’’زید میں نے تمہارے لیے آمنہ کا انتخاب کیا ہے۔ ‘‘
’’کیا …‘‘ زید ایک دم اچھلا جیسے اُسے کرنٹ لگا ہو۔’’ نہیں امی مجھے آمنہ سے شادی نہیں کرنی۔‘‘
’’کیوں نہیںکرنی کچھ وجہ تو بتاؤ؟‘‘ شبانہ نے بیٹے کو گھورتے ہوئے کہا۔ ’’کیا کمی ہے اُس میں! سگھڑ، بااخلاق، خوبصورت،خوب سیرت، تعلیم یافتہ لڑکی ہے۔‘‘
’’امی آپ کی بات سو فیصد درست ہے۔ بے شک وہ ایسی ہی ہے۔‘‘
’’ لیکن … لیکن ویکن کیا‘‘
’’امی آپ ماہم کے بارے میں کیوں نہیں سوچتیں۔‘‘
’’کیا… ماہم… اچھا یہ بات ہے۔‘‘ شبانہ کچھ لمحے توقف کے بعد گویا ہوئیں ’’بیٹا زندگی کے فیصلے بہت مشکل ہوتے ہیں۔ سوچ سمجھ کر کرتے ہیں۔‘‘
’’امی میں نے بہت سوچ سمجھ کر فیصلہ کیا ہے۔ بس آپ پھپھو سے ماہم کے لیے بات کریں۔‘‘
شبانہ سوچ میں پڑگئی۔ وہ جانتی تھی۔ زید بچپن ہی سے ضدی طبیعت کا مالک تھا۔ جس بات پر اڑ جاتا ، جو چاہتا منوا کر دم لیتا۔ آمنہ اپنی بھانجی کو بچپن سے ہی پسند کرتی تھی، اور دل سے اسے اپنی بہو مان چکی تھی۔ لیکن زید… اُس کے آگے وہ بے بس تھی۔ اس نے جو فیصلہ کرلیا، سو کرلیا۔ اس کی نہ کو ہاں میں اور ہاں کو نہ میں کوئی نہیں بدل سکتا تھا۔
شبانہ برآمدے میں اپنی ساس کے پاس آکر بیٹھ گئی۔ وہی اُس کے ہر دکھ سکھ کی ساتھی تھیں۔ بہو کو گم صم دیکھ کر بولیں: ’’دلہن کیا بات ہے کچھ پریشان سی ہو؟‘‘
’’اماں زید آمنہ کے لیے راضی نہیں، وہ ماہم کے لیے ضد کررہا ہے۔ اب کیا کیا جائے، وہ تو اپنی منوا کر چھوڑے گا۔‘‘
’’ دلہن برا نہ ماننا ، اس کو بگاڑا بھی تم میاں بیوی نے ہی ہے۔ اس کی ہر جائز و ناجائز مانی، اکلوتا کہہ کہہ کر سر پر چڑھا لیا۔ اب وہ کسی دوسرے کی سنتا ہی نہیں۔ جو خواہش اُس نے کی، تم نے جھٹ پوری کردی۔ بچپن کی عادتیں اب پختہ ہوچکی ہیں، اب پچھتاوے سے کیا حاصل۔‘‘
اماں کی باتیں وہ چپ چاپ سنتی رہی اور دل میں سوچتح رہی کہ وہ ٹھیک ہی تو کہہ رہی ہیں۔ ہر خواہش پوری کرنے والی تھوڑی ہوتی ہے۔ بے جا لاڈ و پیار نے اسے ضدی اور سرکش بنادیا ہے۔ شبانہ نے زید کو منانے کی ایک اور کوشش کی۔ پروہ حسبِ معمول کچھ سننے کو تیار نہ ہوا اور اپنا دوٹوک فیصلہ سناتے ہوئے بولا: ’’امی شادی کروں گا تو ماہم سے ورنہ نہیں۔‘‘ بیٹے کے آگے وہ ہمیشہ ہار جاتی تھی، سو اِس بار بھی ہار اسی کے حصے میں آئی۔ زید کے والد بھی بیٹے کی طرف داری کرتے ہوئے اپنی بیگم کو سمجھانے لگے۔ ’’شبانہ دل چھوٹا نہ کرو، ماہم بھی بہت اچھی بچی ہے۔ زید کے ساتھ بہت سوٹ کرے گی۔ ماننا تو ہے۔ لہٰذا خوشی خوشی مان لو اپنے اکلوتے جگر گوشے کی بات۔‘‘
