عہدِ جدید سائنسی اور تعلیمی اعتبار سے ایک مہذب ترقی یافتہ دور مانا جاتا ہے اور یہ بہت حد تک درست بھی ہے۔ لیکن جہاں تک تعلیمی قدروں کا تعلق ہے یہ حقیقت روزِ روشن کی طرح عیاں ہوچکی ہے کہ مروجہ تعلیم سے نئی نسل کو جہاں نئی روشنی ملی اور اس کے خیالات و افکار میں تبدیلی آئی ہے، وہیں اس کے عمل و کردار میں جہالت اور وحشت کا عنصر نمایاں نظر آنے لگا ہے۔ علم انسان کو قدرت کاعطا کیا ہوا بیش قیمت تحفہ ہے جس کا مقصد انسانی ذہن اور قلب و فکر میں پاکیزگی پیدا کرنا ہے۔ انسانی اخلاق و عادات کی تعمیر وبلندی جائز و ناجائز چیزوں میں تمیز کرنا، غرض کہ زندگی کے ہر شعبہ میں نظم و ضبط اور شائستگی پیدا کرنا ہوتا ہے لیکن حالات اس کے برعکس نظر آتے ہیں۔ آج جہاں ہم نئی نسل کو تعلیم کی جانب پیش رفت کرتے ہوئے دیکھتے ہیں اس سے کئی گناہ زیادہ تیز رفتار سے وہ اخلاقی پستی کی جانب رواں دواں دکھائی پڑتی ہے۔ فی الوقت اس مسئلے کو چھیڑنے سے ہمارا مقصد صرف مسلم معاشرے میں پروان چڑھنے والے غیر اسلامی رسوم ورواجوں کی جانب نوجوان تعلیم یافتہ طبقہ کی توجہ مبذول کرانا ہے۔ نہ جانے کیسی کیسی عجیب و غریب رسمیں مسلم معاشرے میں چلی آرہی ہیں اور آج بھی ہم انہیں پوری قوت سے جاری رکھے ہوئے ہیں۔ شادی، بیاہ، موت، بچے کی پیدائش مختصراً خوشی و غم کے ہر موقع پر ایسی فرسودہ رسمیں ادا کی جاتی ہیں جنھیں دیکھ کر باوجود ضبط کے ہنسی تو آہی جاتی ہے اور افسوس بھی ہوتا ہے۔ حالانکہ غم وخوشیاں منانے کے لیے اسلام نے بڑی مستحکم ہدایات دی ہیں اور ان میں اتنی آسانیاں و سہولتیں مہیا کی گئی ہیں کہ ہر غریب سے غریب اور امیر سے امیر آدمی بھی انہیں بہتر طریقے سے اچھے انداز میں انجام دے سکتا ہے۔
دوسروں کی طرح ہمارے یہاں بھی یہ وبا عام ہوتی چلی جارہی ہے کہ شادی کے ہر رشتے و پیغام کو سب سے پہلے دولت کی کسوٹی پر پرکھا جانے لگا ہے۔ لڑکی یا لڑکے کے اخلاق و عادات، چال چلن ماحول و مزاج کو دانستہ طور پر نظر انداز کردیا جاتا ہے۔ دولت و شہرت پر نظریں جمالی جاتی ہیں۔ اکثر لڑکی والوں سے روپیہ طلب کیا جاتا ہے اور یہی روپیہ جو بیچارے لڑکی والے دینے پر مجبور ہوتے ہیں لڑکے والے سجاوٹ اور شہرت پر خرچ کرڈالتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں لڑکے والے اپنے بچے کی پرور ش و تعلیم کی قیمت وصول کرلیتے ہیں۔ شادی میں فریقین ایک دوسرے سے روپیہ طلب کرکے اپنی خودداری و غیرت کو بیچ دیتے ہیں جو کوئی خوددار غیرت مند تعلیم یافتہ انسان برداشت نہیں کرے گا۔ اگر باپ صاحبِ حیثیت ہے تو یقینا اچھے انداز میں شادی کیجیے، کھانا دیجیے، ورنہ ضروری نہیں اس کے لیے قرض لیا جائے یا ایک دوسرے کی دولت پر نظریں رکھی جائیں۔ شادی کے لیے لڑکی کو صرف دینداری، وفاشعاری، شرم و حیا، اخلاق وعادات اور اچھے ونیک اوصاف کی کسوٹی پر پرکھنا چاہیے۔ یہ بات یقین کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ تعلیم یافتہ مسلم نوجوان لڑکے لڑکیاں ہی موجودہ غیر اسلامی فرسودہ رسوم و رواجوں کی زنجیر کو توڑسکتے ہیں۔ شرط صرف مخلصانہ کوشش و جدوجہد کی ہے۔ اول تو صرف آپ اپنے گھر میں، خاندان میں فضا ہموار کریں۔ والدین اور خاندان کے بڑے بزرگوں کو محبت و شائستگی سے سمجھائیں کہ آپ کے والدین خاندان والے آپ کی بات نہ ٹالیں کیونکہ آپ ایک اچھی بات کہہ رہے ہیں اور تعلیم یافتہ ہونے کی وجہ سے گھر، خاندان میں آپ کی منفرد حیثیت ہے۔ اگر آپ کے والدین، خاندان کے لوگ آپ کو ان غیر اسلامی خلاف شرع رسوم و رواجوں کے جال میں کودنے پر مجبور کریں تو ہمارے خیال میں شادی آپ کی ہورہی ہے، آپ کے والدین اور خاندان والوں کی نہیں۔