تیرہ سال کے نصیر اور گیارہ سال کے منور کا شمار اسکول کے بہترین لڑکوں میں ہوتا تھا۔ یہ دونوں بھائی ہمیشہ امتحانوں میں اول رہتے۔وہ اپنے ہم جماعتوں کے مسلّمہ قائد تھے لیکن ان کے چھوٹے بھائی انور کا حال بالکل مختلف تھا۔ چوتھی جماعت تک اس کے امتحانوں کی روداد سے ظاہر ہوتا تھا کہ اس کی قابلیت معمولی سی ہے اور بہ مشکل اسے اوسط درجے کا طالب علم سمجھا جاسکتا ہے۔ چوتھی جماعت کے استاد نے انور کے متعلق اپنے مشاہدات کو اس کی رپورٹ میں یوں قلمبند کیا’’انور کو کسی کام میں تعاون پر آمادہ نہیں کیا جاسکتا۔ میں نے بہت کوشش کی کہ وہ دوسرے لڑکوں سے گھل مل جائے، لیکن میری کوئی تدبیر کارگر ثابت نہیں ہوئی۔‘‘
لیکن چوتھی جماعت کے استاد نے اپنا مشاہدہ تحریر کرتے وقت ا سکے سابقہ استادوں کے برتاؤ کو بالکل نظر انداز کردیا۔ اس نے دوسری جماعت کے استاد کے طنزیہ فقرے کسنے کا کہیں ذکر نہ کیا تھا۔ جب وہ فرش پر سیاہی گرادیتا یا کاغذوں پر سیاہی کے دھبے لگادیتا۔ یا کتابوں کے ورق موڑ دیتا تو استاد انور کو ایسی جلی کٹا سناتا کہ غصہ سے اس کا چہرہ تمتما جاتا اور بے چارہ ندامت اور غصے کے آنسوؤں کو پی کر رہ جاتا۔
اتفاق سے چوتھی جماعت کے استاد احمد صاحب کو خاموش اور عزلت پسند بچوں کے مسائل سے گہری دلچسپی تھی۔ ان کا طرزِ عمل دوسرے استادوں سے بالکل مختلف تھا۔ انھوں نے انور کے خلجان کا پسِ منظر معلوم کرنے کے لیے اس کے پرانے استادوں سے بات چیت کی۔ اس کے امتحانوں اور کھیلوں کے نتائج کا بغور مطالعہ کیا اور اس کی رپورٹوں کا تجزیہ کیا۔ پھر انھوں نے انور کی گھریلو زندگی کے حالات معلوم کیے اور ہیڈ ماسٹر کے مشورہ سے انور کے والدین کو ملاقات کے لیے بلوایا۔
احمد صاحب فوراً سمجھ گئے کہ انور کے والدین اپنے بڑے لڑکوں پر بہت نازاں ہیں اور چھوٹے لڑکے کو درخورِ اعتنا نہیں سمجھتے۔ انور کے والد نے باتوں باتوں میں کہا: ’’سمجھ میں نہیںآتا، انور کیوں اتنا ناکارہ ہے۔‘‘ والدین نے انور کی مشکلات سمجھنے کی کبھی کوشش نہ کی تھی اور انہیں اس امر کا اندازہ نہ ہوا تھا کہ انور کو نصیر اور منور کے معیار پر پہنچنے کے لیے کس قدر محنت اور دقت کا سامنا ہے، انور سخت مقابلے کے احساس تلے دبا جارہا تھا اور ستم تو یہ کہ اسے والدین سے بھی ہمدردی اور حوصلہ افزائی کی توقع نہ رہی تھی۔ احمد صاحب فوراً معاملے کی تہ تک پہنچ گئے کہ انور غبی اور کند ذہن نہیں بلکہ احساسِ کمتری میں مبتلا ہے کہ میں اپنے بھائیوں کی ہمسری نہیں کرسکتا۔ اس لیے اس نے کوشش کرنا ہی چھوڑ دیا تھا۔
اعتماد کی کرشمہ سازی:
احمد صاحب نے ایک تجربہ شروع کیا۔ وہ انور سے یوں برتاؤ کرنے لگے جیسے انور اور دوسرے لڑکوں میں کوئی فرق نہیں۔ وہ انور کو بھی دوسرے لڑکوں کی طرح لائق اور قابل سمجھتے۔ اگر انور کسی چیز میں ناکام رہتا تو وہ اسے نہ جھڑکتے اور نہ لڑکوں کے رو برو ذلیل کرتے۔ وہ اس کے اچھے کام کی مناسب تعریف کرکے اس کی حوصلہ افزائی کرتے رہے، انھوں نے انور کو فٹ بال ٹیم میں شامل کیا تو اس نے پہلے تو انکار کیا لیکن بعد میں رضا مند ہوگیا۔ روزانہ احمد صاحب فٹ بال کے کھیل میں شامل ہوتے اور انور کی حوصلہ افزائی کرتے ، رفتہ رفتہ انور کی جھجک اور گھبراہٹ دور ہوگئی اور وہ اپنے کام میں دلچسپی کا اظہار کرنے لگا۔ وہ احمد صاحب سے اپنے کام کے متعلق سوالات پوچھنے لگا۔ رفتہ رفتہ اسے اتنی جرأت ہوگئی کہ احمد صاحب کام میں مصروف ہوتے تو بھی وہ اپنے سوال لے کر ان کے پاس پہنچ جاتا۔ وہ اس کی مداخلت پر تحمل سے کام لیتے اور گھبرانے کے بجائے اسے بیٹھنے کا اشارہ کردیتے۔ اپنے کام سے جلد فارغ ہوکر وہ انور کے سوال کو بغور سنتے اور مشفقانہ طور پر اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر جواب دیتے۔ ان کی ہمدردی اور شفقت سے انور نے اپنی ذات پر بھروسہ کرنا سیکھ لیا اور خود بخود کام کرنے لگا۔
