ترقی کی دوڑ میں عورت کا مقام

منیر احمد خلیلی

ترقی یافتہ مغربی ممالک میں عورت بلا شبہ زندگی کے ہر شعبے میں اپنا رول ادا کر رہی ہے، وہ خاندانی آمدنی میں اضافے کا باعث بن رہی ہے۔ مجموعی طور پر ان قوموں نے مادی لحاظ سے جتنی بھی ترقی کی ہے اس میں عورت کی صلاحیتوں اور کوششوں اور خون پسینے کی آمیزش ضرور ہے۔ ان معاشروں میں جن مادی راحتوں کا دور دورہ ھے عورت بھی ان سے متمتع ہو رہی ہے۔ لیکن ہمیں ذرا پیچھے جھانک کر ایک تو یہ دیکھنا ہوگا کہ وہاں عورت کو گھر کی چہار دیواری عبور کر کے عمل کے میدان میں داخل ہونے پر کن عوامل نے مجبور کیا تھا، دوسرے یہ کہ عورت قومی ترقی کی مشین میں بے جان پرزے کی صورت میں فٹ ہوئی تو اس کی کرامت و شرف اور عزت و وقار میں اضافہ ہوا، یااس کے نسوانی تشخص کو نقصان پہنچا۔ تیسرے یہ کہ وہ ترقی جس کا بہت چرچا اور جس سے حد درجہ مرعوبیت ہے فی الواقعہ ہے کیا چیز؟

صنعتی انقلاب عورت کی بربادی

یورپی معاشرے پر پہلی کاری ضرب صنعتی انقلاب نے لگائی، جمی جمائی قدریں تلپٹ اور قدیم روایات متروک ہوئیں۔ معاشرتی معیارات میں بنیادی تبدیلی آگئی، فکری، نظری اور عملی اکھاڑ پچھاڑ کے جو اثرات رونما ہوئے اور عورت جس طرح ان کی زد میں آگئی اس کا تذکرہ طویل اور افسوس ناک ہے۔ یہاں ہم معروف مسلم اسکالر استاذ محمد قطب کی مشہور تالیف شبہات حول الاسلام (جدید ذہن کے شبہات اور اسلام) میں سے بعض حصوں کی تلخیص پیش کرنے پر اکتفا کریں گے۔ فاضل مولف نے صنعتی انقلاب سے جنم پانے والی مادہ پرستانہ تہذیب کے عورت کی جھولی میں پڑنے والے تلخ ثمرات کا جائزہ لیتے ہوئے بتایا کہ صنعتی انقلاب کی وجہ سے عورتوں اور بچوں پر معاش کی جو ذمہ داری آن پڑی تھی اس سے خاندانی رشتہ کمزور پڑ گیا اور خاندانی زندگی مکمل طور پر انتشار کا شکار ہوکر رہ گئی۔اس انقلاب میں سب سے زیادہ مظلوم ہستی عورت کی تھی، اس کو اب پہلے سے کہیں زیادہ محنت کرنا پڑتی تھی، اس کا احترام اور وقار بھی رخصت ہوچکا تھا۔ وہ نہ نفسیاتی طور پر آسودہ خاطر تھی اور نہ مادی لحاظ سے خوش حال۔ مرد نے نہ صرف یہ کہ عورت کا، خواہ وہ اس کی بیوی تھی یا ماں، مادی سہارا بننے سے انکا رکر دیا۔ بلکہ اپنی روزی آپ کمانے کی ذمہ داری اُلٹا عورت کے سر ڈال دی تھی۔ خاوند باپ یا بیٹے کی حیثیت میں مرد کی سنگ دلی کا یہ ایک پہلو تھا۔ کارخانہ دار اور صنعت کار کے روپ میں مرد اور زیادہ سفاک بن کر عورت سے پیش آیا۔ عورت کو اس نے اپنی ناانصافیوں کا نشانہ بنایا، اس بے چاری کو کار خانوں میں کام زیادہ کرنا پڑتا تھا اور معاوضہ مردوں کے مقابلہ میں کہیں کم ملتا تھا۔ ابتدا میں معصوم بچے بھی اس استحصال کا شکار ہوئے لیکن کچھ ہی عرصہ بعد سماجی اور رفاہی تنظیموں نے کم عمربچوں کے حقوق کے لیے آواز اٹھائی۔ لیکن مجبور عورت کی کسمپرسی کی حالت برقرار رہی، اس کے حق میں کوئی آواز نہیں اٹھ رہی تھی اور اسے ظلم و ناانصافی سے بچانے کے لیے تحریک چلانے والا کوئی نہ تھا۔

پہلی جنگ عظیم کے …؟

عورت کو گھر کی فضا سے دھکیل کر صنعتوں ، کارخانوں، دکانوں اور دفتروں میں جوتنے پر دوسری مرتبہ اس وقت مجبور کیا گیا جب جنگ عظیم اول کے اثرات رونما ہونا شروع ہوئے۔ لاکھوں مرد لقمہ اجل بن گئے، بے شمار ذہنی اور جسمانی طور پر معذور ہوگئے۔ بے شمار بیوہ عورتیں اور یتیم و بے سھارا بچے اور بوڑھے ایسے رھ گئے جن کا معاشی بوجھ اٹھانے والا کوئی نہ رہا۔ یورپی معاشرے میں جنگ کے نتیجے میں عورتوں کی تعداد مردوں کے مقابلے میں زیادہ رہ گئی کیوں کہ جنگ کی تباہ کاریوں اور ہلاکت خیزیوں کا نشانہ زیادہ تر مرد ہی بنے تھے۔ استا ذ محمد قطب اپنی مذکورہ بالا کتاب میں ’’عورت کی بے بسی‘‘ کے عنوان سے اس صورت حال کا تذکرہ کرتے ہوئے بتاتے ہیں:

’’جنگ کی وجہ سے مردوں کی تعداد میں خلا پیدا ہوگیا تھا، اس کو بھرنا زندہ رہنے والوں کے بس کی بات نہ تھی۔ مزدوروں اور کارکنوں کی کمی کے باعث کارخانوں کے کام پر بہت برا اثر پڑا تھا… اس لیے عورتوں کو مجبوراً گھروں سے نکل کر مردوں کی جگہ لینی پڑی، کیوں کہ اگر وہ ایسا نہ کرتیں تو وہ خود اور اُن کے سارے متعلقین … بوڑھے اور چھوٹے بچے فاقوں سے مرجاتے۔‘‘

خرابی در خرابی

یہ تو وہ اسباب تھے جن کے تحت عورت نے گھر داری کو ترک کر کے روزگار اور ملازمت کا رستہ اختیار کیا۔ یہ بجائے خود ایک خرابی تھی، خرابی کبھی بانجھ نہیںرہتی، اس کی کوکھ سے خرابیاں مسلسل جنم لیتی رہتی ہیں۔ یورپی معاشرے نے عورت کے نازک کندھوں پر معاش کی ذمہ داریاں اور کمزور ہاتھوں میں کمائی کے اوزار پکڑا کر جس خرابی کو اختیار کیا، اس سے مزید خرابیاں کس طرح پیدا ہوئیں؟ فاضل مولف اس کی تفصیل بیان کرتے ہیں:

’’عورتوں کو کارخانوں میں جاکر کام کرنے یا کام تلاش کرنے کے نتیجے میں اپنے کردار اور نسوانیت کی قربانی دینی پڑی، کیوں کہ عورت معاشرتی ترقی کے جس رول کو ادا کرنے نکلی تھی۔ کردار و نسوانیت اس رول کی ادائیگی میں رکاوٹ بن رہے تھے۔ صنعت کاروں نے عورت کی بے بسی سے خوب فائدہ اٹھایا اور اپنی سفلی نفسانی خواہشات کو پورا کرنے کے لیے اس لاچار اور مجبور عورت کو خوب خوب استعمال کیا۔‘‘

یہ تو معاشی مجبوری کے نتیجے میں پیدا ہونے والی صورتِ حال تھی۔ بیوگی کے پہاڑ کو ناتواں کندھوں پر اٹھانے اور کنوار پنے کے جذباتی طوفان کو تھامے رکھنا عورت کے لیے ایک اور بڑا نفسیاتی اور سماجی مسئلہ بن گیا تھا۔ مردوں کی تعداد میں یک لخت کمی پیدا ہوجانے کے باعث شادی کر کے گھر بسانے اور بیوی بن کر رہنے کے امکانات تشویش ناک حد تک گھٹ گئے تھے۔ عورت کی صنفی ضرورتوں کی تکمیل کے جائز راستے بڑی حد تک مسدود ہوگئے۔ عیسائی مذہبی تعلیمات کے مطابق مردوں کی کمی کے اس طرح کے مداوے کی کوئی گنجائش نہیں تھی، جیسے اسلام نے ایک سے چار تک شادیوں کی اجازت دے رکھی ہے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ عورت نے بھی حالات سے مصالحت کرلی۔ اس نے سوچا کہ جب اپنا معاشی بار وہ خود اٹھا رہی ہے تو محض صنفی تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے قید ازدواجیت کو کیوں قبول کرے؟ جب خود کفالتی میں وہ آزاد ہے تو صنفی ضرورتوں کے لیے پابندیوں کو کیوں قبول کرے۔ چناں چہ اپنی کمائی اور اپنی ذات کے فارمولے کے تحت وہ آزاد روی اور آرائش و نمائش کی دلدادگی کا شکار ہوگئی۔ استاد محمد قطب اس صورت حال کے بارے میں لکھتے ہیں:

’’نتیجہ یہ ہوا کہ بے چاری عورت اپنے بے رحم جذبات و خواہشات کے رحم و کرم پر چھوڑ دی گئی۔ ایک طرف روزی کمانے کی فکر، دوسری طرف جنسی ناآسودگی اور پھر قیمتی ملبوسات اوربناؤ سنگار کی شدید خواہش۔ ان سب سے مغلوب ہوکر وہ ایک مخصوص ڈگر پر چل پڑی۔ یورپی عورت کا کام اب صرف یہ رہ گیا تھا کہ مردوں کا دل لبھائے، کارخانوں اور دکانوں میں ملازمت کرے اور ہر جائز و ناجائز ذریعے سے اپنی خواہشات پوری کرے۔ اس کے پاس جوں جوں سامانِ تعیش میں اضافہ ہوتا جاتا تھا، اسی قدر ہوس بھی بڑھتی جاتی تھی، جس کو پورا کرنے کے لیے صرف یہی طریقہ تھا کہ وہ اپنے زیادہ سے زیادہ اوقات مزدوری کے لیے وقف کرے۔ کارخانہ داروں نے عورت کے ارمانوں اور خواہشوں کو بھانپ کر اس کی کمزوری سے خوب خوب فائدہ اٹھایا۔ عورتوں کو مردوں کے مقابلے میں کم سے کم معاوضہ دیا جاتا تھا۔ یوں عورت کچھ اپنی مجبوری اور کچھ نادانی کے باعث ظلم و استحصال کی چکی میں پستی رہی۔‘‘

ترقی کے نام پر تنزل

اب آئیے اس بحث کو ختم کرنے سے قبل یہ بھی دیکھ لیں کہ ترقی کس چیز کا نام ہے؟ چمکتے سکوں اور کھنکتے نوٹوں کو حاصل کرکے افرادِ قوم کے اخلاق و کردار میلے، بے وزن اور پست ہوجائیں تو اسے ترقی کا نام نہیںدیا جاسکتا۔ بلند و بالا عمارتیں کھڑی کر کے روح کھنڈر بن جائے تو اسے ترقی نہیں کہا جاسکتا۔ جسمانی راحتیں اور آسائشیں حاصل کر کے قلب سکون و اطمینان سے محروم ہوجائیں تو یہ بہت بڑا گھاٹا ہے۔ چپٹری روٹی کھانے اور اجلے کپڑے پہننے کا نام اگر ہم ترقی رکھیں گے تو یہ تصور ہماری ساری تاریخی روایات اقدار کو حرف غلط قرار دے کر مٹا دے گا۔ اس وقت تک جنونِ ترقی میں مبتلا اور ترقی کے مستعار تصور کے جادو میں گرفتار ہوکر کیا حاصل کیا اور کیا گنوایا؟ اس کی تصویر کشی مولانا ابو الحسن علی ندوی نے اپنی معرکۃ الآرا کتاب ’’انسانی دنیا پر مسلمانوں کے عروج و زوال کا اثر‘‘ میں جن الفاظ سے کی ہے وہ ملاحظہ ہو:

’’مغرب کے مادی و معاشی دور اقتدار و تہذیب میں انسانی زندگی کا قابل تقلید نمونہ اور مثالی تصور پست ہوگیا۔ صرف اچھا کھانا، اچھا پہننا، سوسائٹی میں معزز و ممتاز بننا اور ہم چشموں میں جاہ و اعزاز حاصل کرنا آئیڈیل بن گیا۔ پیغمبروں کی سیرت نظروں سے اوجھل ہوگئی۔ دین و دنیا کی جامع اور ذہنی، علمی، روحانی و انتظامی کمالات اور کسب حال کی صفت سے متصف ہستیوں کا ذہنی اثر و تسلط ہٹ گیا اور وہ شخصیتیں ذہن پر چھا گئیں اور نمونہ و مثال اور زندگی کی کامیابیوں کامنتہی بن کر آنکھوں اور تصور کے سامنے پہاڑ بن کر کھڑی ہوگئیں جو اخلاقی و ذہنی حیثیت سے ناقص اعمال و کردار کے لحاظ سے بے حد پست، علمی کمالات اور حقیقی صفات سے محروم، اخلاقی سطح کے لحاظ سے متبذل اور عامی، گھٹیا درجہ کے انسان یا معاشی جانور اور روپیہ پیسہ پیدا کرنے کی بے شعور و بے درد مشینیں ہیں۔ تن آسانی اور راحت پسندی اتنی غالب آگئی اور تفریحی مشاغل نے زندگی کی اتنی بڑی جگہ گھیر لی کہ عبادت، دینی فرائض کی ادائیگی اور روحانی ضروریات کی طرف توجہ کرنے کی گنجائش نہیں رہی۔ اس وقت ترقی یافتہ اور مہذب طبقہ کے نظام الاوقات پر نظر ڈالیے تو قدیم اسلامی تہذیب کے ان نمائندوں کے نظام الاوقات اور بیسویں صدی کے اس نظام الاوقات میں اتنا بڑا فرق نظر آئے گا کہ ایک قوم او رملک کے افراد معلوم نہیں ہوں گے۔ درمیان میں برسوں نہیں صدیوں کی مسافت سمندروں اور ملکوں کافاصلہ معلوم ہوگا۔lll

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں