تعلیمی بیداری کی ضرورت

شمشاد حسین فلاحی

تعلیم اس وقت دنیا کے انسانوں کا اہم اشو ہے۔ ٹھیک اتنا ہی اہم جتنا ان کے لیے کھانا کپڑا اور مکان اہم ہے۔ کیونکہ کھانے، کپڑے اور مکان پر انسان کی زندگی قائم رہتی ہے۔ تعلیم کے ذریعہ قوموں اور ملتوں کی زندگی قائم رہتی ہے۔ قیادت و قوت انہی قوموں اور ملتوں کو ملتی ہے جو تعلیم کے میدان میں قائد ہوتے ہیں اور مغلوبیت و پستی، ظلم و استحصال اور ذلت و رسوائی انہی کا حصہ بنتی ہے جو اس سے تہی دست ہوں۔تاریخ اس پر شاہد ہے اور دنیا اس وقت اپنے سر کی آنکھوں سے دیکھ رہی ہے کہ غالب کون ہے اور کیوں؟ مغلوب و مجبور کون ہے اور کس وجہ سے؟
ہم ملت اسلامیہ ہند کی بات کررہے ہیںجس کی تعلیمی پسماندگی جگ ظاہر ہے۔ اس پر ملک کا ہر طبقہ ہندو مسلم، دانشور و عام آدمی اور عالم و غیر عالم سبھی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے نہیں تھکتے۔ ریزرویشن، رعایت اور خاص نگرانی کے لیے حکومت سے مطالبات کیے جاتے ہیں۔ اہلِ خیر و اہل ثروت سے اس میدان میں تعاون کرنے کی اپیلیں کی جاتی ہیں۔ تعلیمی کارواں نکالے جاتے ہیں، تعلیمی بیداری مہمات منائی جاتی ہیں جلسے جلوس منعقد ہونے کے ساتھ ساتھ اخبارات و رسائل میں مضامین شائع ہوتے ہیں۔ روز بروز تعلیمی ادارے بھی قائم ہورہے ہیں۔ مگر مسلمانوں کی تعلیمی پسماندگی ہے کہ ملک کے دیگر پسماندہ طبقوں کے برابر بھی ہونے میں نہیں آتی۔ ان سب کوششوں کی اہمیت و افادیت اپنی جگہ مگر ان تمام کوششوں کا رخ یقینا مسلم معاشرہ کے اسی طبقے کی طرف ہوتاہے جو کسی نہ کسی حد تک تعلیم یافتہ ہے۔ گویا پڑھے لکھے لوگ پڑھے لکھے لوگوں کو ہی تعلیم کی ضرورت و اہمیت سمجھانے پر مطمئن ہیں اور اب یہ موضوع دانشوروں کے ڈرائنگ روم ڈسکشن کا موضوع بن کر رہ گیا ہے۔ بھلا ایسے میں جہالت کا خاتمہ کیسے ہوگا اور کوڑے کے ڈھیر سے رزق تلاش کرنے والے بچے اسکول کیسے پہنچ سکیں گے۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ ناخواندہ طبقہ وہ طبقہ ہے جو زیادہ تر اپنی غربت کے سبب اسکول کا منھ نہیں دیکھ پاتا۔ حالاںکہ کھاتے پیتے لوگوں میں بھی تعلیمی پسماندگی ہے اور اس کا سبب بے توجہی ہے مگر ایسا بہت کم ہے۔ ایسی صورت حال میں ملت کے دانشوروں کے پاس کیا منصوبہ ہے کہ وہ ان بچوں کو جو پانچ چھ سال کی عمر ہی سے کندھے پر جھولا ڈال کر کوڑا بیننے چل نکلتے ہیں۔ کیونکہ انہیں اپنے کھانے اور اپنے لباس ہی کا انتظام نہیں کرنا ہوتا بلکہ غریب ماں باپ کا سہارا بھی بننا ہوتا ہے۔
ایک طرف غربت وافلاس کا یہ عالم ہے دوسری طرف مسلمانوں میں ایسے اہلِ ثروت کی بھی کمی نہیں جن کے پالتو جانور بھی مکھن بریڈ کھاتے ہیں اور جن کے یہاں شادی بیاہ ہی نہیں برتھ ڈے جیسی تقریبات میں بھی لاکھوں لاکھ روپئے صرف کردیے جاتے ہیں۔ مگر ان کی توجہ ملت اسلامیہ کی اس حالت پر نہیں جاتی اور جاتی بھی ہے تو گفتگو سے آگے نہیں بڑھتی۔
اسی طرح مسلم ملت میں صرف تعلیمی پسماندگی ہی نہیںہے یہاں بھی ہزاروں نوجوان گریجویشن اور پوسٹ گریجویشن کرکے ہر سال نکلتے اور سرکاری وملٹی نیشنل کمپنیوں میں رہ کر پیسہ کمانے کی مشین بن جاتے ہیں۔ اور پھر وہ زندہ رہتے ہیں اور ان کاپیسہ اور عیش و آرام۔ انہیں اس بات کی کم ہی توفیق ہوتی ہے کہ وہ کسی غریب خاندان کے بچے کی فکر اس انداز میں کریں کہ ان کی کوششوں سے وہ بھی اس سطح کے آس پاس پہنچ جائے جہاں وہ ہیں۔ یہ خود غرضی اور فکری پسماندگی کی ایک سطح ہے جہاں آج ہمارا مسلم معاشرہ کھڑا ہے۔ حالانکہ اس میں استثنا کی بھی بھر پور گنجائش ہے اور یہی وجہ ہے کہ آج کچھ نہ کچھ کوششیں ہوپارہی ہیں۔
ملت اسلامیہ ہند اس لحاظ سے کافی مایوس ہے کہ اس کی تعلیم و ترقی کے لیے کوشش کرنے والے افراد کی جدوجہد بے نتیجہ ثابت ہورہی ہے۔ اس ملک میں متعدد مسلم تنظیمیں تعلیمی بیداری مہمات، تعلیمی کارواں جیسی سرگرمیاں انجام دیتے ہیں۔ بہت سے مسلم ادارے اسکالر شپ کا اہتمام کرتے ہیں، کئی تنظیموں کے تجربات اچھے بھی ہیں اور اکثر تنظیموں کی سرگرمیاں رپورٹ بنانے تک محدود ہیں۔ کیا بہتر ہوتا کہ ایسی بھی تنظیموں کا ایک ملکی/علاقائی/ضلعی وفاق بنتا۔ جہاں ہر تنظیم اپنے تجربات سے دوسری تنظیموں کوفائدہ پہنچاتی۔ وہیں ایک ایسا کوراڈینیشن بنتا جس سے بکھری ہوئی کوششیں زیادہ نتیجہ خیز ثابت ہوتیں۔ ایسی صورت میں حکومت کے منصوبوں کو بھی مسلم عوام تک پہنچانے میں کامیابی ملتی۔ لیکن لگتا ہے سالوں کی پسماندگی کی وجہ سے ہم اجتماعی کوشش کرنا بھی بھول گئے ہیں جس کی وجہ سے مفاد پرست مسلم تنظیمیں اور دو دو اینٹ کے ادارے پھل پھول رہے ہیں اور حکومت اور عوام کا سرمایہ لٹا رہے ہیں۔
یہاں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ بعض ادارے اسکالر شپ کا اعلان کرتے ہیں لیکن ان کی شرطیں ایسی ہیں جن سے محنتی لیکن غریب مسلم طالب علم تک اسکالر شپ بھی نہیں پہنچتی۔ ایسی مثالیں ہیں کہ اسکالر شپ اٹھانے والے طلبہ پروفیشنل کالجز میں داد عیش دیتے پھر رہے ہیں اور غریب طالب علم داخلے تک سے محروم ہے۔ اسلامی اداروں کا یہ رویہ تشویش ناک حد تک قابلِ اعتراض ہے۔
