تعلیم و تربیت میں گھر و استاد کا رول

ڈاکٹر نادیہ سلیم

مسز آصف جب بھی اپنے دونوں بچوں کو اسکول کا ہوم ورک کرانے کے لیے بیٹھتیں تو ان کا رویہ سخت ہوجاتا۔ وہ بات بات پر اپنے بچوں کو ڈانٹتیں اور جلدی کام نہ کرنے کی وجہ سے دوسروں کا حوالہ دے کر شرمندہ کرتیں۔ مسز آصف خود بھی اسکول ٹیچر ہیں۔ اسکول میں بھی ان کا رویہ اپنی کلاس کے کچھ بچوں کے ساتھ تکلیف دہ ہوتا ہے اور وہ مار پیٹ بھی کرتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے۔
مسز آصف کے غصیلے رویے کی وجہ سے ان کا گیارہ سال کا بیٹا کچھ عرصہ سے پڑھائی میں دلچسپی نہیں لے رہا تھا۔ وہ گم سم رہنے لگا تھا۔ مسز آصف نے مجھے بتایا کہ اسکول کے ماہانہ ٹیسٹوں کے وقت یہ بیمار ہوجاتا ہے، سالانہ امتحان کے دوران اسے بخار ہوجاتا ہے، دل کی دھڑکن تیز ہوجاتی ہے۔ ایسے ہی بخاری کی حالت میں پرچہ دینے بھجواتی ہوں، یا پھر کبھی کبھار ٹیچر سے سفارش کرکے کسی دوسرے دن پرچہ حل کرواتی ہوں۔ پڑھائی میں اس کی دلچسپی اتنی کم ہوچکی ہے کہ جو سبق اس کی چھوٹی بہن پندرہ منٹ میں یاد کرتی ہے، وہ ڈھائی گھنٹے میں یاد کرتا ہے اور وہ بھی مار کھاکر۔
دراصل والدین کا رویہ بچوں کی اس حالت کا ذمہ دار ہوتا ہے لیکن کہہ نہ سکی کیوں کہ بعض عورتوں میں سچ سننے کی ہمت نہیں ہوتی۔ وہ کسی بھی صورت میں اپنی غلطی تسلیم نہیں کرتیں۔ اُن کا بچہ ان کے رویے کی وجہ سے نفسیاتی الجھن کا شکار ہوچکا تھا۔ دراصل یہ ایک طالب علم کے اندر پیدا ہونے والی بے چینی، تشویش اور گھبراہٹ ہے جو وہ امتحان میں فیل ہونے کے خوف سے باعث محسوس کرتا ہے۔ اس کے علاوہ اساتذہ اور والدین کی جانب سے بے عزتی، مارپیٹ اور تنہائی کے خوف یا دباؤ کی وجہ سے ایسا کرتا ہے۔
بچے کی یہ کیفیت گھریلو ماحول، والدین کے جذباتی اور شعوری رویے یا اپنی ذات سے کسی قسم کے منفی خوف کی وجہ سے بھی ہوسکتی ہے۔ کسی کام کو کرنے میں ناکامی بچوں کو مایوسی کے اندھیروں میں دھکیل سکتی ہے۔ زندگی میں ایک مرحلہ ایسا بھی آتا ہے کہ والدین کے رویے سے بچوں میں اضطراب پیدا ہوجاتا ہے۔ بچے کا والدین اور دیگر افراد سے ڈرنا، نشوونما کی عمر کے تناظر میں مناسب بات ہے، مگر ڈر یا خوف کا حد سے بڑھ جانا کسی طرح بھی درست نہیں۔
اس بچے کو گھر میں کبھی ماں کا دوستانہ رویہ نصیب نہیں ہوا تھا۔ ماں اس کے ہر سوال کا جواب غصے سے دیتی تھی۔ اس طرح اسکول میں جب کوئی دوسرا بچہ شرارت کرکے اس کا نام لگاتا تو ٹیچر کے سخت رویے کا سامنا بھی اسے ہی کرنا پڑتا۔
شروع میں اس نے اپنے دفاع کے لیے بولنا چاہا مگر اسے غلط ثابت کردیا گیا۔ اس رویے سے وہ سہم گیا۔ اس کی دل آزاری کو کسی نے محسوس کرنے کی کوشش نہیں کی۔ ماں اور ٹیچر کے رویے نے اسے پڑھائی سے خوف زدہ کردیا۔ گھر میں صرف ماں ہی نہیں بہن کا نفرت بھرا رویہ بھی اسے مایوس کرتا ہے۔ اس نے باپ سے شکایت کی تو وہاں سے بھی ڈانٹ کھائی کہ نکمے بچوں کے ساتھ ایسا ہی سلوک کیا جاتا ہے۔ وہ محبت اور شاباشی کو ترستا رہا۔ کسی نے اس کی حوصلہ افزائی نہیں کی جس کی وجہ سے وہ نفسیاتی طور پر متاثر ہوا کہ کسی نے اسے سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کی۔
بچوں کی تربیت کوئی آسان کام نہیں۔ گھر سے نکل کر بچہ جب ایک معاشرے میں رہنا شروع کرتا ہے تو اس کا پہلا راہنما والدین کے بعد استاد ہوتا ہے۔ اگر استاد بچے کی صحیح اور درست طریقے سے رہنمائی کرے تو بچے کی شخصیت میں پختگی اور اعتماد پیدا ہوتا ہے۔
