تصویر کا دوسرا رخ

ڈاکٹر نشاں زیدی

’’بی بی جی! کسی نازیہ بی بی کا فون آیا تھا۔‘‘ زوبیہ کے گھر میں داخل ہوتے ہی رحیمن بوا نے خبر دی۔
’’اچھا نازیہ کا فون تھا!ارے… وہ کیا کہہ رہی تھی۔‘‘ اس نے ننھی ماہی کو جھولے میں لٹاتے ہوئے سوال کیا۔
’’آپ کو پوچھ رہی تھیں۔‘‘
’’تم نے اس کا فون نمبر لے لیا ہوتا۔‘‘ زوبیہ کے لہجے میں اشتیاق تھا۔
’’میں نے کہہ دیا تھوڑی دیر کے بعد فون کرلیں۔ بی بی جی بس آنے ہی والی ہو ںگی۔‘‘
’’چلوہوسکتا ہے پھر کرے۔‘‘ یہ کہہ کر زوبیہ صوفے پر دراز ہوگئی اور اس کا ذہن امیر پور کی سڑکوں پر دوڑنے لگا۔
وہ اور زوبیہ بہت گہری دوست تھیں۔ دونوں کا برابر برابر گھر تھا۔ زوبیہ کی امی اور نازیہ کی امی میں بھی گہری دوستی تھی۔ زوبیہ اور نازیہ ساتھ کالج جاتیں۔ ساتھ ہی پڑھائی کرتیں۔ ان کی سہیلیاں بھی مشترک تھیں۔ جس سے نازیہ کی دوستی تھی، اس سے ہی زوبیہ کی اور جس سے زوبیہ کی دوستی تھی اس سے نازیہ کی بھی تھی۔ زوبیہ خوبصورت بھی تھی اورسلیقہ مند اور ذمہ دار بھی۔ نازیہ کی امی اکثرمحبت سے کہا کرتیں کہ کچھ تم بھی زوبیہ سے سیکھ لو دیکھو کیسے سلیقے اور شوق سے کام کرتی ہے۔
چھٹی کے دنوں میں بھی جب تک دونوں دن میں ایک بار مل نہیں لیتیں انہیں چین نہیں ملتا تھا۔ ایک بار زوبیہ چھٹیوں میں اپنی نانی کے گھر چلی گئی تو نازیہ اتنی اداس تھی کہ امی نے ہنس کر کہاکہ جب تم لوگ سسرال چلی جاؤ گی تو ایک دوسرے کے بغیر کیسے رہو گی۔
وقت تیزی سے ہوا کے دوش پر پَر لگا کر اڑتا رہا۔ زوبیہ کی شادی کو ایک سال گزر گیا تھا۔ وہ نازیہ کی شادی میں نہیں آ پائی تھی، کیونکہ اسی کے آس پاس اس کے یہاں نئے مہمان کی آمد متوقع تھی۔ لیکن گزشتہ دنوں اس کو امیر پور جانے پر پتہ چلا کہ نازیہ بھی دہلی ہی شفٹ ہوگئی ہے،جہاں اس کی سسرال کی فیملی رہتی تھی تو اس کی خوشی کا ٹھکانہ نہ رہا۔
اس دن وہ شہزان کے ساتھ کہیں باہر نکلنے کی تیاری کررہی تھی کہ اچانک فون کی گھنٹی بجی۔ زوبیہ نے فون اٹھایا دوسری طرف نازیہ کی آواز سن کر وہ خوشی سے اچھل پڑی۔’’ ارے نازیہ کیسی ہو، تمہارا کبھی فون کرنے کو دل بھی نہیں کرتا۔ میرے پاس تو تمہارا نمبر نہیں تھا، ورنہ میں تمہیں فون کرلیتی۔ تمہارا ماہی کو دیکھنے کو بھی دل نہیں کرتا۔‘‘
’’ہاں زوبیہ بہت دل کرتا ہے۔‘‘
’’لیکن تم رو کیوں رہی ہو؟‘‘
’’ارے ہم اتنے دن سے ملے نہیں اس لیے۔‘‘
’’نہیں زوبیہ یہ بات نہیں ہے۔‘‘ اور پھر جو نازیہ نے اپنی کہانی سنائی اس سے زوبیہ کے بھی آنسو نکل آئے۔
’’لیکن نازیہ تم نے یہ سب پہلے کیوں نہیں بتایا۔‘‘
’’وہ لوگ مجھے فون نہیں کرنے دیتے وہ تو آج میری ساس کہیں گئی ہیں تو میں نے فون کرلیا۔‘‘
’’لیکن صغیر کچھ نہیں کہتے۔‘‘
’’نہیں وہ تو بالکل امی کے کہنے میں ہی چلتے ہیں۔‘‘