اس سلسلے کا سب سے مجرمانہ رویہ ان نام نہاد مسلم اسکولوں اور کالجوں کا ہے جو وقف کی اور ملت کی بنائی ہوئی شاندار عمارتوں میں چل رہے ہیں تمام تر حکومتی سہولیات کے باوجود ان کا تعلیمی معیار ایسا ہے جسے ملت کا تعلیمی قبرستان کہنا زیادہ درست ہوگا۔ انتظامی جھگڑے اور سیاسی ہنگامے ان کی قسمت بن کر رہ گئے ہیں۔ جب تک ایسے نام نہاد مسلم اسکولوں کو قابو میں نہیں کیا جائے گا، ہزاروں مسلم بچوں کا مستقبل ملت کے ہی ہاتھوں تاریک ہوتا رہے گا۔ اس کے لیے مقامی مسلم عوام کو اپنا جائز حق حاصل کرنے کے لیے سبھی جمہوری اقدام کرنے چاہئیں۔
مسلمانوں کی تعلیمی پسماندگی کا دور کرنا اب ہندوستانی باشعور مسلمانوں کے سامنے ایک بڑا چیلنج ہے اور اس کے لیے زمینی سطح کی ایسی کوششوں کی ضرور ت ہے جو سماج کے ان طبقوں تک پہنچ سکیں جن کا کوئی پرسانِ حال نہیں۔ اور اس کی شروعات ہوگی آپ کے اپنے محلے، پڑوس اور آپ کی اپنی آبادی سے۔ اگر آپ واقعی ملت کی تعلیمی پسماندگی کا درد رکھتے ہیں تو اپنے دائیں بائیں ایسے لڑکے لڑکیوں کو تلاش کیجیے جو آپ کی رہنمائی اور مدد کے محتاج ہیں۔ آپ ان کے گھروں میں جاکر ان کے والدین سے اس موضوع پر گفتگو کیجیے، ان کے مسائل کو سمجھنے کی کوشش کیجیے اور پھر صرف اتنا کیجیے کہ انہیں سمجھا بجھا کر ان کے بچوں کو قریب ترین سرکاری اسکول میں داخل کرادیجیے۔ اور ذہن میں رکھئے کہ ہم تعلیمی ادارے قائم نہیں کرسکتے تو کیا کچھ غریب بچوں کو موجود تعلیمی اداروں تک بھی نہیں پہنچاسکتے۔ اگر ہم گلی، محلے اور گاؤں کی سطح پر اتنا بھی نہیں کرسکتے تو ہمارے دل میں مسلمانوں کی تعلیمی پسماندگی کا کون سا درد ہے، جو آنسو بہانے پر ہمیں مجبور کرتا ہے۔
اگر حجاب اسلامی پڑھنے والی بہنیں اور بھائی اپنے اپنے مقام پر صرف دوچار بچوں کو ہی قریبی اسکول میں داخل کرادیں تو ہزاروں بچے جہالت کے اندھیروں سے نکل کر علم کی روشنی کا سفر شروع کرسکتے ہیں۔ اور اگر ہمارے دل میں یہ جذبہ پیدا ہوجائے کہ ہم اپنے اخراجات سے صرف سو روپے ماہانہ کی بچت کرکے ایک غریب بچے کی کفالت کریں گے اور اسے تعلیم یافتہ کرنے کی ہر ممکن کوشش کریں گے تو ملت کی تقدیر بدل سکتی ہے اور آخرت کے لیے بھی ہم قیمتی سامان کرسکتے ہیں۔
ہمیں یہ بات بھی نہیں بھولنی چاہیے کہ اگر ہندوستان کا ہر نوجوان گریجویٹ اور پوسٹ گریجویٹ بن کر اعلیٰ عہدوں اور اچھی نوکریوں پر فائز ہوجائے اور اس کی زندگی بھی اسی طرح خوشحال ہوجائے جس طرح دوسروں کی ہے تو کوئی خاص کامیابی نہ ہوگی۔ اس لیے کہ ہمارے نزدیک اس علم کی نہ کوئی اہمیت ہے اور نہ ضرورت جو انسانوں کی عقل اور ان کے شعور پر پردہ ڈال کر کفر والحاد کی طرف لے جانے والا ہو۔ ہم تو اس علم کا فروغ چاہتے ہیں جو انسانوں کے ذہن و دماغ سے جہالت کے پردوں کو ہٹا کر اسے اس کے رب تک پہنچانے کا ذریعہ بنے۔ یہی ہماری کوششوں کا مرکز ہے اور یہی ہماری فکر کی بنیاد اور ہمارے ملی درد کا سبب بھی۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146