عشاء کی نماز میں ابھی کافی دیر تھی۔ میں نے سوچا ’’لاؤ نیوز دیکھ لوں۔‘‘ جو نہی میں نے ٹی وی کا بٹن دبایا، ایک ایسا منظر پردے پر ابھرا جس نے بدن میں جھرجھری بھردی۔ دنیا کی طاقتور ترین مملکت کا طاقتور ترین صدر جس کی انگلیوں کے نیچے دنیا کو بھک سے اڑا دینے والے بٹنوں کا ڈبہ رہتا ہے۔ اسٹیج پر الوداعی تقریر کے لیے کھڑا تھا۔ ابھی اس نے منہ کھولا ہی تھا کہ ایک جوتا راکٹ کی طرح لوگوں کے سروں کے اوپر سے اڑتا ہوا آیا۔ جوتے کا نشانہ ٹھیک تھا لیکن صدر نے جوتے کو دیکھ لیا، فوراً جھکا اور جوتا ایک طرف چلا گیا۔ ابھی وہ سنبھلنے بھی نہیں پایا تھا کہ دوسرا جوتا ان الفاظ کے جلو میں آیا : ’’کتے! یہ تیرے لیے ہماری جانب سے تحفہ ہے۔‘‘
آنکھیں تو ٹی وی پر لگی ہوئی تھیں لیکن ذہن کے پردے پر آہستہ آہستہ اپنے محلے کا منظر ابھر رہا تھا۔ ایک صاحب صابو نامی رہتے تھے۔ جو داداگیری، دھونس دھاندلی، لوگوں کا مال ہڑپ کرجانے، لوگوں پر ناحق ظلم کرنے میں مشہورتھے۔ ان کے رعب و داب کے آگے کسی شریف کا چراغ نہیں جلتا تھا۔ سیاسی اثر و رسوخ بھی رکھتے تھے اور اس کے ذریعے اپنے خلاف منہ کھولنے والے کو پولیس تھانے میں بند کرادیتے تھے۔ گھر ذاتی تھا لیکن کسی غریب کی زمین ہتھیا کر زبردستی بنالیا تھا۔ زمیندار کہلاتے تھے لیکن سارا محلہ جانتا تھا کہ غریب کی زمین دھونس دھاندلی، سیاسی دباؤ اور اپنے پالتو غنڈوں کے ذریعے ہتھیا کر زمیندار بنے ہوئے ہیں۔ ایک بیٹی تھی جو پڑھ لکھ تو نہیں سکی ، جوان ہوگئی تھی کسی پڑوسی لڑکے سے آ نکھ لڑا کر اس کے ساتھ بھاگ گئی تھی۔ صبح باپ کو خبر ہوئی تو گھر کے سامنے شیر کی طرح گرج رہے تھے۔ ’’میں اس چھوکرے کی ٹانگیں توڑ دوںگا، اس کا سر پھاڑ دوں گا۔ جیل میں سڑا دوں گا۔‘‘ ملتا تو اپنے دل کی بھڑاس نکالتے وہ تو ان کی بیٹی کو لے کر ایسا غائب ہوا جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔
بیوی سدا بیمار رہتی تھی کینسر جیسے موذی مرض کا شکار ہوگئی۔ لاکھ دوا دارو کی گئی لیکن ’’مرض بڑھتا گیا جوںجوں دوا کی‘‘ کا معاملہ رہا۔ ان کے گھرکی بغل میں ایک بیوہ بڑھیا کا جھونپڑا تھا جو اپنے بیٹے کے ساتھ رہتی تھی۔ بڑھیا کو نادر شاہی حکم سنایا گیا کہ ’’جھونپڑا ہمارے حوالے کرکے کہیں چلی جاؤ۔‘‘ بڑھیا کا وہی ایک ٹھکانہ تھا، کہاں جاتی، ٹال مٹول کرنے لگی۔ ایک دن صابو صاحب کو تاؤ آیا تو جھونپڑے کی گھاس کھینچ کھینچ کر پھینکنے لگے۔ ماں بیٹے نے منت سماجت کی، ہاتھ جوڑے لیکن جن کا دل دھونس دھاندلی اور ظلم و ستم سے سخت ہوگیا ہو، وہ غریبوں کے آنسوؤں، منت سماجت اور ہاتھ جوڑنے سے کیا پسیجتا۔ صابو صاحب کا دل نہیں پسیجا، بلکہ گالیاں بکتے ہوئے رعب دار آواز میں کہنے لگے۔: ’’تم غریب ہو یہ سمجھ کر میں نے اتنے دن صبر کیا ہے۔ بڑے بڑے لوگ میرے گھر آتے ہیں، تمہارا جھونپڑا ان کی نظروں میں کھٹکتا ہے، اس لیے دوہزار روپئے لے لو اور کہیں بھی چلے جاؤ۔‘‘
بڑھیا چھاتی پیٹتی ہوئی فریاد کرنے لگی۔ لڑکے نے اطراف کھڑے لوگوں سے اس ظلم کو روکنے کی منت کی۔ محلے کے لوگ اس ظلم پر افسوس تو ظاہر کرتے رہے، لیکن کسی میں ہمت نہیں ہوئی کہ ظالم کے ہاتھ روکتا۔ لڑکے نے جب دیکھا کہ اس کا گھاس پھونس کا آشیانہ اجڑ رہا ہے۔ اور کوئی اس کی مدد کرنے کے لیے آگے نہیں بڑھ رہا ہے تو خدا جانے اس کے اندر اتنی ہمت کیسے پیدا ہوئی اس نے پاس پڑا ہوا ایک ڈنڈا اٹھایا اور تابڑ توڑ صابو صاحب پر برسانے لگا۔ صابو صاحب اچانک ہونے والے اس حملے کے لیے تیار نہیں تھے اور نہ ان کے وہم و گمان میں تھا کہ مریل قسم کا لڑکا ان پر حملہ کردے گا۔ وہ اپنا بچاؤ کرنے لگے اور غلیظ غلیظ گالیوں سے نوازتے ہوئے لڑکے کو دھمکیاں دینے لگے۔ لیکن لڑکے پر نہ گالیوں کا اثر ہوا اور نہ دھمکیوں کا۔ وہ طوفانی انداز میں ڈنڈا برساتا رہا۔ صابو صاحب کی بدقسمتی کہ ان کے لے پالک غنڈوں میں سے کوئی اس وقت موجود نہیں تھا۔ اطراف کھڑے لوگ لڑکے کی ہمت پر تعجب کرتے رہے، سب صابو صاحب سے نفرت تو کرتے ہی تھے، ان کے پٹنے کا تماشا دیکھتے رہے۔ لڑکا بڑی پھرتی سے ڈنڈا برسا رہا تھا ایک ڈنڈا اتنی زور سے لگا کہ صابو صاحب بلبلاتے ہوئے گھر میں بھاگ گئے اور دروازہ بند کرلیا۔ بس بڑھیا کے بیٹے نے صابو صاحب کے ظلم کے غبارے میں سوئی چبھودی اور وہ پھٹ گیا۔ وہ دن اور آج کا دن صابو صاحب کو لوگ گھر سے باہر کم ہی دیکھ پاتے ہیں۔
چند دن بعد میں نے ٹی وی آن کیا تو یہ دیکھ کر حیران رہ گئی کہ ایک کالا آدمی گورے آدمی کی کرسی پر بیٹھا ہوا ہے۔
اللہ اللہ! یہ وہی گورے تھے جو کالے آدمیوں کو جانوروں سے بدتر سمجھتے تھے۔ جن کے ہوٹل الگ، اسکول الگ، بسیں الگ، جن کے بارے میں یہ فیصلہ کرلیاگیا تھا کہ ان کو جینے کا حق صرف ہماری چاکری میں ہے۔ دن و رات کے چکر نے آقا کو گھر بھیج دیا اورنوکر کو آقا بنادیا:
’بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے‘
صبح پڑھی ہوئی قرآن کی یہ آیت میرے ذہن میں گونجنے لگی:
تعز من تشاء و تذل من تشاء
’’توجس کو چاہتا ہے عزت دیتا ہے اور جس کو چاہتا ہے ذلیل کرتا ہے۔‘‘