مذاق کے لبادے میں لپٹے ہوئے طنز نہ جانے کتنے افراد کی زندگی بھر کی خوشیاں چھین چکے ہیں۔ ایک مسلمان پر جس طرح دوسرے مسلمان کی جان اور اس کے مال کو نقصان پہنچانا حرام ہے، اسی طرح اس کی عزت اور آبرو پر حملہ کرنا بھی قطعا ناجائز ہے۔ عزت و آبرو کو نقصان پہنچانے کے کئی طریقے ہیں۔ ان میں ایک کسی کا مذاق اڑانا ہے۔ مذاق اڑانے کا عمل دراصل اپنے بھائی کی عزت و ابرو پر براہ راست حملہ اور اسے نفسیاتی طور پر مضطرب کرنے کا ایک اقدام ہے۔ اس تضحیک آمیز رویے کے دنیا اور آخرت دونوں میں بہت منفی نتائج نکل سکتے ہیں۔ چناں چہ باہمی کدورتیں، رنجشیں، لڑائی جھگڑا، انتقامی سوچ، بدگمانی، حسد اور سازشیں زندگی کو جہنم بنا دیتے ہیں۔ دوسری جانب اس رویے کا حامل شخص خدا کی رحمت سے محروم ہوکر ظالموں کی فہرست میں چلا جاتا، اپنی نیکیاں گنوا بیٹھتا اور آخرت میں سزا کا حق دار ہو جاتا ہے۔
قرآن و حدیث میں ممانعت
یہ رویہ اس قدر ناپسندیدہ ہے کہ اللہ نے اس کو براہ راست موضوع بنایا ہے۔ سورہ الحجرات آیت نمبر ۱۱ میں واضح طور پر بیان ہوتا ہے۔
’’اے ایمان والو! نہ مردوں کی کوئی جماعت دوسرے مردوں کا مذاق اڑائے، ممکن ہے وہ ان سے بہتر ہوں اور نہ عورتیں دوسری عورتوں کا مذاق اڑائیں، کیا عجب وہ ان سے بہتر نکلیں۔‘‘
مذاق اڑانا اصل میں ایک شخص کی تحقیر کرنا اور اسے بے عزت کرنا ہے۔ اسی لیے روایات میں کسی کی آبرو کو نقصان پہنچانے کی واضح الفاظ میں مذمت کی گئی ہے۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو کوئی کسی مسلمان کی آبرو کو نقصان پہنچائے گا تو اس پر اللہ فرشتوں اور تمام لوگوں کی لعنت ہوتی ہے، اس کی نفل اور فرض عبادت قبول نہیں ہوگی۔‘‘ (صحیح بخاری جلد دوم)
مذاق اڑانے کا عمومی مقصد کسی شخص کی تحقیر کرنا اور اسے کم تر کرنا ہوتا ہے۔ اس کے پیچھے تکبر کا رویہ کار فرما ہے۔ دوسری جانب تکبر کی قرآن و حدیث میں سخت الفاظ میں مذمت ہوئی ہے۔
عبد اللہ ابن مسعودؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرمؐ نے ارشاد فرمایا: ’’جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر بھی تکبر ہوگا، وہ جنت میں نہیں جائے گا۔ اس پر ایک شخص نے عرض کیا کہ ایک آدمی چاہتا ہے کہ اس کے کپڑے اچھے ہوں اور اس کی جوتے بھی اچھی ہوں۔ آپؐ نے ارشاد فرمایا کہ اللہ جمیل ہے اور جمال ہی کو پسند کرتا ہے، تکبر تو حق کی طرف سے منہ موڑنے اور دوسرے لوگوں کو کم تر سمجھنے کو کہتے ہیں۔‘‘ (صحیح مسلم)
ایک اور روایت میں بھی اس رویے کی بالواسطہ مذمت بیان ہوئی ہے۔ حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’تم لوگ ایک دوسرے پر حسد نہ کرو اور نہ ہی ایک دوسرے سے بغض رکھو اور نہ ہی ایک دوسرے سے روگردانی کرو اور تم میں سے کوئی کسی کے سودے پر سودا نہ کرے اور اللہ کے بندو بھائی بھائی ہوجاؤ، مسلمان، مسلمان کا بھائی ہے وہ نہ اس پر ظلم کرتا ہے اور نہ اسے ذلیل کرتا ہے اور نہ ہی اسے حقیر سمجھتا ہے۔ آپؐ نے اپنے سینہ مبارک کی طرف اشارہ کرتے ہوئے تین مرتبہ فرمایا: تقویٰ یہاں ہے: کسی آدمی کے برا ہونے کے لیے یہی کافی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کو حقیر سمجھے، ایک مسلمان دوسرے مسلمان پر پورا پورا حرام ہے اس کا خون اور اس کا مال اور اس کی عزت و آبرو۔‘‘ (صحیح مسلم)
مذاق اڑانے کا منطقی نتیجہ کسی شخص کی دل آزاری کی شکل میں نکلتا ہے۔ اس ایذا رسانی کی بھی اس ان الفاظ میں مذمت کی گئی ہے۔ عبد اللہ بن عمروؓ نبی اکرمؐسے نقل کرتے ہیں کہ آپؐ نے فرمایا: ’’مسلمان وہ ہے، جس کی زبان اور ہاتھ سے مسلمان ایذا نہ پائیں۔‘‘ (صحیح بخاری۔
نبی کریمﷺ کا مزاح
آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اصحابؓ اور ازواجؓ سے مزاح کیا کرتے تھے۔ اس بات سے ان خشک مزاج اہل علم کے اس نظریے کا انکار ہوتا ہے، جس کے تحت وہ حضرات مذاق کو ایک شجر ممنوعہ سمجھتے ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ سے مذاق کے تمام حدود و قیود کا علم اور تعین ہوتا ہے۔
حضرت عائشہﷺ فرماتی ہیں: میں نے نبی کریمؐ کو کبھی سارے دانت کھول کر اس طرح ہنستے ہوئے نہیں دیکھا کہ آپ کا حلق نظر آنے لگے، بلکہ آپ صرف تبسم فرماتے تھے۔‘‘ (بخاری)
اس حدیث کا مطلب یہ نہیں کہ قہقہہ لگانا ممنوع ہے لیکن بہ ہر حال ایک سنجیدہ مزاج شخص کو ٹھٹھے مار کر ہنسنا زیب نہیںدیتا۔
ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمؐ سے صحابہؓ نے کہا کہ اے اللہ کے رسولؐ آپ ہم سے خوش طبعی کی باتیں کرتے ہیں۔ آپؐ نے فرمایا: (ہاں لیکن) میں حق بات ہی کہتا ہوں۔ (ترمذی)
اس حدیث کا مفہوم یہ سمجھنا چاہیے کہ مذاق میں بھی کوئی جھوٹ، فحش یا غیر اخلاقی بات کرنا جائز نہیں اور جو بات ہو وہ حق ہو۔
حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سواری طلب کی تو آپؐ نے اس سے کہا کہ میں تو تمہیں اونٹ کا بچہ دوں گا۔ اس شخص نے کہا کہ میں اونٹ کے بچے کا کیا کروں گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہر اونٹ کسی اونٹنی کا بچہ ہی ہوتا ہے۔ (ترمذی)
حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت انس کو کہا:
’’یا ذو الاذنین‘‘ یعنی اے دو کانوں والے۔ (ترمذی)کیوںکہ ہر شخص کے دوکان ہوتے ہیں، اس لیے اس میں تحقیر بھی نہیں اور تفنن طبع بھی ہے۔
حضرت حسن رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ ایک بوڑھی عورت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور جنت میں داخلے کی دعا کی درخواست کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بوڑھی عورت جنت میں داخل نہیں ہوسکتی۔ وہ روتی ہوئی واپس ہونے لگی تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے کہا کہ اس سے کہہ دو کہ وہ جنت میں بڑھاپے کی حالت میں داخل نہیں ہوگی، بلکہ اللہ تعالیٰ سب اہل جنت عورتوں کو نو عمر کنواریاں بنا دیں گے اور حق تعالیٰ کی اس آیت میں اس کا بیان ہے کہ ہم نے ان (جنتی) عورتوں کو خاص طرز پر بنایا ہے کہ وہ کنواری ہیں۔‘‘ (شمائل ترمذی)
حضرت ابو سعیدرضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپؐ فرماتے ہیں: کسی مومن آدمی کو جب بھی کوئی تکلیف یا ایذا یا کوئی بیماری یا رنج یہاں تک کہ اگر اسے کوئی فکر ہی ہو تو اس سے اس کے گناہوں کا کفارہ کر دیا جاتا ہے۔‘‘ (مسلم)
کچھ لوگ بہت حساس ہوتے ہیں، ان سے بات چیت کرتے وقت اور خاص طور پر مذاق کرتے وقت محتاط رہنا چاہیے کیوں کہ یہ بھی کوئی اچھا رویہ نہیں کہ ہماری کسی جائز بات سے بھی بلا وجہ ہماری کسی بہن بھائی کو تکلیف پہنچے۔ طنز و مزاح، تضحیک اور ایک دوسرے کا مذاق اڑانے کے گھر، سماج اور معاشرے پر گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔lll