تربیت صحیحہ:وسائل – و ذرائع

پروفیسر عطیہ محمد الابراشی ترجمہ: رئیس احمد جعفری

موجودہ زمانہ میں ترقی یافتہ قومیں تعلیم و تربیت کو اتنی اہمیت دیتی ہیں کہ تاریخ عالم کے کسی دور میں اس کی مثال نہیں ملتی، وقت کے اہم ترین مسائل میں سب سے زیادہ اہم مسئلہ یہی ہے کہ صرف اسی مقصد کے حصول پر، ملک و قوم کی فارغ البالی اور ترقی منحصر ہے۔ آج کے بچے کل قوم بنیں گے، اور ضرورت ہے کہ انھیں پائندہ تر اور مضبوط تر بنانے کے لیے، ان کی تربیت کا زیادہ سے زیادہ اہتمام کیا جائے، کوئی بھی لیڈر اور راہنما، اس مسئلہ سے غفلت نہیں کرسکتا، بشرطیکہ وہ اخلاص کے ساتھ اپنی قوم اور ملت کو سربلند کرنا چاہتا ہو، ترقی یافتہ اور اونچی قوموں کا ہر فرد، اس احساس سے بھر پور ہے، باپ کو یہ فکر ہوتی ہے کہ بیٹی کو زیادہ سے زیادہ جوہر تربیت سے نوازے، معلم یہ چاہتا ہے کہ متعلم خوب سے خوب تر ہوجائے، ماں کی یہ تمنا ہوتی ہے کہ اس کا بیٹا یا بیٹی، زیور علم و تربیت سے محر وم نہ رہنے پائے، اور یہ لوگ ہر امکانی ذریعہ،اور وسیلہ اختیار کرکے اس مقصد کو حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ ہر شخص مدرسہ اور تعلیم کے بارے میں فکر مند ہے۔ اس مسئلہ پر بحث کرنے سے کوئی بھی نہیں چوکے گا، معلمین خاص طور پر اس فکر کے شکار ہیں، تعلیم و تربیت کے اصول، طرز اور طریقے میں تو اختلاف ہوسکتا ہے، لیکن نفس تربیت و تعلیم کے بارے میں ہرگز کوئی اختلاف نہیں ہے، اس لیے کہ اطفال کی تربیت ، دوسرے لفظوں میں پوری قوم کی تربیت ہے۔
وسائل تربیت
وسائل تربیت میں باپ اور مدرس کا عمل ہی کام نہیں کرتا بلکہ اور بھی بہت سی چیزیں ہیں جو ذہن و دماغ اور اخلاق و کردار پر اثر انداز ہوتی ہیں، جو ان کے حدودِ اختیار سے باہر ہیں۔ مثلاً موثرات طبیعہ، یہ موثرات طبیعت پر بہت زیادہ اثر انداز ہوتے ہیں۔
روسو کا قول ہے کہ انسان اپنے آباء و اجداد سے جو کچھ وراثتاً حاصل کرتا ہے، علم ، تجربہ، اور اطلاع سے جو کچھ پاتا ہے، اپنے عمل کے دوران میں جو کچھ محسوس کرتا ہے، ممالک غیر کا سفر کرکے جو کچھ دیکھتا ہے، پاتا، جانتا اور سیکھتا ہے، اپنی ذات کے علاوہ دوسرے لوگوں، خاص کر دوستوں، اور رفیقوں کے ساتھ رہ کر، مل کر حاصل کرتا ہے۔ عادت، نظم و ضبط اور قوانین کے مطالعہ سے جو کچھ سیکھتا ہے، جماعتوں اور گروہوں کے ساتھ اشتراک و تعاون کرکے جو کچھ دیکھتا، اور پاتا ہے، یہ سب تربیت نفس اور تربیت ذات کے بہترین وسائل ہیں۔ انسان کی سیرت اور کردار پر ان کا غیر معمولی اثر پڑتا ہے۔ اور تربیت کا جو مقصد ہے وہ بڑی حد تک ان مشاہدات سے حاصل ہوجاتا ہے۔
تربیت کے بہت سے وسائل و ذرائع ہیں لیکن ان سے انسان یک بیک دوچار نہیں ہوتا، رفتہ رفتہ عمر اور وقت کے مختلف مرحلوں میں دوچار ہوتا ہے اور فائدہ اٹھاتا ہے، یہاں تک کہ وہ درجۂ کمال تک پہنچ جاتا ہے۔
فروبل کا قول ہے کہ تربیت صحیحہ، انسان کی رہنمائی کرتی ہے، اسے صحیح راستہ دکھاتی ہے، اسے معرفت نفس کا درس دیتی ہے، اسے تقدیر طبیعی سے آشنا کرتی ہے، اللہ کی وحدت پر اس کا اعتقاد مستحکم کرتی ہے اور انسان کو اونچے درجہ تک پہنچادیتی ہے۔
تربیت اور زندگی
تربیت کی وہی حیثیت ہے جو خود انسان کی زندگی کی ہے، تربیت کا کام، بچہ کی ولادت کے وقت سے شروع ہوجاتا ہے، بلکہ ولادت سے پہلے ہی تربیت کے عوامل کام کرنے لگتے ہیں اور ولادت کے قبل ہی بچہ پر ہر لمحہ، تربیت کا فلسفہ، بچہ کی نشو ونما، اخلاق وعادات اور سیرت و کردار پر اثر انداز ہوتا رہتا ہے، بچہ کا دماغ اور اعضاء، اور قویٰ، یہ سب چیزیں اسے اپنے آباء و اجداد سے ورثہ میں ملتی ہیں۔ اور تربیت دینے والا پھر انھیں سنوارتا اور نکھارتا ہے۔ اس کی مثال بالکل طبیب کی سی ہے، طبیب کسی کو زندگی بخش نہیں سکتا، کسی کی زندگی بڑھا نہیں سکتا۔ (غلط طبیب زندگی کو کم، اور ختم ضرور کرسکتا ہے۔ لیکن وہ ایسا گُر ضرور بتاسکتا ہے اور ایسا علاج ضرور کرسکتا ہے جس سے طبیعت بیمار نہ ہو، اور بیماری کا اثر نہ قبول کرلے۔ انسان صحت مند اور توانا رہے، ماں یہ تو چاہتی ہے کہ خانگی مصروفیات کے باوجود بچہ کی تعلیم پر زیادہ سے زیادہ وقت صرف کرے، لیکن وہ یاد نہیں رکھتی کہ بچہ کے ساتھ اس کا رکھ رکھاؤ، محبت، شفقت، پیار، غصہ، نفرت، چومنا، چاٹنا، مارنا ، پیٹنا ان سب چیزوں کا براہِ راست لیکن بالکل غیر شعوری طور پر بچہ کی تربیت پر اثر پڑتاہے، وہ تربیت جو بچہ ماں کی گود میں حاصل کرتا ہے بچہ کی ساخت اور پرورش، تقویم اور تہذیب بن جاتی ہے، اور اس سے وہ صحت حاصل کرتا ہے۔ مسرت حاصل کرتا ہے، اور درجۂ کمال تک پہنچتا ہے۔
——

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں