تعاقب

مظہر سلیم

بیوی گھبرائی ہوئی اندر داخل ہوئی اور بدحواسی سے کہنے لگی۔ اب اٹھ بھی جائیے۔ دیکھئے باہر پولیس آئی ہے… پولیس…؟ ہاں… پولیس…!

ایک بار پھر… پولیس کا نام سنتے ہی میرے حواس خطا ہوگئے اور ہاتھوں کے سارے طوطے اچانک اڑگئے۔ میں اپنے آپ کو ملزموں کے کٹہرے میں کھڑا محسوس کرنے لگا۔

پولیس کئی دنوں سے وینکٹ رمن کی موت کی الجھی ہوئی گتھیاں سلجھا رہی تھی۔ میں نے اور چال کے مکینوں نے وینکٹ رمن کے بارے میں تمام حقائق سچ سچ بتادیے تھے۔ پولیس کی تحقیقات کا یہ سلسلہ پتہ نہیں کب تک چلے گا؟ جب تک تحقیقات مکمل نہیں ہوجاتی تب تک پولیس اسٹیشن کے چکر لگانے ہی پڑیں گے یا کبھی پولیس خود اس چال میں آدھمکے گی۔

بیوی بڑبڑانے لگی تھی کہ اس وینکٹ رمن نے تو ہمارا جینا دوبھر کردیا ہے۔ مرنے کو تو مرگیا مگر پریشانیاں ہمارے حصے میں چھوڑ گیا۔ اب کیا سوچ رہے ہیں آپ؟ جائیے بھی، پولیس سب کا بیان لکھ رہی ہے، آپ بھی صاف صاف کہہ دیجیے کہ ہم اسے بالکل نہیں جانتے وہ گاندھی نگر میں رہتا تھا ضرور اور ہمارا پڑوسی بھی تھا۔ بس اس سے زیادہ ہمیں کچھ معلوم نہیں۔

میں اپنے دماغ کی ساری کھڑکیاں اور دروازے وا کرتا ہوں اور باہر نکل جاتا ہوں۔ وینکٹ رمن کے دروازے پر کافی بھیڑ تھی۔ پولیس مختلف لوگوں سے ایک بار پھر وہی سوالات پوچھ رہی تھی۔ لاش ملنے کی جگہ کا معائنہ اور پوچھ تاچھ یہ سب پریشان کن تھا۔ چال میں پولیس کی بار بار آمد سے مکینوں میں خوف و ہراس پایاجانے لگا۔ وینکٹ رمن کی موت ویسے تو خودکشی تھی۔ لیکن کچھ لوگ اسے قتل سمجھتے تھے۔ محلے کی بزرگ خواتین اور تجربہ کار لوگ اس موت کو ایک غریب، لاچار، بے بس اور دکھی باپ کا زندگی سے فرار سمجھتے تھے۔ میں اسے قتل ہی تصور کرتا تھا۔ قاتل کون تھا، یہ میں جانتا تھا اور شاید نہیں بھی!

پولیس کو میں نے بیان دیا تھا کہ ’’وینکٹ رمن ہمارا ایک اچھا پڑوسی تھا۔ اس کی کسی سے کوئی دشمنی نہیں تھی اور نہ ہی چال کے مکین اس سے نفرت کرتے تھے۔ کبھی کبھی اس پر غصہ ضرور ہوتے تھے۔ اس وقت جب وہ رات کو دارو پی کر آتا تھا اور خوب گالی گلوج کرتا تھا۔ اپنی پتنی کو مارتا، خوب شور کرتا، پھر نشے میں چور سوجاتا۔ ایسے موقع پرلوگوں کی نیندیں حرام ہوجاتیں۔ تب اس پر لوگ غصہ ہوجاتے، اسے برا بھلا کہتے تھے۔ اس کی جوان لڑکیاں یہ سب دیکھتی رہتیں اور اندر ہی اندر کڑھتی رہتیں۔ شرمندگی کی وجہ سے کسی سے نظریں بھی نہیں ملا پاتی تھیں۔ وینکٹ رمن کو پتہ نہیں کونسا غم کھائے جارہا تھا، جس کی وجہ سے وہ شراب میں ڈوب کر ذہنی سکون حاصل کرتا تھا۔ چال کے لوگوں کو کبھی اس سے کوئی شکایت نہیں رہی تھی۔ مجھے یوں محسوس ہوتا جیسے وہ کوئی بہت بڑے حساب میں الجھ ہوگیا تھا۔ شاید زندگی کا حساب!