’’پلیز زوبیہ یہ امی کو نہ بتانا نہیں تو وہ پریشان ہوں گی ، اچھا میں رکھتی ہوں لگتا ہے صغیر آگئے۔‘‘
’’ارے زوبیہ تم تیار نہیں ہوئیں۔‘‘ شہزان نے باتھ روم سے نکل کر کہا۔
’’وہ نازیہ کا فون آگیا تھا۔‘‘
’’اچھا کیا کہہ رہی تھی نازیہ۔ اس کو بلا یا نہیں تم نے؟‘‘
’’شہزان! نازیہ بہت پریشان ہے۔‘‘ اور پھر اس نے اس کی وہ پوری داستان سنائی جو فون پر اس نے کہی تھی۔
رات میں کافی دیر تک زوبیہ نازیہ کے بارے میں سوچتی رہی۔ اور پھر صبح اٹھ کر اس نے شہزان سے کہا:
’’شہزان نازیہ کے مسئلہ کا کچھ تو حل نکالنا ہی ہوگا؟‘‘
اس وقت رات کے گیارہ بجے تھے کہ فون کی گھنٹی بجی۔ زوبیہ نے کچی نیند سے اٹھ کر فون اٹھایا۔ دوسری طرف نازیہ تھی۔
’’ہاں نازیہ بولو کیا بات ہے۔‘‘
’’زوبی شہزان سے کوئی بات ہوئی کیا؟‘‘
’’کس کا فون ہے کون ہے تمہارا عاشق جس کو رات کے گیارہ بجے فون کررہی ہو؟‘‘ کھٹاک سے فون پٹخنے کی آواز آئی اور زوبیہ کو سارا ماجرہ سمجھنے میں دیر نہ لگی۔
اب تو کچھ کرنا ہی پڑے گا۔ لیکن کیسے؟
اس دن زوبیہ سامان خرید کر مارکیٹ سے واپس آرہی تھی کسی سواری کے انتظار میں تھی لیکن کسی بھی آٹو کا دور تک پتہ نہیں تھا۔ تبھی ایک ادھیڑ عمر خاتون وہاں آکر کھڑی ہوگئی۔ وہ اپنے لباس اور انداز سے تعلیم یافتہ معلوم ہوتی تھی۔ دونوں میں بات ہونے لگی۔ ’’آپ کو کہاں جانا ہے؟‘‘ اس نے پوچھا۔
’’مجھے آئی ٹی او کے پاس جانا ہے۔‘‘
’’ مجھے بھی اسی طرف جانا ہے۔ مسلم ویمن فورم کے آفس۔‘‘ اس نے جواب دیا۔ اور پھر تھوڑی دیر کے بعد دونوں ایک ہی آٹو میں بیٹھ کر چل دیں۔
’’اچھا آپ وہاں کیوں جارہی ہیں؟‘‘ زوبیہ نے اس خاتون سے پوچھا۔
’’میں وہاں کی صدر ہوں۔‘‘
’’اچھا آپ مسلم ویمن فورم کی صدر ہیں؟‘‘
’’پھر تو آپ خواتین کے مسائل حل کرتی ہوں گی؟‘‘
’’ہاں ہمارے پاس خواتین کے ہر طرح کے مسائل آتے ہیں، اور ہم انہیں حل بھی کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ میں نے گھر میں بھی ایک آفس کھول رکھا ہے۔ آج کل مسلم خواتین طرح طرح کے مظالم کا شکار ہیں۔ ہم ہر ماہ خواتین کے مسائل پر ایک سمینار کراتے ہیں۔ کل بھی ملی آڈیٹوریم میں ایک سمینار ہے۔ آپ آئیے۔‘‘
’’نہیں میری بچی بہت چھوٹی ہے، اس وجہ سے میں سمینار میں تو نہیں آسکتی۔ لیکن آپ مجھے اپنا ایڈریس دے دیجیے۔ میں آپ کے یہاں ضرور آؤں گی۔ دراصل میرا بھی ایک مسئلہ ہے جس میں آپ کی مدد چاہیے۔‘‘
’’میری ایک سہیلی ہے اس کی سسرال والے اور شوہر اسے بہت پریشان کرتے ہیں۔‘‘ اس نے اپنی بات بتاتے ہوئے کہا۔
’’ارے آج کل ایک عورت ہی عورت کی دشمن بنی ہوئی ہے۔‘‘رضیہ خانم نے اپنا کارڈ دیتے ہوئے کہا۔
’’میڈم آپ کا اسٹاپ آگیا ہے۔‘‘ آٹو والے نے اسے متوجہ کیا۔
’’اچھا۔‘‘
