ہے باپ کا کام کما نا اور اولاد کی معاشی ضروریات کی تکمیل کرنا ہے۔جن گھروں میں بھی ایسا ہوتا ہے وہاں اولاد بالعموم والد سے خوفزدہ ہوتی ہے اور ان کی شخصیت بھی مکمل نہیں ہوتی ہے۔ جب کہ اسلام کا رویہ یہ ہے کہ اولاد کی تربیت والدین کی ذمہ داری ہے دونوں پر لازم ہے کہ اولاد کی دینی، اخلاقی اور نفسیاتی تربیت کریں اور انہیں بہترین انسان کے طور پر پروان چڑھانے میں ایک دوسرے سے تعاون کریں۔ اس تحریر میں ہم والد کے کردار پر گفتگو کریں گے اور جانیں گے کہ اولاد کی تربیت میں والد کا کردار کیسا اور کیا ہونا چاہیے۔
اولاد کی تربیت کے لئے فکر مند ہونا
نبی اکرم ﷺ نے فرمایا والد جو کچھ بھی اپنی اولاد کو دے سکتا ہے اس میں سب سے بہتر تحفہ اچھی تعلیم و تربیت ہے۔ والدین پر یہ لازم ہے کہ اپنی اولاد کی اخروی زندگی کی فکر دنیاوی زندگی سے کہیں زیادہ کریں۔جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: اے ایمان والوں اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو جہنم کی آگ سے بچاؤ۔ باپ چونکہ گھر کا نگراں، محافظ اورذمہ دار ہوتا ہے تو یہ ذمہ داری اس کی ہے کہ اپنے بال بچوں کی بہترین طریقے سے اسلامی خطوط پر پرورش کرے اور اگر بچوں کی ماں سے بھی کوئی کوتاہی ہو رہی ہو تو اسے بھی وقتا فوقتا خبردار کرتا رہے۔
جو کہے خود اس پر عمل پیرا ہو
تربیت سے حوالے سے یہ پہلو بہت اہم ہے کہ تربیت کرنے والا اپنے الفاظ کی چلتی پھرتی تصویر ہو۔ بچے الفاظ سے زیادہ ہمارے اعمال سے سیکھتے ہیںلیکن ہمارا رویہ عموما اس سے مختلف ہوتا ہے۔ ہم بچوں کو نماز پڑھنا، جھوٹ نہیں بولنا، لڑائی نہیں کرنا ، تیز آواز میں بات نہیں کرناوغیرہ وغیرہ سکھاتے ہیں اور نہ کرنے کی صورت میں ڈانٹتے ہیں اور سخت رویہ اپناتے ہیں لیکن خود بچوں کے سامنے جھوٹ ، غیبت، لڑائی ، دوسروں کی برائی وغیرہ کرتے رہتے ہیں ۔اسلام بھی یہی کہتا ہے’’ تم وہ کیوں کہتے ہو جو کرتے نہیں ہو‘‘۔ اس حوالے سے ہمیں محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔ جیسا اولاد کو بنانا چاہتے ہیں ویسا خود بننا پڑے گا۔
اپنے گھر کا ایک منظم اصول بنائیں
چونکہ باپ سے بچے عموما ماں کے بہ نسبت تھوڑا ڈرتے ہیں اور اس کی بات کو مانتے ہیں اس لئے ضروری ہے کہ گھر کے اصول بنائے جائیں ۔ یہ اصول و ضوابط آپ اپنے بچوں کی عمر کے لحاظ سے متعین کر سکتے ہیں اور ان اصولوں پر گھر کا ہر فرد سختی سے عمل پیرا ہو اور نہ ماننے کی صورت میں اسے واضح کرنے کا حکم دیا جائے کہ اس نے کیوں کسی اصول کو توڑا۔ مثال کے طور پر کتنے بجے آپ کے گھر میں سب لوگ سو جائیں، اٹھنے کا وقت متعین ہو، کھانا سب کو ساتھ میں کھانا ہے، موبائل اور دوسرے گیجٹس کو کتنا استعمال کرنا ہے، کتنا روزانہ مطالعہ کرنا ہے ، ایک دوسرے کو وقت دینا ہے وغیرہ وغیرہ چیزوں کو اپنے ضوابط میں شامل کیجیے۔ پھر گھر کا ہر فرد اس پر عمل پیرا ہو۔ایک امریکی محقق کہتے ہیں کہ ہر باپ کو یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ ایک دن اس کا بیٹا اس کی نصیحت کے بجائے اس کے ماڈل پر عمل کرے گا۔ اس لئے اپنی زندگی کو بااصول اور منظم بنائیں تاکہ آپ کی اولاد بھی آپ کے نقش قدم پر چلے۔
سختی کے بجائے نرمی کا رویہ اپنائیں
عموماً باپ تربیت میں جلدی سختی پر آمادہ ہو جاتا ہے لیکن تربیت میں جتنی نرمی، خیر خواہی، محبت کا رویہ اختیار کیا جائے بچوں پر اس کے اتنے ہی بہتر اور دور رس نتائج مرتب ہوتے ہیں۔آج کے دور میں بچے سختی کی صورت میں والدین سے دور ہونے لگتے ہیں اور سوشل میڈیا پر دوست تلاش کرنے لگتے ہیں ۔ یہ دوست زیادہ تر ضرررساں ہوتے ہیں۔ آپ اپنے بچوں کے دوست بن جائیں یہ آج کے دور کی ضرورت ہے تاکہ اگر بچے سے کوئی غلطی بھی ہوجائے تو وہ آپ کو بتائے اور آپ اس کی صحیح رہنمائی کر سکیں۔ وہ اپنی خوشی، غم، ڈر، ٹینشن سب آپ سے شئیر کرے ۔اسے آپ کے پاس راحت اور سکون ملے جیسا کہ دوست کے پاس ملتا ہے۔ ظاہر ہے کہ والدین سے بہتررہنمائی کوئی نہیں کر سکتا ۔ امام غزالی کہتے ہیں کہ ہر غلطی پر بچوں کو ٹوکنا نہیں چاہیے اس سے ان کے ذہنوں میں تنقید کو سننا اور غلطی کا ارتکاب کرنا بے وزن ہوجاتا ہے اور بات اثر کرنا چھوڑ دیتی ہے۔ کن امور پر سختی کرنی ہے اور کس حد تک کرنی ہے یہ واضح ہونا چاہیے۔
بچوں کو وقت دیجئے
والد صاحبان کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ آپ کی سب سے انمول دولت اور سب سے بڑی ذمہ داری جس کے بارے میں اللہ کے حضور جواب دینا ہو گا آپ کی اولاد ہے۔ اپنے بچوں کو کوالٹی ٹائم دیجیے۔ وہ وقت جس میں آپ کے اور بچوں کے درمیان کوئی نہ ہو، جہاں بچہ آپ کو اسکول کے تجربات کے بارے میں بتائے ، اپنی خوشی اور پریشانی آپ سے شئیر کرے۔ والد کی توجہ بچوں کو پر اعتماد بناتی ہے۔ مشفقانہ انداز میں ان کی عمر کے مطابق بات کیجئے۔ انہیں بولنے کا زیادہ موقع دیجیے۔ نصابی اور غیر نصابی سرگرمیوں کے بارے میں ان سے بات کیجئے۔ ان کے دوست اور ٹیچر کے بارے میں پوچھیں۔ پسند ناپسند پر بات کریں۔ قصے کہانی کے ذریعے تربیت کریں۔ بات کرتے ہوئے کوئی دعا سن لیں ، سورہ یاد کرا دیں۔ بچوں کو ٹاسک دیں اور اپنے طور پر اسے انجام دینے کے لئے حوصلہ افزائی کریں۔ ان کے کھیل کود میں ساتھی بن جائیں۔ اس کے مثبت اثرات بہت ہی جلدی آپ کو نظر آئیں گے۔