پولیس جب مجھ سے سوال جواب کرچکی تو میں واپس اپنے گھر آگیا تھا، بیوی اور بچے کسی انجانے خوف سے دبکے بیٹھے تھے جیسے مذبح خانے میں جانور۔ بیوی مجھ پر برس پڑی۔ آخر کب تک آپ اس چال میں رہیں گے۔ گھر بدل کیوں نہیں دیتے کوئی اور گھر تلاش کیجیے۔ اب اس چال میں رہنا مشکل ہوگیا ہے۔ آئے دن یہاں جھگڑے ہوتے ہیں۔ کبھی پانی پر تو کبھی گٹر صاف کرنے پر، آپس میں ٹھن جاتی ہے۔ جھگڑے، گندگی، شور شرابہ اور دوسری تکلیفیں تو قابلِ برداشت تھیں، مگر اب تو یہاں ایسی موتیں بھی ہونے لگیں ہیں۔ میں بیوی کی بات قطع کرتے ہوئے کہتا ہوں۔ موتیں نہیں، خود کشی۔ ہاں جو بھی ہو اور یہ پولیس۔ پہلے کبھی اس چال میں پولیس کا گزر نہیں ہوا۔ اور اب نوبت یہاں تک آگئی ہے کہ پولیس بار بار ہمیں پریشان کررہی ہے جیسے وینکٹ رمن کی موت میں ہمارا ہاتھ ہو۔

تم خواہ مخواہ ڈر رہی ہو۔ پولیس اپنی تحقیقات مکمل کررہی ہے۔ ان کا جو کام ہے، انھیں کرنے دو اور ہمارا جو فرض ہے، وہ ہمیں ادا کرنا چاہیے۔ یعنی پولیس کی تحقیقات میں ان کے ساتھ تعاون کرنا۔ سمجھیں… ہاں!ہاں! سمجھ گئی۔

بیوی کے چہرے کا سورج ڈر اور خوف کے بادلوں میں جا چھپا تھا۔ وہ اپنے آپ کو اس ذہنی کشمکش اور تذبذب سے باہر نکالنا چاہ رہی تھی۔ مگر ناکام ہوگئی تھی۔ شاید وہ سوچ رہی تھی کہ وینکٹ رمن کی موت کی وہ بھی ذمہ دار ہے اور چال کے لوگ بھی۔ میں اسے بار بار سمجھاتا کہ سب ٹھیک ہوجائے گا۔ گھبرانے کی کوئی بات نہیں۔ اور وہ خاموش ہوجاتی۔ مگر پتہ نہیں وہ کتنے اندیشوں اور وسوسوں کا شکا رتھی جو اسے اندر ہی اندر پریشان کئے ہوئے تھے۔وہ بالکل سچ کہہ رہی تھی کہ کبھی ایسا نہیں ہوا۔ اتنے برسوں میں اس چال میں پولیس کا داخلہ۔ ڈرنے اور خوف زدہ ہونے کی ایک وجہ تو یہی تھی کہ وینکٹ رمن کی لٹکی ہوئی لاش اسے جب تب دکھائی دے جاتی تو اس لاش سے وہ اپنے آپ کو اور اپنے بچوں کو بچانا چاہتی تھی۔ اسی لیے بار بار اصرار کرتی کہ اس گھر کو، اس چال کو چھوڑ کر کہیں اور چلے جائیں، جہاں وینکٹ رمن کی یاد کی پرچھائیں تک نہ پہنچے۔

وینکٹ رمن کی موت معمہ بنتی جارہی تھی۔ چال کے سبھی لوگوں نے دیکھا تھا کہ وینکٹ رمن نے اپنے گھر میں سلنگ فین سے لٹک کر خود کشی کی تھی۔ لوگ وینکٹ رمن کی عبرت ناک موت سے بے حد فکر مند بھی ہوگئے تھے۔ طرح طرح کی باتیں اور قیاس آرائیاں ہوتیں۔ لوگوں کو تعجب اس بات پر تھا کہ وینکٹ رمن نہایت ہی ڈرپوک آدمی تھا، وہ صرف اپنی پتنی پر ہی ساری بہادری خرچ کرتا تھا۔ایک معمولی چوہے سے ڈر جاتا تھا۔ چال کے لوگوں سے تو وہ اس قدر ڈرتا تھا جیسے وہ ان کا مقروض ہو یا اس نے کوئی بہت بڑا گناہ کیاہو۔ کیا ایسا شخص خود کشی کرسکتا تھا۔ شاید نہیں؟

