تعلیم اور معیارِ تعلیم

حمید سہروردی

قرآن مجید کی یہ آیت بڑا بلیغ مفہوم ادا کرتی ہے کہ:’’(اے نبی!) کہہ دیجیے کیا علم والے اور بے علم دونوں کبھی یکساں ہوسکتے ہیں؟ نصیحت تو عقل رکھنے والے ہی قبول کرتے ہیں۔‘‘ (الزمر)

اس میں کوئی شک نہیں کہ آزادی کے بعد حکومت اور معاشرے دونوں ہی نے تعلیم پر کافی توجہ دی ہے۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ اب ہر محلہ میںایک سے زائد اسکولوں اور تعلیم گاہوں کے بورڈ نظرآتے ہیں۔ ہر گھر میں پڑھے لکھے افراد ملتے ہیں۔ اس کے معنی یہی ہوئے کہ تعلیم کافیصد دن بدن بڑھتا ہی جارہا ہے اور ناخواندگی سمٹ رہی ہے مگر جب ہم افراد کی قابلیت اور اہلیت پر غور کرتے ہیں تو ہمیں یہی محسوس ہوتا ہے کہ تعلیم ہمارے ذہن و قلب کو منور نہیں کرسکی اور نہ افراد کے رویوں کی اصلاح کرسکی۔ تو پھر، کیا ہم صرف ڈگریوں کا بوجھ اٹھائے پھر رہے ہیں! جی ہاں! کردار واخلاق کو سنوارنا روشن خیال اور روشن ضمیر انسان بننا، ذہن و فکر کی سطح کو بلند کرنا، انسانی رویوں کی اصلاح کرنا، اور حق و صداقت کی امانت داری کا درس اب ہمارے تعلیمی اداروں میں کسی بھی سطح پر نہیں ملتا بلکہ حصولِ ڈگری ہی سب کچھ بن گیا ہے اور ڈگری کے زور پر ملازمت حاصل کرنا طالب علم کا مقصد اور جدوجہد کا ہدف رہ گیا ہے، اس سے آگے کچھ بھی نہیں۔

یہ سچ ہے کہ تعلیمی سرگرمی انفرادی عمل نہیں ہے بلکہ اجتماعی، تہذیبی و معاشرتی عمل ہے۔ اور اس حیثیت سے ایک طالب علم تعلیمی اداروں، اساتذہ اور والدین سے ذمہ دارانہ رویوں اور مخلصانہ کوششوں کا طالب ہے۔ ان کوششوں میں اچھے نصاب تعلیم کی تیاری سے لے کر مثبت، تعمیری اور اعلیٰ قدروں پر مبنی تعلیمی و تربیتی ماحول کی تیاری و تشکیل تک شامل ہیں۔ اس میں اعلیٰ تعلیمی ادارے بھی ہیں اور بنیادی تعلیم فراہم کرنے والے اسکولس اور اکیڈمیاں بھی بلکہ بنیادی تعلیم کے اداروں اور ان سے وابستہ افراد اور نظام خاص طور پر اہمیت کے حامل ہیں کیونکہ یہیں پر اخلاق و کردار اور افکار اور رویوں کی تشکیل کا عمل انجام پاتا ہے۔

معیاری تعلیم کے حصول کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بنیادی تعلیم ہی کی وہ کمزوری ہے جس کا اوپر ذکر کیا گیا ہے۔ سرپرستوں کا تعلیم کے مفہوم سے ناواقف ہونا، اساتذہ کا طلباء کی نفسیات ، سماجی، معاشرتی اور تعلیمی ضروریات اور ان کے سیکھنے کی سطح سے ناواقف ہونا اور اس سے آگے بڑھ کر مقصدِ تعلیم تک سے غفلت ایسی باتیں ہیں جو کوششوں کو مؤثر، کارآمد اور مفید بنانے کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔ ڈگری حاصل ہوجانے کے بعد بھی طالب علم کا بے روزگار ہی رہنا ایک طرف تو طالب علم کو معیاری تعلیم کے لیے جدوجہد سے روکتا ہے دوسری طرف وہ اس کی اہمیت و ضرورت ہی کی نفی کا ذریعہ بنتا ہے۔

