بچوں کی تربیت کے لیے مؤثر طریقہ اختیار کرنا نہایت اہم اور ضروری ہے۔ کیونکہ بچہ والدین کے پاس خدا کی امانت ہے اور اس کا دل و دماغ ایک عمدہ صاف اور سادہ آئینہ کی مانند ہے۔ جو بالفعل اگرچہ ہر قسم کے نقش و صورت سے خالی ہے، لیکن ہر طرح کے نقش و اثر کو قبول کرنے کی استعداد رکھتا ہے۔ اور جس چیز کی طرف چاہیں مائل کیا جاسکتاہے، چنانچہ اگر اس میں اچھی عادات پیدا کی جائیں اور اسے زیورِ تعلیم سے آراستہ کیا جائے تو وہ ایسی ہی عمدہ نشوونما پاکر دین و دنیا کی سعادت حاصل کرلیتا ہے اور اس کے اجر میں اس کے والدین اور استاد بھی حصہ دار ہوتے ہیں اور اگر اس کی نگہبانی نہ کی جائے اور بالکل شتر بے مہار کی طرح چھوڑ دیا جائے تو وہ بداخلاق ہوکر تباہی کے گڑھے میں جاگرتا ہے۔ جس کا وبالِ گناہ اس کے سرپرست کی گردن پر پڑتا ہے۔ اس سلسلہ میں ارشاد باری تعالیٰ یہ ہے:
یا ایہا الذین اٰمنوا قوا انفسکم و اہلیکم وناراً۔
’’اے ایمان والو! اپنی جانوں کو اور اپنے اہل و عیال کو (جہنم کی) آگ سے بچاؤ۔‘‘
اور جس طرح باپ اپنی اولاد کو دنیا کی آگ سے بچاتا ہے، تو اسی طرح اس پر لازم ہے کہ اسے آخرت (جہنم) کی آگ سے بچائے اور اس کا طریقہ یہی ہے کہ اسے آداب و تہذیب سکھائے اور اعلیٰ اخلاق تعلیم دے اور برے ماحول سے اس کی حفاظت کرے۔ جیسا کہ نبی اکرم ﷺ کا ارشاد ہے:
ان اللّٰہ لا یحب الفاحش المتفحش الصیاح فی الاسواق۔
’’اللہ تعالیٰ بے حیا، بیہودہ گو اور بازاروں میں چیخنے چلانے اور شور مچانے والے آدمی کوپسند نہیں فرماتے۔‘‘
اولاد کو ناز و نعمت کا عادی نہ بنائے اور اس کے ذہن میں بناؤ سنگار، زیب و زینت، تن آسانی اور آرام طلبی کی رغبت نہ بیٹھنے دے۔ ورنہ وہ بڑا ہوکر ان ہی حقیر اور فضول چیزوں کی طلب و جستجو میں اپنی عمر عزیز ضائع کرکے ہمیشہ کے لیے تباہ ہوجائے گا۔ لازم ہے کہ والدین ابتدا ہی سے ان کی کڑی نگرانی اور دیکھ بھال کرتے رہیں۔
حلال غذا کی ضرورت و اہمیت
ضروری ہے کہ بچے کی پرورش کرنے اسے دودھ پلانے والی عورت نیک خو، دیندار ہو، جو رزقِ حلال کھاتی ہو، کیونکہ جو دودھ رزقِ حرام سے پیدا ہوتا ہے، اس میں خیروبرکت نہیں ہوسکتی اور جب رزقِ حرام کے دودھ سے بچے کی پرورش ہوتی ہے تو لازماً اس کے مایہ ضمیر میں خباثت رچ بس جاتی ہے، جس کی وجہ سے اس کی طبیعت شیطانی کاموں کی طرف مائل ہوجاتی ہے۔
جب بچہ میں نیکی و بدی کی تمیز کا شعور محسوس ہو تو اس کی کامل نگہداشت شروع کردیں اور اس کا اندازہ حیا کی ابتدائی علامات کے ظہور سے ہوتا ہے۔ کیونکہ جب وہ اپنی عزت و شرف کو محسوس کرکے شرمانے لگتا ہے۔ اور حیا کی وجہ سے بعض کاموں کو چھوڑنے لگتا ہے تو یہ صرف اس کی عقل ہی کی ضیاء اور روشنی کا نتیجہ ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ وہ بعض کاموں کو برا اور دوسرے کاموں کے خلاف سمجھ کر ایسے بعض کاموں سے شرماتا ہے اور ان دوسرے بعض کاموں سے شرم محسوس نہیں کرتا اور یہی حیا کا احساس ہے، جو اس پر اللہ تعالیٰ کا احسان ہے۔ اسی سلسلہ میںنبی اکرم ﷺ کا یہ ارشاد ہمارے لیے مشعلِ راہ ہے:
الحیاء من الایمان۔ (کنزالاعمال، عن ابی عمرؓ)
’’حیا ایمان کی ایک شاخ ہے۔‘‘
اور دوسری جگہ ارشاد ہے:
اذا لم تستحی فاصنع ما شئت۔
’’جب تم کو شرم نہ رہے تو جو چاہے کرو۔‘‘
حیا ایک ایسی بیّن علامت ہے جواس کے اعتدال اخلاق اور دل کی صفائی پر دلالت کرتی ہے۔ بلکہ یوں سمجھنا چاہیے کہ یہ بھلائی برائی کا احساس پیدا کرنے والا شعور قدرت کی طرف سے اس امر کی بشارت ہے کہ وہ بچہ بالغ ہوکر کامل عقل والا ہوگا۔ اس لیے حیادار بچے کو ہرگز آوارہ نہیں چھوڑنا چاہیے، بلکہ اس کی حیاء و تمیز سے مدد لیتے ہوئے اس کی خوب تربیت کرنی چاہیے۔
آداب و اخلاق
سب سے پہلے جو بڑی خواہش بچے پر غلبہ کرتی ہے، وہ زیادہ کھانے کی حرص ہے۔ اس لیے اس کو کھانا کھانے کے آداب سکھانا نہایت ضروری ہے۔ مثلاً یہ کہ وہ کھانا صرف داہنے ہاتھ سے کھائے۔ شروع میں بسم اللہ ضرور پڑھے۔ اپنے سامنے ہی سے کھائے۔ دوسروں سے پہلے کھانے کی طرف ہاتھ نہ بڑھائے۔ کھانے کی طرف دیکھنے ہی نہ لگ جائے اور نہ ہی کسی کھانے والے پر نظر جمائے۔ کھانے میں حد سے زیادہ جلدی بھی نہ کرے، اچھی طرح چبا کر کھائے۔ لگاتار لقمے منہ میں نہ ڈالے۔ سالن وغیرہ سے ہاتھ اور کپڑے خراب نہ کرے۔ بعض اوقات بچے کو خشک روٹی بھی کھلائی جائے۔ تاکہ وہ سالن کو اس قدر ضروری نہ سمجھے کہ اس کے بغیر گزارہ ہی نہ کرسکے۔ ان سب ہدایات کو سمجھنے کے لیے حضور نبی اکرم ﷺ کے ان بنیادی اصولوں کو ہمیشہ پیش نظر رکھے، آپ نے فرمایا:
نحن قوم لا ناکل حتی نجوع و اذا اکلنا فلا نشبع۔ (الحدیث)
’’ہم ایسی قوم ہیں کہ جب تک بھوک نہ لگے نہیں کھاتے اور جب کھاتے ہیں تو پیٹ بھر کر نہیں کھاتے۔‘‘
المعدۃ بنت الداء والحمیۃ رأس کل دواء واصل کل داء البردۃ۔ (الحدیث)
’’معدہ امراض کا گھر ہے اور پرہیز تمام دواؤں کی اصل ہے اور ہر مرض کی جڑ غذا پر غذا استعمال کرنا ہے۔‘‘
سم اللّٰہ وکل بیمینک وکل مما یلیک۔ (بخاری، مسلم)
’’جب کھانا کھانے لگو تو بسم اللہ پڑھو اور دائیں ہاتھ سے کھاؤ اور اپنے آگے سے کھاؤ۔‘‘
اسی طرح بچے کے سامنے زیادہ کھانے کی برائی بیان کی جائے اور زیادہ کھانے والے بچوں کی مذمت اور کم کھانے والے تربیت یافتہ بچوں کی تعریف کی جائے۔ اسے کھانے میں ایثار کرنے، یعنی اپنے ساتھیوں کی ضرورت کا خیال رکھنے کی طرف پوری توجہ دلائی جائے۔ کھانے کی کم پرواہ کرنے اور ہر قسم کے سادہ کھانوں پر قناعت کرنے کا خوگر بنایا جائے۔
آج کل والدین ایک ایسی فاش غلطی کا ارتکاب کرتے ہیں کہ بچوں کو بازار ہی میں ناشتہ کرنے یا دیگر چاٹ وغیرہ کے لیے نقد پیسے دے دیتے ہیں۔ جن سے بچے دوسروں کی دیکھا دیکھی نہ صرف مضرِ صحت اشیا کھاتے ہیں، بلکہ انھی پیسوں سے بچا کھچا کر سنیما بینی اور دوسری برائیوں میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ اس لیے والدین کا فرض ہے کہ وہ اپنی حیثیت کے مطابق جو کچھ بھی بچوں کو کھلانا ہو گھر پر لاکر کھلائیں۔ ورنہ جس قدر بچہ کی دلچسپی بازار سے بڑھتی جائے گی وہ اسی قدر گھر کی زندگی سے بے نیاز ہوتا جائے گا۔ اور اس طرح رفتہ رفتہ اس کے اخلاق و اعمال میں نہایت فتور اور خرابی پیدا ہوکر رہے گی۔
——