سو زید کے لیے ماہم کو مانگ لیا گیا۔ بات پکی ہوئی، دو ماہ بعد شادی طے ہوگئی۔ دادی کی دیرینہ خواہش تھی کہ شادی سادگی سے ہو۔ پر گھر میں اس بات سے کوئی بھی متفق نہ تھا۔ زید دادی کو مناتے ہوئے بولا: ’’دادی ایک ہی تو شادی کرنی ہے۔ وہ بھی سادگی سے… شادی تو دھوم دھام سے ہونی چاہیے۔‘‘ والد بھی بیٹے کی ہاں میں ہاں ملاتے رہے۔ بقول شبانہ میرا ایک ہی تو بیٹا ہے۔ اپنا ہر ارمان پورا کروں گی۔ ایسی شادی کروں گی کہ لوگ بھولنا چاہیں گے تو بھی نہ بھول پائیں گے۔
شادی کی تیاریاں شروع ہوئیں۔ روپیہ پانی کی طرح بہایا جارہا تھا۔ دادی گاہے بگاہے سمجھاتیں ’’تم لوگ اللہ کو ناراض کررہے ہو۔ سادگی سے کی ہوئی شادی باعثِ برکت ہوتی ہے۔‘‘ پر ان کی سنتا ہی کون تھا۔
زید دادی کے گلے میں باہیں ڈال کر کہتا: ’’دادی جی فکر نہ کریں۔ شادی ہولینے دیں۔ اس کے بعد سب سے پہلا کام اللہ کو راضی کرنا ہوگا۔ میں اللہ کو منالوں گا۔‘‘
جیسے جیسے شادی کے دن قریب آرہے تھے۔ تیاریاں زور پکڑتی جارہی تھیں۔ نازیہ اور فائزہ دونوں بہنیں بھی شادی سے پندرہ دن قبل پہنچ گئیں۔ دونوں کی آمد سے گھر کی رونق دوبالا ہوگئی۔
شادی کے معاملات زیرِ بحث تھے کہ زید آدھمکا: ’’پاپا مجھے نئی گاڑی لینی ہے۔‘‘
’’وہ کیوں بیٹا، تمہارے پاس تو بڑی شاندار گاڑی ہے۔ تین سال قبل ہی تو لی تھی۔‘‘
’’پاپا کیا میں اُس گاڑی میں ہنی مون پر جاؤں گا؟ مجھے ہونڈا سٹی لینی ہے۔‘‘
شبانہ اسے گھورتے ہوئے بولیں: ’’ہوش میں ہو زید، کچھ اندازہ ہے شادی پر کتنا پیسہ لگ رہا ہے۔ ساڑھے تین لاکھ کا تو صرف زیور بنا ہے۔ اس کے علاوہ کپڑے وغیرہ۔ ولیمے کا کھانا، مہمانداری پورے آٹھ لاکھ کا نسخہ ہے۔ اب تم بنا سوچے سمجھے گاڑی کی فرمائش کررہے ہو۔‘‘ شبانہ کے چہرے پر غصے اور ناگواری کے سائے لہرانے لگے۔ وہ قدرے اپنا لہجہ ہموار کرتے ہوئے بولیں:’’ ایسا ہرگز ممکن نہیں…‘‘
’’امی بس یہ خواہش پوری کردیں۔ اس کے بعد کچھ نہیں کہوں گا۔‘‘
’’دل کی بے جا خواہشات ہی دل کا روگ بن جاتی ہیں۔ ان کی روک تھام ضروری ہے۔‘‘
زید مسکراتے ہوئے بولا: ’’امی ان خواہشات کی ر وک تھام کے لیے آپ کونسی دوا تجویز کرتی ہیں۔‘‘
’’صبر و قناعت…‘‘