احمد صاحب نے انتہائی شفقت اور ہمدردی سے اس کی الجھن کو سمجھنے کی کوشش کی۔ انھوں نے اس کی سابقہ ناکامیوں کو نظر انداز کرتے ہوئے اس کی حوصلہ افزائی کی۔ انھوں نے انور کو خود اعتمادی بخش کر ایک نئی روح پھونک دی، واقعی یہ کام معجزے سے کم نہ تھا۔انور کی مثال سے ڈرامائی انداز میں واضح ہوجاتا ہے کہ کس طرح استاد بچوں کی رہنمائی کرکے ان کی قسمت بدل سکتے ہیں۔
مسائل گھر تک محدود نہیں رہتے
اب سوال یہ ہے کہ استاد بچوں کی کس قدر مدد کرسکتے ہیں اور انہیں کس طرح ان کی مدد کرنی چاہیے۔
بچے اپنی الجھنیں اور پریشانیاں گھر نہیں چھوڑ جاتے ذہنی خلجان ان کی زندگی کے ہر شعبے پر کارفرما ہوتا ہے اس سے بچے کے اسکول کا کام کرنے اور ہمجولیوں کے تعاون کی صلاحیت متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتی۔ وہ استاد جو اپنی گوناگوں مصروفیات کے باوجود بچوں کی اصلاح اور امداد کے لیے کمر بستہ رہتا ہے واقعی ملک و قوم کا ایک حقیقی خادم ہے۔ اگر والدین اپنے تعاون سے استاد کی مساعی کی تائید کریں تو استاد کا کام آسان اور بچے کا مستقبل خوشگوار بن سکتا ہے۔
والدین کو چاہیے کہ وہ بلا تکلف گھریلو حالات استاد سے بیان کردیں اور اپنے خانگی معاملات کے اظہار میں حجاب محسوس نہ کریں۔ مثلاً قدسیہ کی والدہ اسکول گئیں اور انھوں نے قدسیہ کی استانی سے کہا کہ مجھے ناک کا آپریشن کرانے کے لیے چند دن ہسپتال رہنا پڑے گا۔ آپ مہربانی کرکے قدسیہ کا خیال رکھیں کہ وہ پریشان نہ ہو۔ آنسہ صبیحہ نے سات سال کی قدسیہ کا خیال رکھا۔ وہ روزانہ بڑی ہمدردی سے اس کی امی کی خیریت پوچھتیں اور اسکول میں اسے کھیلوں میں بہلائے رکھتیں۔ قدسیہ کو گھر میں مصروف رکھنے کے لیے وہ اسے روزانہ مختلف پھولوں کے گلدستے بنانے یا رنگین کاغذوں کی تصویروں بناکر لانے کے لیے کہتیں۔
والدین کے علاوہ اساتذہ کے لیے بھی ضروری ہے کہ وہ بچوں کو علیحدہ شخصیت کا مالک سمجھیں اور ان کی خودی کا احترام کریں ۔ اسکول میں بھی بچے کو اپنے بھائیوں کا حریف اور مقابل سمجھنا خطرناک غلطی ہے۔
کاظم اور قاسم ایک ہی اسکول میں پڑھتے تھے۔ تیرہ سال کا کاظم بڑا ہونہار اور لائق طالب علم تھا۔ گیارہ سال کا قاسم معمولی سا لڑکا تھا۔ استاد قاسم سے ملتے تو وہ اس سے یوں مخاطب ہوتے:’’اوہ تم! کاظم کے بھائی ہو کیا تم بھی ویسے ہی لائق ہو؟‘‘ لیکن کاظم اور قاسم میںبڑا فرق تھا۔ کاظم ہمیشہ امتحان میں اول آتا اور وہ کھیلوں میں ممتاز تھا۔ قاسم کو ان چیزوں سے زیادہ دلچسپی نہ تھی اسے ٹکٹ اور تتلیاں جمع کرنے کا شوق تھا۔ اس کے ہنر کا جماعت کی سرگرمیوں میں استعمال ممکن نہ تھا۔ چنانچہ اسے کوئی درخورِ اعتنا نہ سمجھتا۔ اس تغافل اور تقابل کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ روز بروز ذہنی خلجان میں مبتلا ہوتا گیا۔ اسکول کے کام میں اس کی دلچسپی صفر رہ گئی۔ اسے سارا دن باغ میں گھومنے یا ٹکٹوں کا البم سنوارنے کا خبط سوار رہتا۔ اگر استاد ہر وقت کا ظم اور قاسم کا مقابلہ کرکے اس میں احساس کمتری کو پختہ نہ کردیتے تو یقینا قاسم کی صلاحیتیں بھی بطریقِ احسن فروغ پاسکتی تھیں۔
کوئی بھی استاد والدین جیسی بصیرت، ہمدردی اور جاں نثاری سے بچوں کی مدد نہیں کرسکتا۔ لیکن بعض اوقات والدین کو ابھرے ہوئے طوفان کی وہ خطرناک نشانیاں نظر نہیں آتیں جو استاد کی تجربہ کار آنکھ بھانپ لیتی ہے۔ اگر استاد آنے والے طوفانوں کی نشاندہی کا فرض اچھی طرح انجام دیں تو یہ بھی گرانقدر خدمت ہے۔ اگر استاد مشفقانہ بصیرت سے بچوں کے معاملات سے دلچسپی لیں اور والدین سے تعاون کریں تو ان کی مساعی سے گھر کے علاوہ اسکول میں بھی بچوں کے تعلقات خوشگوار ہوسکتے ہیں۔
——