نرسری اسکول میں داخلہ کی ہما ہمی تھی۔ عورتیں اپنے بچوں کو لے کر آئی تھیں۔ بچے سج دھج کر آئے تھے اور بہت اترا رہے تھے۔ وہ انگلیاں پکڑے ماؤں کے ساتھ ادھر ادھر گھوم رہے تھے۔ وہ سب داخلہ کے لیے پریشان تھے۔ ہر ماں اپنے بچے کا اونچے کلاس میں نام لکھانا چاہ رہی تھی۔ ہر کلاس میں داخلہ کے لیے ٹیچروں کا الگ الگ گروپ تھا۔
ثریا اپنی بچی افروز کو لے کرآئی تھی۔ وہ بھی اچھا کپڑا پہن کی خوش تھی۔ اس کی ماں اس کا نام پہلے درجہ میں لکھوانا چاہ رہی تھی۔ وہیں ثریا نے اپنی سہیلی کو دیکھا جو اپنی بچی کو داخلہ دلانے آئی تھی۔ وہ بہت خوش تھی اور سیدھے اس کے پاس پہنچ گئی۔ خیر خیریت معلوم کرنے کے بعد انھوںنے دوسری سے پوچھا کیسے آئیں۔ اسی بچی افروز کا نام لکھانے۔
کس درجہ میں؟
اول میں چاہتی ہوں۔
مس نے کتاب کھول کر بچی کو پڑھنے کو دیا۔ لو بیٹی پڑھ کر سناؤ۔
وہ اٹک گئی۔ وہ حرف پر انگلی رکھ کر امی کا منھ تکنے لگی۔
پڑھ، ماں نے کہا وہ پڑھ نہ سکی۔
مِس نے کاغذ پنسل دیا۔
وہ ماں کا منھ تکتی رہی۔
ماں نے کہا، لکھ۔
وہ لکھ نہ سکی۔
بتاؤ ثریا! نہ پڑھ پارہی ہے نہ لکھ پارہی ہے، صرف تمہارا منھ تکے جارہی ہے۔ کیسی بچی ہے؟
میری بچی ہے… اچھی بچی ہے!
میں نے ہنس کر جواب دیا۔
’’یہ ہنستی ہیں… بولتی نہیں۔‘‘ مِس نے کہا۔
’’جب بولتی ہے چپ ہوتی نہیں۔‘‘ ماں نے بتایا۔
اسے پڑھاؤ… لکھاؤ… ابھی چھوٹی ہے۔
یہ نیچے کے درجہ کے بھی لائق نہیں۔
مِس ایسا ہی کروں گی… ثریا نے کہا۔ گھر پر پڑھاؤں گی، گھر پر لکھاؤں گی۔ داخلہ اول ہی میں کراؤں گی۔
مس نے بتایا۔ توجہ چاہیے۔ آپ کی محنت و تربیت چاہیے، وقت اس کے ساتھ لگانا چاہیے۔، شوہر سے کہو… اس کی تربیت کریں۔
’’انھیں نوکری سے کہاں فرصت! میں خود وقت نکالوں گی۔ اسے پڑھاؤں گی، اسے لکھاؤں گی۔‘‘ ثریا نے وعدہ کیا۔وہ نئے حوصلے کے ساتھ گھر لوٹی۔ افروز کو اس نے پڑھنے بٹھایا۔ کاغذ پنسل دے کر لکھنا بتایا۔ ثریا نے اس کے ساتھ سخت محنت کی۔ پیار پیار میں اسے خوب پڑھنے کی ترغیب دی۔ ساتھ بیٹھ بیٹھ کر کاغذ پر اس سے لکھوایا وہ پنسل اس کے ہاتھ میں دے کر اور اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر لکھواتی۔ پیارسے سمجھاتی۔ وقت پر کھانا دیتی اور اس کی ضرورت کا خیال رکھتی۔ اس نے پڑھانے میں وقت لگایا۔ اس نے لکھانے میں وقت لگایا۔ اس نے اپنا سونا کم کیا۔ بیٹی کو یاد کرانا زیادہ کیا۔ جلد ہی ہفتہ بیت گیا۔ وہ بڑے فخر سے اسکول گئی۔ افروز راستہ میں ماں کو سبق سناتی گئی۔
افروز نے مس کے سامنے فر فر پڑھا۔ مس نے جو بولا وہ لکھا۔ ثریا بہت خوش ہوئی۔ مس اس کی تیزی دیکھ کر حیران ہوئیں۔ افروز کی تیاری سے خوش ہوئیں۔ مس نے ثریا کو مبارک باد دی۔ مس نے ہنس کر داخلہ کا فارم دیا۔ اول درجہ میں نام لکھ دیا۔ مس نے بڑی مس سے دونوں کی تعریف کی۔ ثریا کو اس کی تربیت کی داد ملی۔ انھوں نے ایک ہفتہ میں بچی کو اول درجہ کے لائق بنادیا۔ مہینوں کا سبق ہفتہ میں ختم کرادیا۔ انھوں نے بڑا کمال کیا!
ثریا پھولی نہ سمائی۔ افروز نے بڑی مس کا پیار پایا۔ انھوں نے صفائی ستھرائی کی ہدایت ی۔ ڈریس کا رنگ بتایا۔ کتاب کاپی کی فہرست دی۔ ثریا کو مستقل تربیت دینے کی ہدایت کی۔
آپ کی محنت، اسکول کی تربیت رنگ لائے گی۔ افروز اول میں رہے گی اول ہی آئے گی۔
افروز مسکرائی۔ ثریا پھولی نہ سمائی۔ اس کی تربیت رنگ لائی۔