بدقسمتی سے ہمارے اساتذہ اپنی پیشہ وارانہ اور معاشرتی ذمہ داریوں کا احساس مشکل ہی سے کرتے نظر آتے ہیں۔ ایک استاد جہاں معاشرے کے مستقبل کے خدوخال کو وضع کررہا ہوتا ہے، وہیں اسے ہر لمحہ اور ہر وقت اپنے منصب کا لحاظ رکھنا چاہیے تاکہ طالب علم ا سکے نقشِ قدم پر چلنے کے متمنی ہوں۔ بالخصوص اسکول کی سطح پر اساتذہ بہت نرم و نازک نوخیز کلیوں کی مانند بچوں کی تدریس کے فرائض سرانجام دے رہے ہوتے ہیں۔ ایسے میں انھیں اپنے مضمون اور نصاب کے حوالے سے مکمل عبور کے ساتھ ساتھ بچوں سے اپنے رویے اور تعلق کا خصوصی خیال رکھنا چاہیے۔
ایک استاد کا منصب اس سے یہ تقاضا کرتا ہے کہ وہ ہر بچے کے مزاج اور طبیعت کے مطابق رویہ رکھے اور تمام طلبہ کو ایک ہی لاٹھی سے نہ ہانکے۔ ایک ہی جماعت اور عمر کے ہر بچے کی نفسیات، ذہنی صلاحیت اور شخصیت دوسرے سے بالکل جدا ہوتی ہے۔ استاد کی ذرا سی غفلت اور کوتاہی بعض اوقات کسی بچے کی شخصیت کو بری طرح متاثر کرتی ہے یا اس کی صلاحیتیں بالکل ضائع ہوجاتی ہیں۔
اسکول کی سطح پر تعلیم کے حوالے سے بنیادی مسئلہ کوئی سبق یاد نہ ہونا یا کوئی کام نہ کرکے لانا ہوسکتا ہے۔ اب یہ استاد کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے ہر طالب علم سے بالکل اسی کے مزاج کے مطابق بات کرے۔ ایک بہت شریر بچے کے ساتھ روا رکھا جانے والا سلوک ایک سیدھے سادے یا حساس طالب علم کے ساتھ روا رکھا جائے تو وہ نفسیاتی طور پر شدید متاثر ہوگا۔ اس کا رہا سہا اعتماد پاش پاش ہوکر اسے آئندہ کی بہتر کارکردگی سے محروم کردے گا، اور کچھ بعید نہیں کہ وہ تعلیم سے ہی بیزار ہوجائے۔
اس طرح کے کم گو یا خود اعتمادی سے محروم بچے ہی دراصل ایک استاد کی صلاحیتوں کا امتحان ہوتے ہیں۔ ایک اچھے استاد کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس طرح کے بچوں سے ان کے مزاج کے عین مطابق سلوک کرے اور ان کی سرزنش کرنے سے پہلے ذرا پرشفقت انداز میں ان کی ناکامی کو جاننے اور سمجھنے کی کوشش کرے۔ ہوسکتا ہے کہ وہ اپنا سبق سمجھ ہی نہ سکا ہو، یا کل سارا دن ٹیسٹ یاد کرنے کے باوجود یاد نہ کرپایا ہو۔
ایسے میں اگر استاد، طالب علم کے اس حقیقی مسئلے کا ادراک نہ کرسکے اور اسے قصور وار قرار دے کر سختی کرے تو بچہ نہ صرف تعلیمی سفر میں مشکلات سے دوچار ہوگا بلکہ عملی زندگی میں بھی مسائل کا شکار رہے گا۔ استاد کے لیے اپنے شاگردوں کے مسائل کو صحیح طور پر سمجھنا اور ان کادرست حل تلاش کرنا بہت ضروری ہے۔
والدین کے بعد دنیا کے سب سے معزز رشتے کے روپ میں استاد پر تربیت کی بھی بہت بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ استاد اگرچہ تن تنہا بچے کی تربیت و تعلیم کا ذمہ دار نہیں، تاہم اگر وہ اپنے اس فرض سے لاپروائی برتتا ہے تو اس کا بہت زیادہ اثر پڑتا ہے۔
بہرحال والدین کا بھی فرض ہے کہ بچوں کے ساتھ دوستانہ رویہ رکھیں۔ بچے کے اچھے کاموں پر اس کو شاباشی دینا اور حوصلہ افزائی کرنا بھی اس کی شخصیت کو نکھارنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ آپ کے خوش گوار رویے سے وہ اپنا کام جلدی کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ بچے کی تنہائی اور اکیلے پن کو دور کرنا والدین کا فرض ہے۔ ایک ساتھ گپ شپ کریں۔ اس سے بچے کے ذہنی رجحان کا اندازہ ہوگا اور سمجھنے میں آسانی ہوگی۔ اپنا غصہ، چڑچڑاپن، بچے پر نہ نکالیں، کیونکہ بچے کی بھرپور شخصیت صرف ماں ہی بناسکتی ہے۔
——

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146