یہ۱۹۰۴ء کی بات ہے۔ شمالی برلن کے ایک اصطبل کے صحن میں ٹھیک دوپہر کے وقت نو سال کا گھوڑا لایا جاتا ہے، اس کا نام ہینس (Hans) تھا۔ نفسیات دانوں، ماہرینِ تعلیم اور دانشوروں کا ایک منتخب گروہ وہاں موجود ہوتا۔ اس نوبرس کے گھوڑے کے حیران کن کمالات کی اتنی دھوم مچی کہ خود قیصر جرمنی بھی اسے دیکھنے اور اس کا امتحان لینے بنفس نفیس وہاں پہنچا۔
برلن کے اخباروں میں اس گھوڑے کے بارے میں شہ سرخیوں میں تفصیلی خبریں شائع ہوئیں: ’’گھوڑا جو موسیقی اور ریاضی میں دسترس رکھتا ہے…‘‘
نیویارک ٹائمز نے اپنے پہلے صفحے پر شہ سرخی جمائی:’’برلن کا عجوبہ گھوڑا، جو بولنے کے سوا ہرکام کرسکتا ہے۔‘‘
نوبرس کے ہینس سے جب ریاضی کے موضوع پر کوئی سوال کیا جاتا تو وہ زمین پر اپنے کھر مار کر اس کا جواب دیتا۔ اسی طرح وہ اپنے کھروں سے زمین پر لفظ لکھ کر سوال کا جواب دے سکتا تھا۔ مغربی موسیقی کے تمام راگوں اور راگنیوں کے بارے میں اس کی واقفیت اور شناسائی کی یہ کیفیت تھی کہ اس کے سامنے جو بھی راگ بجایا جاتا وہ اس کا نام اپنے کھروں سے زمین پر لفظوں میں لکھ کر بتادیتا۔ بہت سے ایسے سوال جن کے جواب میں ’’ہاں‘‘ یا ’’نہیں‘‘ کہنے کی ضرورت ہوتی، ان کا جواب وہ اپنے سر کو نفی یا اثبات میں ہلاکر دیتا تھا۔
نو برس کا ہینس ایک ایسا گھوڑا تھا کہ اپنے مالک اسکول ٹیچر آسٹین کی عدم موجودگی میں بھی لوگوں کے سوالات کے صحیح جواب دینے کی صلاحیت رکھتا تھا۔ بعض معترضین اور ناقدین جن کا یہ خیال تھا کہ گھوڑے اور اس کے مالک کے درمیان کوئی خفیہ اشارہ یا طریقہ کار طے پاچکا ہے اس لیے گھوڑا ہر سوال کے جواب کے لیے اپنے مالک کی طرف دیکھ کر خفیہ اشارے یا طریقہ کار کے حوالے سے صحیح جواب دیتا ہے، ان معترضین اور ناقدین کو بھی اپنے اعتراضات واپس لینے پڑے کیونکہ ہینس اپنے مالک کی عدم موجودگی میں بھی ریاضی کے جمع، تفریق، ضرب اور تقسیم کے سوال حل کردیتا تھا۔ ان کا جواب کھروں کو زمین پر مار کر یا کھروں سے اعداد لکھ کر سوال پوچھنے والے کی تشفی کردیتا۔
دنیا کے اس عجوبہ گھوڑے میں یہ صلاحیت بھی تھی کہ وہ بارہ مختلف رنگوں اور شیڈز میں تمیز کرسکتا تھا۔ اس کے سامنے بارہ مختلف رنگ اورشیڈ رکھ کر کسی ایک رنگ کو علیحدہ کرنے کے لیے کہا جاتا تو وہ مطلوبہ رنگ ان رنگوں میں سے علیحدہ کردیتا تھا۔
انتہائی حیران کن اور چکرا دینے والی حقیقت یہ تھی کہ نوبرس کا گھوڑا ہینس انسان کی زبان سمجھتا تھا اگرچہ خود بول نہیں سکتا تھا۔