’’اگر آپ کے پاس گنجائش نہیں تو میں گاڑی لیز پر لے لوں گا۔‘‘ زید اپنا حتمی فیصلہ سناتے ہوئے باہر چلا گیا اور نئی گاڑی لے کر ہی دم لیا۔
شادی سے ایک ہفتہ قبل کوٹھی دلہن کی مانند سجا دی گئی۔ خوبصورتی اور مہارت سے کی گئی لائٹنگ سے ہر چیز جگمگارہی تھی۔ جگہ جگہ جلتی بجھتی رنگین بتیاں، ماحول کو دلکش اور حسین بنا رہی تھیں۔ گھر کے اندر باہر ہل چل مچی ہوئی تھی۔ خواتین کی تیاریاں عروج پر تھیں۔ زرق برق لباس، شور شرابہ، قہقہے سب لوگ مسرور تھے۔ دوست بھنگڑا ڈال کر حق دوستی نبھا رہے تھے۔ لو شادی کا دن بھی آہی گیا۔ زید دولہا بن کر آیا تو ماں بہنیں واری صدقے، سارے شگن پورے ہوئے۔ چاروں طرف روشنیاں ہی روشنیاں ، پٹاخے، پھلجھڑیاں زبردست آتش بازی کے ساتھ بارات روانہ ہوئی۔ دلہن والوں نے زبردست خیر مقدم کیا۔ نکاح کے بعد زید کو ماہم کے ساتھ بٹھایا گیا۔ زید تو ماہم کو دیکھ کر آنکھیں جھپکانا ہی بھول گیا کیونکہ ایک عام سی لڑکی کو بیوٹی پارلر کی شبانہ روز محنت اور جدوجہد نے ملکہ حسن بنادیا تھا۔
تمام رسوم کی ادائیگی ہوئی۔ ایک ایک لمحے کو کیمرے کے ذریعے محفوظ کرلیا گیا۔ دادی ہر لمحے اللہ سے بچوں کی خوشیوں کو قائم و دائم رکھنے کی دعائیں مانگتی رہیں۔ خیر سے رخصتی ہوئی۔ دوسرے دن صبح ہی سے ولیمے کی تیاریاں شروع ہوگئیں۔ سب کو فکرِ عظیم یہ تھی کہ کہیں کوئی کمی نہ رہ جائے۔ ولیمے کا فنکشن دوپہر کو رکھا گیا۔ تاکہ دور سے آنے والے آسانی سے شام تک اپنی اپنی منزل کی طرف روانہ ہوسکیں۔ یہ تقریب روایتی دھوم دھام اور شان و شوکت سے منعقد ہوئی۔ وہ دونوں شاہانہ ملبوسات زیب تین کیے چاند سورج کی جوڑی دکھائی دے رہے تھے۔ چہروں پر اطمینان و مسرت کی جھلک تھی۔
ولیمے سے فراغت کے بعد سب شام پانچ بجے تھکے ماندے گھر پہنچے۔ گرما گرم چائے کا دور چلا۔ دلہن کو اپنے کمرے میں پہنچایاگیا۔ تاکہ کچھ آرام کرلے ابھی ماہم زیورات اتار کر لباس تبدیل کرکے فارغ ہوئی ہی تھی کہ زید کمرے میں داخل ہوا، اور آتے ہی حکم صادر کردیا: ’’ماہم پیکنگ کرلو، ہماری علی الصبح شملہ کے لیے روانگی ہے۔ میں نے ریسٹ ہاؤس بک کرالیا ہے۔‘‘
ماہم سوالیہ نظروں سے اُسے دیکھنے لگی۔ کچھ کہنا چاہ رہی تھی پر کہہ نہ سکی۔
تیاری کا حکم دے کر زید دوسرے کمرے میں آگیا۔ جہاں سب بیٹھے خوش گپیوں میں مصروف تھے۔ بہنوں کے درمیان بیٹھتے ہوئے گویا ہوا: ’’سامعین ناظرین توجہ فرمائیے۔‘‘
’’نازیہ بولی جی ارشاد۔‘‘