طلباء میں آپسی میل جول، وطن دوستی، اخوت و محبت کی ترغیب، تعصب اور تنگ نظر سے دوری، طلباء کے ساتھ ہمدردی اور مساویانہ سلوک، چھوت چھات، رنگ و نسل اور مذہب و طبقہ واریت کا خاتمہ کرنے کے لیے تعلیم کو آلۂ کار کے طور پر استعمال کیا جانا چاہیے، اور اب تک کیا جاتا رہا ہے مگر ادھر چند دہائیوں سے معاملہ اس کے برعکس ہوگیا ہے۔ اب طلبہ کو منافرتی سیاست کا حصہ بناکر ان کا استحصال کیا جارہا ہے۔ ایسے میں معیاری تعلیم اور بلند اخلاقی قدروں کا فروغ ہونے کے بجائے سماج و معاشرے پر برعکس اثرات مرتب ہورہے ہیں۔ اس نقطہ پر ملک کے تمام اصحابِ فکر کو سوچنے اور اس کے سدباب کی کوششوں کی منصوبہ بندی کرنے کی ضرورت ہے۔

اساتذہ کا طلباء سے تعلق معیاری تعلیم کے فروغ اور قوم کے بچوں کی اخلاقی و عملی تربیت و اصلاح میں بہت اہم رول ادا کرتا ہے۔ اب یہ تعلق رسمی یا پروفیشنل بنتا جارہا ہے۔ اب پیشہ وارانہ تعلیم دینے والے استاد کا رویہ ہی پروفیشنل نہیں بلکہ سوشیل سائنس پڑھانے والےاساتذہ کا رویہ بھی پروفیشنل ہوگیا ہے۔ استاد ہو کہ ڈاکٹر، انجینئر ہو کہ سوشیل ورکر، اس کے نزدیک خدمتِ  خلق کا جذبہ نہیں رہا۔ ہر اعتبار سے، ہر پیشہ ور مالی منفعت ہی چاہتا ہے۔ اس رویے نے قوم کی طلبہ برادری کا تعلیم کے میدان میں بڑا نقصان کیا ہے۔ موجودہ دور میں طلباء میں یہ احساس گہرا ہوتا جارہا ہے کہ وہ میرٹ کو ہی سب کچھ سمجھتے ہیں۔ قابلیت اور اہلیت، ان کے نزدیک کوئی معنی نہیں رکھتی۔

دوسری طرف معاشرہ کے سرپرستوں کا رویہ بھی ذمہ دارانہ نہیں ہے۔ سرپرست اسکول میں بچے کو داخل کرنے کے بعد یہ سمجھتے ہیں کہ انھوںنے اپنی ذمہ داری پوری کردی ہے۔ وہ نہ اسکول جاکر اپنے بچے کی تعلیمی حالت جاننے کی کوشش کرتے ہیں اور نہ ہی گھر پر بچے کو علم کا شوق، آگے بڑھنے کا جذبہ و حوصلہ اور مناسب و مطلوب رہنمائی فراہم کرتے ہیں۔ ان کی فکر بچے کی شخصیت کی تعمیر سے زیادہ میرٹ کی دوڑ میں آگے نکلنے کی ہوتی ہے۔ بھلے ہی ان کے بچے کی صلاحیت یا اس کا مزاج اس کا متحمل نہ ہو۔ ظاہر ہے کہ ہر ایک بچہ کا اپنا الگ مزاج اور اپنی منفرد صلاحیتیں ہوتی ہیں مگر اکثر والدین کے نزدیک تعلیم دلانے کا ہدف اعلیٰ عہدہ ہوتا ہے یا اعلیٰ تعلیم سے مراد ڈاکٹر یا انجینئر بننا ہوتا ہے، جو غیر معمولی اور نامناسب ہے۔

تعلیم کے اعلیٰ ترین مقاصد میں اخلاقی اور سماجی ذمہ داری کے احساس کا فروغ سب سے اہم ہے اور یہ کام صرف نصابی سرگرمیوں اور کتابوں سے ممکن نہیں ہوسکتا۔ اس کے لیے ایسے رسائل و جرائد اور میگزینس کے مطالعہ کو بھی فروغ دینا ہوگا جن میں عام معلومات، سائنس، ٹکنالوجی کے ساتھ سماجی، معاشرتی، سیاسی اور دینی واخلاقی مضامین شائع ہوتے ہوں۔ اردو میں بھی ان موضوعات پر مشتمل بہت سے رسالے حکومت اور دیگر ادارے شائع کررہے ہیں۔ جنھیں اپنے گھروں میں منگوا کر ہم اپنے بچوں کی تعلیمی کارکردگی کو بہتر بنانے کے ساتھ ساتھ ان کو اچھا ماحول بھی فراہم کرسکتے ہیں اسی طرح ہم اپنے بچوں کو شہر کی سرکاری، اور غیر سرکاری لائبریریوں سے استفادہ کا شوق بھی دلائیں تاکہ ان کی معلومات ہمہ جہت ہوں۔

ہمارے تعلیمی ادارے سرکاری بھی ہیں اور خانگی بھی۔ عام طور پر یہ دیکھا جارہا ہے کہ زیادہ تر سرکاری اداروں میں تعلیم کا نظام ناقص ہے۔ خانگی اداروں میں ضروری چیزیں بھی پوری نہیں ہوتیں، سرکاری مدرسہ میں تنخواہ کی شکایت نہیں ہے۔ خانگی اداروں میں دستخط تو پوری تنخواہ پر لیے جاتے ہیںمگر قلیل رقم ہاتھ میں تھما دی جاتی ہے یا پھر پہلے ہی ملازمت کی قیمت یکمشت ادا کرنی ہوتی ہے۔ اساتذہ جتنی رقم لیتے ہیں اسی حساب سے تعلیم بھی دیتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ گراوٹ انتظامیہ کی بھی ہے اور استاد کی بھی۔ یہ ہمارے پورے تعلیمی نظام کے اخلاقی دیوالیہ پن کی علامت ہے۔ اس صورت میں کوئی استاد مثالی استاد اور مربی کیسے بن سکتا ہے اور ایسے نظام سے اعلیٰ قدروں کے پاسدار طلبہ کیسے تیار ہوسکتے ہیں۔

کسی بھی تعلیمی ادارے کا معیا رتعلیم قابل اساتذہ پر انحصار کرتا ہے۔ اگر یہ مان لیں کہ اسکول میں تمام مادی سہولتیں میسر ہیں، بلڈنگ، کلاس روم، فرنیچر، تجربہ گاہیں ، لائبریری، کینٹین، کھیل کا میدان، پانی وغیرہ مگر اساتذہ ہی قابل نہ ہوں تو پھر ان تمام چیزوں کا مقصد صرف نمایشی ہوکر رہ جاتا ہے۔ ایک اعلیٰ کردار استاد کئی نسلوں کے کردار و اطوار، قابلیت اور اہلیت کا ضمانت دار ہوتا ہے۔ اچھا استاد اپنے طلبہ کے مزاج و منہاج سے واقف ہوتا ہے اور وہ طلبہ کی ذہن سازی اور کردار سازی کرتا رہتا ہے اور اگر وہ ایسا نہیں کرتا تو نسل کی تباہی کاذریعہ بن جاتا ہے۔ بدقسمتی سے اس وقت پورے نظام تعلیم کی یہی صورتِ حال ہے۔

غرض یہ کہ موجودہ دور میں ناقص تعلیم اور گرتے ہوئے معیار کی ذمہ داری طالب علم، معاشرہ، حکومت، اساتذہ، سرپرست، سوسائٹیز سب پر یکساں طور پر عائد ہوتی ہے۔ اسی طرح ہم سبھی قصوروار ہیں، ہم سبھی کو سنجیدگی سے اس نازک اور تباہ کن صورتحال پر غور بھی کرنا ہے اور اس صورت حال کی اصلاح کے لیے کوشش بھی کرنی ہیں۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146