وہ بڑا بھیانک منظر تھا۔ وینکٹ رمن کی لٹکی ہوئی لاش دیکھ کر تو میری آنکھوںکے سامنے اندھیرا سا چھا گیا تھا اور میں لڑکھڑاگیا تھا۔ فوراً اپنے گھر آگیا تھا۔ لاش بہت دیر تک لٹکتی رہی تھی۔ پولیس آئی، پنچ نامہ ہوا۔ پوچھ تاچھ کے بعد لاش پوسٹ مارٹم کے لیے بھیج دی گئی تھی۔ پھر توپولیس کا آنا جانا شروع ہوگیا۔ چال میں عجیب سی خاموشی چھاگئی تھی۔ سبھی لوگ اس موت سے کافی دکھی اور غمگین ہوگئے تھے۔ انھیں بھی ہر جگہ وینکٹ رمن دکھائی دیتا۔ وہ اس سے دور بھاگنا چاہتے تھے۔ میں بھی چھٹکارا پانا چاہتا تھا۔ مجھے تو یوں محسوس ہوتا جیسے ابھی وینکٹ رمن کہیں سے آجائے گا اور کہے گا چلو چائے پلاؤ، بیڑی دلاؤ… کیونکہ اسے جتنا قریب سے میں جانتا تھا، شاید چال کے دوسرے لوگ نہ جانتے ہوں۔ وہ میرا قریبی پڑوسی تھا۔ آندھرا پردیش کے ایک چھوٹے سے گاؤں کا رہنے والا تھا۔ اس کا چھوٹا سا خاندان پتنی، دو جوان لڑکیاں اور ایک لڑکے پر مشتمل تھا۔ لڑکیاں شادی کے لیے بیٹھی تھیں اور بڑا لڑکا آنند اوباش لڑکوں کی صحبت میں آوارہ بن گیا تھا۔ وینکٹ رمن نہایت غریب مگر محنتی تھا۔ پریل کی گل مہر سلک مل میں کام کرتا تھا۔ اس کی پتنی آس پاس کے گھروں میں کام کرتی اور بچوں کو سنبھالتی تھی۔ بے حد شریف عورت تھی۔ پتہ نہیں وہ وینکٹ رمن کے گھر کیسے پہنچی۔ شاید… قسمت لے آئی تھی۔ ویسے وینکٹ رمن بھی شریف اور سیدھا سادا آدمی تھا اس میں ایک ہی عادت بری تھی کہ وہ جب رات کو شراب پی کر آتا تو پتنی کو خوب مارتا اور تھک کر سوجاتا۔ شروع میں روز کی لڑائی اور گالی گلوج سے چال کے لوگ کافی پریشان ہوئے تھے، مگر دھیرے دھیرے وہ سب اس کے عادی ہوگئے تھے۔ جب تک وینکٹ رمن شراب کے نشے میں چور گھر نہیں آتا اور مارپیٹ نہیں کرتا،تب تک بہت سے لوگوں کو نیند نہیں آتی۔

گل مہرسلک مل میں جب طویل ہڑتال کی وجہ سے تالہ بندی ہوگئی تو وہ بے روزگاری کا شکار ہوگیا تھا۔ اور اس نے اپنے آپ کو شراب میں ڈبودیا تھا۔ جس کی وجہ سے گھر میں اس کے اور بیوی بچوں کے درمیان تناؤ بڑھنے لگا تھا۔ وہ آپس میں لڑجاتے اور مفت کا تماشا ہوجاتا۔