سیر و تفریح پر لے جائیں
بچے روزانہ کی روٹین سے بوریت محسوس کرنے لگتے ہیں اسی لئے وقتا فوقتا انہیں سیر و تفریح کی مناسب جگہ پر لے جائیں اس سے بچے تازہ دم بھی ہو جاتے ہیں ساتھ ہی بہت کچھ نیا سیکھتے ہیں۔ لوگوں سے ملنے جلنے سے ان کی شخصیت نکھرتی ہے، پر اعتماد بنتے ہیں، بات کرنے کی صلاحیت پروان چڑھتی ہے، جھجھک دور ہوتی ہے۔ بازار لے جائیں تاکہ چیزوں کے خریدنے کا ہنر سیکھیں، پیسے کا صحیح استعمال کرنا جانیں۔ مسجد لے جائیںتاکہ مسجد میں نماز پڑھنے کی عادت ہو، مسجد کے آداب دیکھیں۔ رشتے داروں اور دوستوں سے ملوانے کا اہتمام کریں تاکہ بچہ رشتے کی اہمیت سے واقف ہوں۔
زوجین ایک دوسرے کا احترام کریں
بچوں کے سامنے بیوی سے لڑنے جھگڑنے یا اس کے لیے غیر مناسب الفاظ استعمال کرنے سے سختی سے احتراز کریں ۔ اس کا بہت ہی منفی اثر آپ کے بچے کی شخصیت پر رونما ہو گا اور وہ خود کو کبھی اس سے نکال نہیں پائے گا۔ پھر بچہ ماں باپ میں سے ایک کو ہیرو اور دوسرے کو ولن کے طور پر لے گا۔ ماں باپ دونوں بچوں کے سامنے ایک دوسرے لئے اچھے الفاظ استعمال کریں۔ بچے لا شعوری طور پر اپنی زندگی میں آپ کے اصولوں پر عمل کریں گے کیونکہ ان کے دماغ میں آپ کا رویہ آٹو میٹک طور پر فیڈ ہو رہا ہے۔
بہترین تعلیم کا انتظام:
بچوں کو بہترین عصری اور رائج الوقت تعلیم سے آراستہ کرنا والدین کی ذمہ داریوں میں سے ایک اہم ذمہ داری ہے ۔ اس کے لئے والد ایڈمیشن سے پہلے ہی دوڑ بھاگ کرکے مناسب اسکول تلاش کریں جہاں سے بچہ تعلیم یافتہ ہونے کے بعد دنیا سے قدم سے قدم اور آنکھ سے آنکھ ملا کر زندگی گزار سکے اور ملک و قوم کے بہترین سرمایے کی حیثیت سے سامنے آئے۔ آج کے زمانے میں جب کہ دنیا سائنس و ٹکنالوجی کے میدان میں روزافزوں ترقی کر رہی ہے اور تعلیم ہی اس بات کا فیصلہ کر رہی ہے کہ ترقی کسے کرنی ہے اور تنزلی کس کے حصے میں آئے گی ایسے میں رائج الوقت تعلیم میں بچوں کو ماہر کرنا وقت اور حالات کی اہم ضرورت ہے۔
دعا کرنا
ان سب کے ساتھ ہمیشہ اللہ سے اولاد کے حق میں دعا کرتے رہنا چاہیے کیونکہ بنا اللہ کی مدد کے انسان کچھ بھی کرنے پر قادر نہیں ہے۔ ہم انبیاء و صلحاء کے واقعات میں دیکھتے ہیں کہ وہ بہت ہی دلسوزی سے اولاد کے آنے سے پہلے اور آنے کے بعد بھی صالح اولاد کی دعا کرتے رہتے تھے ۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں