جبریل علیہ السلام کے ذریعے پیغمبر آخر الزماں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سلم کی طرف پہلی وحی نازل ہوئی اس کا پہلا حروف’’اقرا‘‘ہے۔یعنی پڑھو۔ بچے کی پیدائش پر پہلا کام یہ ہو تا ہے کہ ایک کان میں اذان دی جاتی ہے اور دوسرے کان میں اقامت کہی جاتی ہے۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام میں علم کی اہمیت کتنی زیادہ ہے ۔ ایک اور مثال کے ذریعےعلم کی اہمیت کا پتہ چلتا ہے۔ حضرت ابودردہ رضی اللہ تعالی عنہ کےذریعے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: ’’جو علم دین سیکھنے کے لئے راستہ طے کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے لیے جنت کی راہ آسان کر دیتے ہیں ۔ فرشتے راستے میں پر بچھا دیتے ہیں۔ چونٹیاں اپنی بولوں میں اور مچھلیاں سمندر میں ان کے لئے دعائے خیر کرتی ہیں۔‘‘
مسلمان جب تک قرآن اور اسوہ رسولؐ کی روشنی میں علوم حاصل کرتے رہے اپنی ایجادات کے ذریعے سائنسی دنیا میں ہلچل مچا ئے رہے اور عالم افق پر روشن ستارےبن کر چمکے۔ انہوں نے یونانی فلسفیوں کی انمول و نادرکتب کا ترجمہ عربی میں نہ کیا ہوتا اور تحقیق نہ کی ہوتی تو ان روشن چراغون کی روشنی مدھم ہو جاتی۔
مسلمان سائنسدان اپنی دریافتوں کے ساتھ دنیا کے پردے پر ستاروں کی طرح ضو فشاں تھے۔اور دنیا کو مختلف علوم سے روشناس کراد یا تھا ۔ چند صدیوں بعد اپنی ہی کاہلی وکوتاہیوں کی وجہ سے سائنسی دنیا کے روشن راہوں سے آنکھیں پھیر لیں ۔ تحقیق و جستجو سے منہ موڑ لیا توعزت وتو قیر بھی روٹھ گئی ۔ دیگر اقوام نے مسلمانوں کی تحقیقی کاموں کی بنیاد پر عالیشان سائنسی عمارات کھڑی کر دیں ۔ چاند پر پہنچ گئے ، ستاروں پر کمندیں ڈال دیں مگر ہم ہیں کی لکیر کے فقیر بنے بیٹھے ہیں۔ شاعر مشرق سر محمد اقبال کہتے ہیں ۔
مگر وہ علم کے موتی کتابیں اپنے آباء کی
جو دیکھیں ان کو یورپ میں، تو دل ہوتا ہے دل سیپارہ
قرآن میں تقریباںپچاس ایسی آیات موجود ہیں جس پر خالق کائنات کی تخلیق کردہ اشیاء پر غور و خوص کرنے کی دعوت دی گی ہے۔ سائنسی وغیر سائنسی مضامین پر مزید تحقیق کرنے کی دعوت دی جارہی ہے ۔ مثلا آسمان پر چمکتے دمکتے سورج ،چاند، روشن سیتارے، کہکشاں ، زمین، آسمان ، پہاڑ ہوا، پیڑ پودے ،چرند پرندمجھے نیند وغیرہ وغیرہ ۔ قرآن اور حدیث پر عمل کرتے ہوئے کی لوگ تحقیقی کاموں میں لگ گئے اور پھر دنیا نے علم و فن کے میدان میں جو ارتقاء دیکھا وہ تاریخ کا حصہ بن کر رہ گیا ہے۔ البیرونی، ابن رشد، ابن الحیثم، ابن سینا اور رازی جیسے سیکڑوں لوگوں کی فہرست ہے جنھوں نے جدید علوم کی بنیاد رکھی۔
اللہ سبحان تعالیٰ نے انسان کو اشرف المخلوقات کا خطاب عطا کیا اور خلافت کے منصب پر نامزد کیا۔ پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یا جو ’’شخص علم کی راہ میں چلتا ہے اللہ اس کے لیے جنت کے راستے آسان کرد یتے ہیں۔‘‘
علم نور ہے۔ جس سے انسانی قلوب منور ہو کر خالق کائنات کے بتائے ہوئے راستے پر چلتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ’’اللہ سےوہی ڈرتے ہیں جو علم رکھتے ہیں ۔‘‘ سورہ فاطر میں آیا ہے’’ اللہ کی بڑائی وہی کرتے ہیں جو اللہ کی ذات سے خوف رکھتے ہیں۔ یہی لوگ کامیابی حاصل کرتے ہیں۔اللہ تعالیٰ نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے ہمارے ہاتھوں میں حصول علم کا اعلی نسخہ ء کیمیا دے دیا ہے ۔ یعنی ’’ربی زدنی علما‘‘ اے میرے رب ہمارے علما کو بڑھا۔ اس سے بہترین دعا علم کی زیادتی کے لیے اور کیا ہو سکتی ہے ۔ پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا علم کا حصول صرف مردوں ہی کے لیے مخصوص نہیں بلکہ عورتوں پر بھی علم کا حاصل کرنا فرض ہے ۔ ہمیں زمانۂ رسالت میں اعلیٰ مثالیں ملتی ہیں جہاں عورت مرد کے شانہ بشانہ علم حاصل کرتی رہی ہیں مثلا۔ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ سےجلیل القدر صحابہ کرام استفادہ کرتے تھے۔علم کی اہمیت پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ میں ملتی ہے۔ایک مرتبہ چند ایسے جنگی قیدیوں کو جو لکھنا پڑھنا جانتے تھے، حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شرط پر رہا کیا کہ وہ مسلمانوں کو لکھنا پڑھنا سکھادیں۔
ہماری قوم کا المیہ یہ ہے کہ سہولیات ہونے کے باوجود استفادہ نہیں کرتے۔ ان کے لیے سالم بن جہد رحمت اللہ علہ کا سبق آموز قصہ کافی ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’وہ ایک غلام تھے۔ ان کے آقا نے انہیں صرف تین سو درہم میں خریدا تھا ۔ چند سال بعد وہ آزاد کر دیے گے ۔ آزادی حاصل کرنے کے بعد حصول علم میں لگ گیے۔ معلمی کا پیشہ اختیار اکر لیا ۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ کچھ دن بعد خلیفۂ وقت ملاقات کے لیے میرے پاس آئے مگر میں نے ملنے سے انکار کر دیا ۔ اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ علم میں کتنی طاقت ہے ۔
آج کے حالات کے تحت قوم کے افراد کو چاہیے کہ سب مل کر علم کی طاقت کو مزید پنکھ لگا دیں وہ اسطرح کے تعلیم یافتہ اور وظیفہ یاب احباب اپنے وقت کا نذرانہ پیش کریں۔ اسکول سے ڈراپ آوٹ بچوں کی نشاند ہی کرکے سکول کی گود میں واپس لائیں اور تعلیمی پیش رفت میں مدد دیں۔ کامیابی کے لیے حمایت اورحوصلہ افزائی ضروری ہے ۔ہم میں ایک ایسا گروہ ضرور ہونا چاہئے جو ملت کا خیرخواہ ہو اور خیر خواہی کے عملی تقاضے بھی پورے کرتا ہو۔ ہر کوئی اپنے لئے جیتا ہے۔ دوسروں کے لیے بھی جینا سیکھ لو۔ صاحب ثروت لوگ مل کر ایسے ادارے بنائیں جہاں ہونہار بچوں کی نشا ند ہی ہو۔ مختلف مقابلہ جاتی امتحانات میں حصہ لینے کے لے تیار کریں تاکہ آگے چل کر قوم ملت و وطن کا نام روشن کریں۔