میں اکثر سوچتا ہوں کہ وینکٹ رمن جیسے آدمی نے خود کشی کیوں کی اور اگر واقعی اس کا قتل ہوا ہے تو کس نے کیا؟ وینکٹ رمن نے تو خود کشی کی تھی، پنکھے سے لٹک کر۔ اس نے شاید اپنے گھر والوں سے تنگ آکر اپنے آپ کو ماردیا تھا۔ کیونکہ سبھی جانتے تھے کہ وینکٹ رمن کی بڑی لڑکی ہیما کا ایک مسلم لڑکے اکبر خان عرف راجو کے ساتھ عشق چل رہا تھا۔ راجو بیئر بار کا مالک تھا۔ ہیما اکثر اس لڑکے کے ساتھ غائب رہتی تھی۔ بڑا لڑکا آنند کام تو کچھ نہیں کرتا تھا، بس دن بھر نکڑ پر بیٹھا رہتا یا آوارہ گردی کرتا۔ اب وہ گرو بھی پینے لگا تھا۔ چھوٹی لڑکی جیا ایک سوشل ورکر کے ساتھ بھاگ گئی تھی۔ اس کی کوئی خبر نہیں تھی۔ کہتے ہیں کہ اسے بھگانے میں اس کی بڑی بہن کا ہاتھ تھا۔ اور ماں تو ویسے بھی قسمت کی ماری تھی وہ سب کے لیے آنسو بہاتی۔ بھگوان سے دعائیں کرتی تھی۔ شاید وینکٹ رمن یہ سب دیکھ کر اندر ہی اندر جل کر راکھ کا ڈھیر بن چکا تھا۔ اسی لیے اس نے اپنے آپ کو شراب میں ڈبودیا تھا۔ چال میں تو یہ بھی کہا جانے لگا تھا کہ اس کی پتنی بھی بدچلن ہے۔ لوگ ایک دوسرے کو شک بھری نظروں سے دیکھنے لگے تھے۔ مگر میں جانتا تھا اس شریف عورت کو۔ اس میں جو خوبیاں تھیں وہ بہت سے شریف کہلائے جانے والے لوگوں میں بھی نہیں ہوں گی۔

وینکٹ رمن آدمی بہت اچھا تھا۔ اتوار کو ہم چال کے آخری سرے پر رام بھروسے ہوٹل میں بیٹھ کر گپ شپ کرتے تھے۔ وہ بڑے مزے کی باتیں کرتا تھا اور خوب ہنستا تھا۔ ہنس مکھ آدمی جو تھا۔ وہ شیواجی بیڑی پیتا تھا۔ خوب دھواں چھوڑتا تھا۔ اس کے نزدیک زندگی کی حقیقت شاید اتنی ہی تھی۔ کئی بار ایسا ہوا کہ چال کے لوگوں نے اس کے گھر والوں کی بداخلاقیوں کی وجہ سے چال سے باہر نکالناچاہا۔ مگر وینکٹ رمن کی شرافت اور اپنا پن آڑے آجاتا۔ اس نے چال میں کبھی کسی سے کوئی جھگڑا نہیں کیا تھااور نہ ہی کبھی کسی کی بے عزتی کی تھی۔ وہ سب کا ساتھی اور مددگار تھا۔ اس نے اپنی ملنساری کے طفیل سب کا دل جیت لیا تھا۔ وینکٹ رمن کی شرافت کی وجہ سے اس کے گھر والے ہمیشہ چال والوں کے عتاب سے بچے رہے اور انھیں کسی مصیبت کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔

جب بابو بھائی مستری کے سر پر پڑوسی کی چھت گرپڑی تھی اس وقت وینکٹ رمن نے ہی اسے ہاسپٹل میں ایڈمٹ کرایا تھا۔ اس طرح کے چھوٹے موٹے واقعات اور شادی بیاہ اور بیماری و موت میں بھی وہ پیش پیش رہتا۔ یہی نہیں تہواروں کے موقع پر بھی سب کا ساتھ دیتا۔ خاص طور پر گنیش چترتھی پر دس دن تک ویڈیو فلم کا انتظام کرتا، چال کے لوگوں سے چندہ کرتا اور فلم دکھاتا۔ پرساد تقسیم کرتا، پوجا کا اہتمام بھی کرتا۔ وینکٹ رمن کو دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا جیسے یہ کہانی کا کوئی کردار ہو۔ جوکہانی سے باہر آگیا ہو۔ ایسے کردار عام زندگی میں دور دور تک دکھائی نہیں دیتے۔