’’میری اور ماہم کی صبح شملہ کے لیے روانگی ہے۔‘‘
’’کیا…‘‘ سب کے منہ کھلے کے کھلے رہ گئے۔ شبانہ بولیں: ’’کیا حماقت ہے زید۔ ناسمجھی کی باتیں نہ کیا کرو۔ گھر مہمانوں سے بھرا ہوا ہے، اور تم جانے کی بات کررہے ہو۔ تین چار دن بعد جانے کا پروگرام بنانا۔‘‘ نازیہ، فائزہ بھی احتجاج کرنے لگیں۔ ’’نہیں زید ابھی نہیں جانا ۔ ہمارے جانے کے بعد جانا۔ ہمیں ماہم کے ساتھ کچھ وقت گزارنے دو۔ پھر تو پتہ نہیں کب آنا ہو۔‘‘
زید نے سب کی بات اَن سنی کرتے ہوئے کہا: ’’میں نے ریسٹ ہاؤس میں کمرہ بک کرالیا ہے۔ صرف تین دن کی تو بات ہے، اور تین دن تو چٹکی بجاتے گزرجاتے ہیں۔‘‘
’’زید کبھی کسی کی مان بھی لیا کرو۔‘‘ شبانہ کے چہرے پر گہری سنجیدگی چھائی ہوئی تھی۔
’’امی ماننے کے لیے تو ساری زندگی پڑی ہے۔‘‘
والد بھی برہم ہوتے ہوئے بوجھل لہجے میں بولے: ’’زید ہر وقت اپنی مت چلایا کرو۔ تمہاری امی درست کہہ رہی ہیں۔ یہ جانے کا وقت نہیں…‘‘
’’ابو آپ نے بھی پارٹی بدل لی۔‘‘ اور ماں کی طرف کن انکھیوں سے دیکھتے ہوئے بولا: ’’قائد حزبِ اختلاف کے ساتھ مل گئے ہیں۔ ابو صرف تین دن کی تو بات ہے۔‘‘
’’تم مانوگے تو نہیں۔ سمجھانا ہمارا کام ہے۔ اب آگے تمہاری مرضی۔‘‘
امی بھی ناراض ہوگئیں، بہنیں بھی خاموش… ماہم نہ چاہتے ہوئے بھی پیکنگ کرنے لگی۔ گھر کا خوشگوار ماحول ایک دم افسردہ ہوگیا۔
صبح ناشتے سے فراغت کے بعد ماں کو مناتے ہوئے بولا: ’’امی خوشی خوشی رخصت کردیں نا… آپ کی ناراضگی میں مول نہیں لے سکتا۔‘‘
زید کا دل رکھنے کے لیے شبانہ زبردستی مسکرادیں۔ ’’جاؤ بیٹے خوش رہو۔‘‘ ماہم کو پیار کیا۔ دونوں کے سر پر ہاتھ پھیرے اور دعاؤں کے ساتھ رخصت کیا۔
رکتے رکاتے شام ڈھلے منزل پر پہنچے دونوں تھکن سے چور بستر پر دراز ہوگئے۔ فجر کی اذان پرآنکھ کھلی تو زید بولا: ’’ماہم جلدی اٹھو۔ پہاڑوں کی اوٹ سے سورج کے طلوع ہونے کا منظر باہر چل کر دیکھتے ہیں۔‘‘ باہر آئے تو ہوا کی ہلکی ہلکی سرسراہٹ، پرندوں کی چہچہاہٹ، آبشار کی نغمگی، ایک حسین اور دلکش منظر اُن کا استقبال کررہا تھا۔ سورج کے طلوع ہونے کا منظر قابلِ دید تھا۔ سورج کی ننھی ننھی کرنیں جب پتوں پر ٹھہری ہوئی شبنم پر پڑیں تو پتے چمک اٹھے۔ ہوا اُس کے آنچل سے کھیلنے لگی۔ اُس کی سنہری زلفیں اس کے رخساروں پر مستی میں جھومنے لگیں۔
