علم انسان کی بنیادی ضرورت ہے اور یہ ضرورت پہلے انسان آدم علیہ السلام کی تخلیق سے لے کر آج تک قائم ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جب انسان اول حضرت آدم علیہ السلام کو پیدا کیا تو ان کو علم (یعنی چیزوں کے نام) دیا۔ اس بات کو قرآن میں اس طرح بیان کیا گیا ہے:
وَعَلَّمَ آدَمَ الْاَسْمَائَ کُلَّہَا ثُمَّ عَرَضَہُمْ عَلٰی الْمَلَائِکَۃِ…۔
’’اور اس (اللہ) نے آدم کو تمام چیزوں کے نام سکھادیے پھر انہیں فرشتوں کے سامنے پیش کیا۔‘‘
گویا اللہ تعالیٰ علم سکھا کر حضرت آدم کی ذات کی تکمیل فرمائی۔ حقیقت یہ ہے کہ انسان کی شخصیت کی تکمیل ہی علم کے ذریعہ ہوتی ہے اور ہمارے دور میں بھی اور سابقہ زمانے میں بھی علم کے حصول کا معروف ذریعہ سیکھنا ہی رہا ہے، جسے تعلیم کہا جاتا ہے۔ یہ تعلیم انسان کی ذاتی، سماجی، معاشی، دینی اور معاشرتی ذمہ داری ہے۔ اس سے آگے بڑھ کر یہ انسان کی ایسی ضرورت ہے جس کے بغیر وہ باوقار زندگی نہیں گزارسکتا۔
موجودہ زمانے کو دیکھیں۔ یہاں جو بھی ترقیات، ایجادات اور ٹکنالوجی آج ہمیں میسر ہے وہ اسی علم کا فیض ہے۔ اور یہ علم ہمیں رائج الوقت نظامِ تعلیم سے حاصل ہوا ہے۔ جو انسانوں کو اس لائق بناتا ہے کہ وہ سائنس و ٹکنالوجی کا ایک طرف تو درست استعمال کرنا سیکھیں دوسری طرف اس کائنات کے پردے سے نئے نئے انکشافات کرے۔
تعلیم کے سلسلے میں ہمارے سماج میں عام طور پر اور مسلم سماج میں خاص طور پر بڑی لاپرواہی پائی جاتی ہے۔ خاص طور پر غریب اور مفلوک الحال لوگوں کی تو تعلیم تک رسائی ہی نہیں ہے۔ غریب والدین سوچتے ہیں کہ اگر وہ اپنے بچے کو اسکول پڑھنے بھیجتے ہیں توایک طرف تو انہیں اسکول کی فیس اور کاپی کتابوں کے اخراجات برداشت کرنے پڑیں گے، اس کے ساتھ ساتھ وہ آمدنی جو ان کا بچہ کماکر لاتا ہے، خواہ وہ کم ہی ہو، ختم ہوجائے گی۔ یہ ایک افسوسناک صورتِ حال ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خطِ غربت سے نیچے زندگی گزارنے والے اسی کروڑ سے زیادہ لوگ تعلیم کی حقیقی اہمیت سے واقف نہیں۔ ان کے نزدیک تعلیم کا کوئی نہ تو مقصد ہے اور نہ نظریہ۔ بچے مفت میں گرتے پڑتے جو پڑھ لیں اور جہاں تک پڑھ لیں بس کافی ہے۔ لیکن اس کے لیے وہ کوئی کوشش، منصوبہ بندی یا جدوجہد کرنے کے لیے تیار نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے ملک کے ۳۶ کروڑ انسان آج کے تعلیم یافتہ دور میں بھی ’’انگوٹھا ٹیک‘‘ یعنی بالکل ناخواندہ ہیں۔ کیا آپ یقین کریں گے کہ ہمارا ملک دنیا کے ایک تہائی سے زیادہ ان پڑھ اور ناخواندہ لوگوں کا بوجھ اپنی پیٹھ پر ڈھورہا ہے۔ اور حیرت انگیز بات یہ ہے کہ دنیا کے ان ناخواندہ افراد میں اکثریت خواتین کی ہے۔ یہ بات سمجھنے میں آپ کو اس لیے دشواری نہیں ہوگی کہ آپ خود اپنے آس پاس کے ماحول میں بڑی تعداد میں ناخواندہ اور اَن پڑھ خواتین کو دیکھتے ہیں۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم سماج کو تعلیم کے سلسلے میں بیدار کریں اور اسے تعلیم کی اہمیت سے واقف کرائیں۔ مسلمان کیونکہ خاص طو رپر تعلیم کے میدان میں پیچھے ہیں۔ اس لیے انہیں ’’اقرأ‘‘ کا سبق پھر سے سکھانے کی ضرورت ہے۔
——