ان دنوں بیوی مجھ سے ناراض سی تھی۔ غصہ اور ناراضی نے اسے چڑچڑاہٹ کا شکار بنادیا تھا۔ وہ اس چال کو چھوڑنے پر اصرار کرنے لگی تھی۔ بار بار یہی کہتی: یہاں سے نکل چلو۔ یہ شریفوں کے رہنے لائق جگہ نہیں۔ اب تو یہاں خود کشی بھی ہونے لگی ہے۔ پولیس کا آنا عام بات ہوگئی ہے۔ کیا شرابیوں، غنڈوں، موالیوں اور پولیس کے مستقل خوف کے درمیان کوئی شریف آدمی رہ سکتا ہے؟ بس بہت ہوگیا اب ایک اچھا سا فلیٹ خرید لو اور یہاں سے نکل چلو۔ پرسکون ماحول میں۔

میرے لیے فلیٹ خریدنے کا خیال جیسے خواب ہوگیا تھا۔ آفس میں تمام ساتھی ٹیبل کے نیچے کی کمائی سے خوبصورت فلیٹوں میں پہنچ گئے تھے۔ ایک میں ہی تھا جو اپنی سچائی اور ایمانداری کو گلے لگائے بیٹھا تھا یا مجھے یوں لگتا تھا جیسے یہ کام میں نہ کرپاؤں گا۔ مگر ایک دن نریندر کمار نے مجھے وہ گر بھی بتادیا جو میں جانتا نہ تھا۔ پھر تو سب کچھ بدل گیا۔ نوٹوں کی بارش ہونے لگی میں اس بارش میں بھیگتا ہی چلا گیا اور ایک ایسے راستے کی طرف چل پڑا جہاں سونے چاندی کی چمک تھی۔ روپیوں کی ریل پیل تھی۔ اب نہ بینک سے لون کی ضرورت پڑی اور نہ ہی کسی سے قرض لینے کی۔ پھر میں نے ممبرا میں ایک بہت بڑا فلیٹ خریدلیا۔

اس چال کو چھوڑتے وقت میں کافی جذباتی ہورہا تھا۔ کیونکہ میں نے ۲۰؍سال یہیں گزارے تھے۔ یہیں میں نے اپنے کیریئر کی شروعات کی تھی۔ میں یہیں دلہن بیاہ کر لایا تھا۔ یہاں کے لوگ ایک دوسرے سے اس قدر گھل مل گئے تھے جیسے ایک ہی خاندان کے افراد ہوں۔ ایک دوسرے کی خوشیوں میں شریک ہوتے، دکھ درد بانٹتے۔ کبھی اجنبیت کا احساس نہیں ہوتا۔ مجھے اب بھی وینکٹ رمن کا ہنستا ہوا چہرہ اور لٹکا ہوا جسم دکھائی دے رہا تھا۔ جیسے وہ مجھ سے کہہ رہا ہو: اتنی ساری یادیں چھوڑ کر کیوں جارہے ہو؟ میرا دل بھر آیا تھا اور آنکھوں سے آنسوؤں کے قطرے چھلک پڑے تھے۔

شہر کی ایک پوش کالونی کے ایک بہت بڑے فلیٹ میں ہم شفٹ ہوچکے تھے۔ سبھی نے گھر کو خوب سجایا تھا۔ بیوی بہت خوش تھی۔وہ کہنے لگی کہ ہم نے ایک منحوس جگہ سے نجات حاصل کرلی۔ بچے بھی خوش تھے۔ اس نئے ماحول اور اجنبی لوگوں کے درمیان انھوں نے بہت جلد اپنے آپ کو ایڈجسٹ کرلیا تھا۔ میں بھی بے انتہا خوش تھا۔ بیوی اور بچے اس چال اور وہاں کے گندے اور تھرڈ کلاس لوگوں کو دھیرے دھیرے فراموش کررہے تھے۔ مگر میں شاید ان لوگوں کو بھول نہ پاؤں کیونکہ میرے ماضی کی خوشگوار یادیں وہیں سے وابستہ تھیں۔ مجھے تو ہر موڑ پر وینکٹ رمن دکھائی دیتا تھا۔ جیسے وہ میرا انتظار کررہا ہو۔ ساتھ ساتھ وہ، میرا حوصلہ بڑھاتا ہوا اور گپ شپ کرتا ہوا۔

برسوں بعد آج مجھے اس چال کی اور وہاں کے مکینوں کی بہت یاد آرہی ہے۔ جہاں میں نے بیس برس گزارے تھے۔ جہاں کے ہر گھر کا حال میں جانتا تھا۔ لیکن آج میرے گھر کا منظر بھی دھندلا گیا تھا۔ کیونکہ اب میرا بڑا لڑکا جو انجینئرنگ کے فائنل ایر میں ناکام ہوچکا ہے۔ وہ کالونی کے اپنے دوستوں کی صحبت میں گرد پینے لگا ہے۔ اور بیٹی اپنی سہیلیوں کے ساتھ اخلاقی حدوں کو پار کر گئی ہے۔ اب ہماری ساری امیدیں چھوٹے بیٹے سے وابستہ ہیں۔ وہ اس سال میڈیکل کے فائنل میں ہے۔ ادھر میرا ریٹائرمنٹ بھی قریب ہے۔ اس درمیان مجھے وینکٹ رمن بہت یاد آیا۔ اسے میں نے اپنے سے بہت قریب محسوس کیا۔ مجھے یوں محسوس ہوا جیسے وینکٹ رمن میرے وجود کی اندھیری کوٹھری میں آکر بس گیا ہے۔ اب ہر روز میں شراب پی کر گھر لوٹتا تو بیوی سے لفظی جھڑپ ہوجاتی اور ہم دونوں خوب لڑتے۔ ہمارا چھوٹا بیٹا یہ سب تماشا دیکھتا رہتا۔ بلڈنگ کے دوسرے فلیٹوں تک ہماری آواز نہیں پہنچ پاتی تھی۔ بیوی بھی اندر ہی اندرموم کی طرح پگھلنے لگی تھی۔ وہ اپنے بچوں سے مایوس ہوگئی تھی۔ بس امید کی ایک ہی کرن تھی۔ چھوٹا بیٹا۔ وہ اب تک ساری برائیوں اور بری صحبتوں سے دور تھا۔

اس دن میں آفس سے چھوٹ کر سیدھا گھر جانے لگا۔ راستے میں وینکٹ رمن، اس کی ملنساری، شرافت اور پھر اس کی موت کے بارے میں سوچتا رہا، میں نے آج اپنے اندر اس کے درد کو محسوس کیا۔ وہی درد اور وہی احساس جو وینکٹ رمن کی زندگی کا حصہ تھا۔ اتفاق سے اس دن میں نے شراب کو چھوا تک نہیں تھا۔ بیل دبائی تو بیوی نے دروازہ کھولا۔ مجھے دیکھ کر تعجب خیز انداز میں چیخ پڑی اور بے ہوش ہوگئی۔ میں اس کی طرف دوڑا۔ پھر اپنے اطراف کا جائزہ لینے لگا۔ کچھ بھی نہ تھا۔ بیوی کے چہرے پر پانی کے چھینٹے مارے تو وہ ہوش میں آنے لگی۔ مگر دروازے کی طرف اشارہ کرکے کہنے لگی… آپ کے ساتھ وہ بھی تھا۔ وہ کون … وہی… ہاں وہی…!! میں سمجھ گیاتھا کہ بیوی بھی وینکٹ رمن کو بھلا نہیں پائی ہے۔ اس کی یادیں ہمارا تعاقب کررہی ہیں۔ اسے بھلانا اب مشکل ہے۔

بیوی جب ہوش میں آئی تو گھبرائی ہوئی تھی۔ اس کی آنکھوں میں عجیب سی ویرانی چھائی ہوئی تھی، وہ ٹکٹکی لگائے سلنگ فین کی طرف دیکھ رہی تھی… وہاں کچھ نہیں ہے۔ ادھر مت دیکھو… میں اسے بار بار کہہ رہا تھا۔ اسے دلاسہ دے رہا تھا۔ پھر اس نے انگلی سے اشارہ کرکے کہا … وہ دیکھو… میری نظریں بھی پنکھے کی جانب اٹھ گئیں تو میں اپنے آپ کو حیرت و خوف کی خلیج میں گرتا ہوا محسوس کرنے لگا…

کیونکہ اب کی دفعہ پنکھے سے وینکٹ رمن نہیں میں خود لٹک رہا تھا۔

——

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146