خوشی زید کی آنکھوں سے چھلکی پڑ رہی تھی۔ اس کی ساری چاہتوں کی تکمیل جو ہوگئی تھی۔ وقتی گھمنڈ نے اس کے دل میں انگڑائی لی، اور وہ ماہم سے کہنے لگا: ’’ماہم میں جو چاہتا ہوں حاصل کرلیتا ہوں۔ میری ہر خواہش پوری ہوتی ہے۔ جیت میرا مقصد ہے۔ ہر لمحے کامیابی میرے قدم چومتی ہے۔ میں کتنا خوش قسمت ہوں۔ ہے ناماہم…‘‘
’’زید ایسا نہ کہیں آپ کی باتوں سے تکبر ٹپک رہا ہے۔ مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے۔‘‘
’’ڈر کیسا ارے یہ شیر ببر ہے نہ تمہارے ساتھ۔‘‘ زید نے اپنا سینہ ٹھونکتے ہوئے کہا۔
’’تم کھوئی کھوئی سی کیوں ہو؟‘‘
’’اتنی رونق سے ویرانے میں آنا اور سب کو ناراض کرکے آنا مجھے بالکل اچھا نہیں لگا۔ آپ کو سب کی بات ماننی چاہیے تھی۔‘‘
’’شاید تم ٹھیک کہہ رہی ہو۔ بس میں اپنی عادت سے مجبور ہوں۔ جو بات دماغ میں آجائے، وہ کر گزرتا ہوں۔ چاہے کسی کو اچھی لگے یا بری۔ اب تمہاری صحبت میں رہ کر آہستہ آہستہ ہی ٹھیک ہوں گا نہ استانی جی۔‘‘ یہ جملہ اس نے اس انداز سے کہا کہ ماہم بھی مسکرائے بنا نہ رہ سکی۔
شبانہ سے فون پر مسلسل رابطہ قائم تھا۔ وہ ہر بار فون پر زید کو خوب نصیحتیں کرتیں۔ دیکھو بیٹا گاڑی تیز نہ چلانا، ویران جگہوں پر ہرگز نہ جانا، اور زید جی جی کرتا رہتا۔ تیسرے دن دوپہر کو ہلکی ہلکی بارش شروع ہوگئی زید ماہم کو کمرے سے برآمدے میں لے آیا۔ بادلوں کی ہلکی ہلکی گڑگڑاہٹ اور ننھی ننھی بوندوں کی گدگداہٹیں، ٹھنڈی ہواؤں کے جھونکے ان کو سرشار کرگئے ایک دم نہ جانے زید کو کیا ہوا ماہم سے کہنے لگا: ’’چلو گھر چلتے ہیں۔‘‘
ہولے ہولے بارش تیز ہونے لگی۔ ماہم کہنے لگی :’’ہمیں تو صبح جانا تھا بارش میں سفر ٹھیک نہیں۔‘‘
’’ارے یہی توموسم ہے۔ سفر کا ہنستے، گاتے، جھومتے گھر پہنچ جائیں گے بس تم تیاری کرو۔ تھوڑی دیر میں یقینا بارش بھی تھم جائے گی۔‘‘
’’زید پھر وہی ضد۔ ٹھہریں میں امی کو فون کرتی ہوں۔‘‘ ماہم نے جھٹ فون ملادیا۔ ’’امی بارش ہورہی ہے۔ اس وقت ہم بہت اونچائی پر ہیں اور یہ واپسی کا کہہ رہے ہیں۔‘‘
’’نہیں نہیں… بارش تو یہاں بھی ہورہی ہے ابھی اپنا سفر ہرگز شروع نہ کرنا۔‘‘ زید کو ہر طرح سے روکنے کی کوشش کی، شبانہ نے اپنے اندیشوں اور تفکرات کو دل سے پرے دھکیلتے ہوئے اسے بہت سمجھایا۔ بارش رک بھی جائے تو پھسلن باقی رہتی ہے۔
’’امی آپ فکر نہ کریں۔ ہم چٹکی بجاتے چندی گڑھ پہنچ جائیں گے۔ آپ وہم نہ کیا کریں۔ کچھ نہیںہوتا۔ ابھی تو مجھے بہت جینا ہے…‘‘
ماہم نے آخری حد تک زید کو روکنے کی کوشش کی پر وہ نہ مانا۔ سفر شروع ہوا۔ وہ جذب و کیف کے عالم میں ڈوب کر گنگنانے لگا۔ پھر ماہم کی طرف دیکھ کر بولا:’’لگ رہا ہے۔ میرا گنگنانا تمہیں کچھ اچھا نہیں لگ رہا۔ چلو ایسا کرتے ہیں۔ گانوں کی اچھی سی کیسٹ لگاتے ہیں۔‘‘
’’نہیں نہیں…‘‘ ماہم نے اسے روک دیا۔
’’یہ تمہاری ہوائیاں کیوں اڑی ہوئی ہیں۔ کیا پڑھتی جارہی ہو۔ ملانی جی…‘‘ اس کی شفاف گہری سیاہ آنکھوں میں عجب حزن و ملال اور خوف کی جھلک دیکھ کر وہ خود بھی خاموش ہوگیا۔
’’آہستہ چلائیں گاڑی وہ ایک دم چیخی…‘‘
’’ماہم گاڑی پھسل رہی ہے۔ شاید بریکس فیل ہوگئی ہیں۔‘‘
وہ گاڑی کو روکنے کی کوشش میں بے بس دکھائی دے رہا تھا۔ اُس نے آخری بار ماہم کی آنکھوں میں دیکھا۔ الوداعی مسکراہٹ کے ساتھ… گاڑی کھائی میں گرنے لگی تو ماہم کا ہاتھ تھام کر زور سے بولا: ’’کلمہ پڑھ لو…‘‘
گاڑی بیس فٹ گہری کھائی میں گرچکی تھی۔ سامنے پہاڑ پر کچھ گھر بنے ہوئے تھے۔ اُن لوگوں نے گاڑی کو گرتے ہوئے دیکھ لیاتھا۔ لپک کر پہاڑ سے اترے۔ زید کے سر پر چوٹ لگی تھی وہ بے ہوش تھا۔ ماہم کراہ رہی تھی فون پر گھر والوں کو مطلع کیا گیا۔
یہ خبر سنتے ہی گھر والے توحواس باختہ اور سکتے کی کیفیت میں آگئے دونوں کو ہسپتال پہنچایا۔ زید کوما میں چلا گیا۔ ماہم بے ہوش زخموں سے چور۔ دو دن ہسپتال رہنے کے بعد زید کچھ کہے سنے بغیر خالقِ حقیقی سے جاملا۔ ماہم ہوش میں آئی تو پانچ دن کی دلہن بیوہ کے روپ میں گھر میں داخل ہوئی۔ سسکیاں، آہیں، آنسو زید اسے اکیلا چھوڑ کر بہت دور جاچکا تھا۔
والد خاموشی کے گہرے سمندر میں اتر گئے۔ شبانہ کے آنسو تھے کہ رکتے نہیں تھے۔ نہ شکوہ نہ شکایت وہ دوش دیتی بھی تو کس کو؟ دوشی تو اس کا اپنا بیٹا تھا۔ اس کی ضد نگل گئی ہنستے بستے گھر کی خوشیوں، چین و سکون و قرار کو … اب صرف بے تابیاں ، بے قراریاں تھیں اور بہتے آنسو۔
دادی کو غم تھا تو بس یہی کہ ان کا لاڈلا اکلوتا پوتا اللہ کو راضی کیے بنا ہی لوٹ گیا۔
آنسوؤں میں ڈوبی ہوئی ماہم ہوش و حواس کھوبیٹھی۔ ابھی تو اس کے ہاتھوں کی مہندی بھی پھیکی نہیںپڑی تھی۔ افسوس کے لیے آنے والی خواتین منحوس کے خطابات سے نواز چکی تھیں۔ ہوش میں آتی تو چیختی گاڑی آہستہ چلائیں… اور پھر زور زور سے کلمہ پڑھنے لگتی۔ بے قصور ہوکر بھی قصوروار تھی۔ اس کی شوخیاں، شراتیں، خوشیاں، تمنائیں، آرزوئیں ’’ضد‘‘ کی بھینٹ چڑھ چکی تھیں…
——