’’میڈم آپ سے مل کر بہت خوشی ہوئی۔ مجھے لگتا ہے اب میرا مسئلہ حل ہوجائے گا۔ میں اتوار کو آپ کے گھر آؤں گی۔‘‘
زوبیہ یہ کہہ کر اترگئی اور آٹو والے کو پیسے دے کر وہ اپنے گھر کی طرف چل دی۔
اتوار کے روز وہ رضیہ خانم کے گھر پہنچ گئی۔ بیل بجانے پر نوکر نے دروازہ کھولا۔
’’محترمہ رضیہ خانم سے ملنا ہے۔‘‘
’’اچھا آپ ڈرائنگ روم میں بیٹھئے۔ میڈم آتی ہی ہوں گی۔‘‘
’’شہزان مجھے لگتا ہے کہ آج نازیہ کا مسئلہ حل ہو ہی جائے گا۔‘‘ اس نے بڑی پر امید ہوکر اپنے شوہر سے کہا۔
’’ہاں دیکھو بات کرتے ہیں۔‘‘ اس نے جواباً کہا۔
’’معاف کیجیے آپ کو انتظارکرنا پڑا۔‘‘
’’ہاں بتائیے تفصیل سے۔‘‘ انھوں نے صوفے پر بیٹھتے ہوئے کہا۔
’’میری دوست ہے۔ اس کا شوہر اس کو کسی سے ملنے نہیں دیتا اور ساس تو بالکل نوکرانی کی طرح کام کراتی ہیں۔ اور اگر وہ کچھ بولتی ہے تو اس کی پٹائی ہوتی ہے۔‘‘
’’یہ تو واقعی بہت بڑا مسئلہ ہے۔‘‘
’’لیکن کیا کیجیے کہ آج کل یہ ایک عام بات ہوگئی ہے۔ کئی مسئلے تو اس سلسلے کے میں نے حل کرائے تھے۔ کل میرا پیپر بھی اسی موضوع پر تھا۔ میری بھی بہو ہے لیکن میں اپنی بہو اور بیٹی میں فرق ہی نہیں سمجھتی۔ بھئی لڑکی اپنا سب کچھ چھوڑ کر سسرال آتی ہے، وہاں اسے پریشان کیا جائے، تو پھر وہ کہاں جائے گی؟‘‘
’’دیکھئے مجھے یہ ایوارڈ وزیر اعلیٰ نے حقوق خواتین کے لیے ہی دیا ہے۔‘‘
انھوں نے سامنے لگی تصویر کو اتارتے ہوئے کہا۔ جس میں وزیر اعلیٰ محترمہ رضیہ خانم کو ایوارڈ دے رہی تھیں۔
’’بی بی جی بہو رانی کہہ رہی ہیں کیا چائے لے کر آؤں۔‘‘
’’ہاں ہاں ،اچھا میں آتی ہوں۔‘‘
’’نہیں نہیں اب مجھ سے یہ ناٹک نہیں ہوگا۔‘‘ زوبیہ کے کانوںمیں آواز آئی۔
’’میں آج آپ کے مہمانوں کو حقیقت بتا کر رہوں گی کہ تم لوگ اپنی بہو کے ساتھ کیسا سلوک کرتے ہو۔ اگر تو نہیں گئی تو …‘‘ اسی کے ساتھ ایک زور دار تھپڑ کی آواز آئی۔
’’یہاں مارتے ہو، ان لوگوں کے سامنے مارو تاکہ تمہاری ماں کی اصلی صورت سامنے آجائے۔‘‘
زوبیہ نے ماجرا جاننے کے لیے اٹھنے کی کوشش کی، مگر شہزان نے اس کا ہاتھ پکڑ کر بٹھا لیا۔ اور پھر وہ دوبارہ صوفے پر بیٹھ گئی۔ اور ایوارڈ والی تصویر کو غور سے دیکھنے لگی۔
چند لمحوں کے بعد ایک لڑکی اس کے سامنے ہاتھ میں چائے کی ٹرے لیے کھڑی تھی، اس کو دیکھتے ہی بے ساختہ منہ سے نکلا: نازیہ! اور اسی کے ساتھ نازیہ کی وہ تصویر اس کے ہاتھ سے گر پڑی جو وہ رضیہ بیگم کو دینے کے لیے لائی تھی۔
ادھر زوبیہ کو دیکھ کر نازیہ کے ہاتھ سے ٹرے زمین پر گرپڑی۔ چائے زمین پر گرچکی تھی۔ چائے نے تصویر پر پھیل کر ایک نئی ڈراؤنی اور گھناؤنی تصویر بنائی تھی اوریہ رضیہ خانم کی تصویر کا دوسرا رخ تھا، جو اسے صاف دکھائی دے رہا تھا۔
——

 

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146