نفسیات دانوں، ماہرینِ طب، دانشوروں، اور استادوں کے سامنے اس نے بارہا اپنی عجیب و غریب صلاحیتوں کا مظاہرہ کرکے سب کو حیرت زدہ کردیا۔
ایک بات البتہ طے شدہ تھی کہ وہ صرف اور صرف جرمن زبان سمجھتا تھا۔ اگر اس کوانگریزی، برطانوی، ہسپانوی یا کسی بھی دوسری زبان میں کوئی کام کرنے کے لیے کہا جاتا تو وہ خاموش کھڑا رہتا۔
اس کے مالک اور اتالیق آسٹین نے اس سلسلے میں وضاحت کی تھی کہ ہینس کی ساری تربیت جرمن زبان میں کی گئی ہے۔ وہ جرمن زبان کے سوا دنیا کی اور کسی زبان کا ایک لفظ بھی نہیں سمجھتا۔ آسٹین کا دعویٰ تھا: ’’میرا گھوڑا ہینس اس طالب علم کی طرح پڑھا لکھا ہے،جو اسکول میں باقاعدہ تعلیم حاصل کرتا اور بے حد ذہین ہوتا ہے۔‘‘
یوں اس کا مالک اور اتالیق یہ باور کرانا چاہتا تھا کہ ہینس دراصل ایک عام قسم ہی کا گھوڑا ہے۔ اگر وہ عجوبہ قسم کی حرکات کرتا ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ اسے اس کی تعلیم اور تربیت دی گئی ہے اور یہ فرض خود اس نے انجام دیا تھا۔
برلن یونیورسٹی کے اساتذہ اور علم الحیوانات کے ماہرین نے مہینوں اس گھوڑے پر اپنے اپنے انداز میں تجربات کیے لیکن ان میں سے کوئی بھی یہ راز نہ جان سکا کہ ہینس کس طرح سوالوں کے جواب، راگوں کے نام اور رنگوں کی پہچان کا علم رکھتا ہے۔
ہینس کے مالک اور اتالیق آسٹین نے یہ کبھی دعویٰ نہیں کیا کہ اس کا گھوڑا ’’بے پناہ صلاحیتوں‘‘ کا مالک اور متعدد علوم پر دسترس رکھتا ہے۔ اس نے ہمیشہ اس بات پر اصرار کیا کہ ہینس محدود صلاحیتوں کا مالک ہے۔ وہ ریاضی میں جمع، تفریق، تقسیم اور ضرب کے آسان اور مشکل ترین سوال حل کرسکتا ہے۔ اس کے علاوہ وہ ریاضی کے دوسرے سوال حل نہیں کرسکتا۔ وہ جرمن موسیقی کے راگوں اور راگنیوں سے پوری طرح واقف ہے لیکن دوسرے ملکوں کی موسیقی کی اسے کوئی پہچان نہیں، اس لیے صرف جرمن راگ اور راگنیاں سن کر وہ ان کے نام اپنے کھروں سے لکھ کر بتا سکتا ہے۔ رنگوں اور ان کے شیڈوں کے بارے میں البتہ ہینس کا علم مکمل تھا۔ رنگ اور ان کے شیڈ تعداد میں بارہ بنتے ہیں اور وہ سب رنگوں میں تمیز کرسکتا تھا۔
’’ہاں‘‘ یا ’’نہیں‘‘ میں دیے جانے والے سوالوں کا دائرہ بھی محدود تھا۔ اگر اس سے پوچھا جاتا ’’تم خوش ہو؟ چارہ پیٹ بھر کر کھایا ہے؟ تم رات کو جاگتے رہتے ہو؟ ‘‘تو ایسے آسان اور ذاتی قسم کے سوالوں کا جواب وہ اپنے سر کو نفی یا اثبات میں ہلاکر دیتا تھا۔ اس سے زیادہ مشکل سوالوں کے جواب دینا اس کے بس میں نہیں تھا۔
ہینس کے استاد اور مالک آسٹین نے اسے اتنی ہی تعلیم دی تھی اور اس تعلیم و تربیت کے امتحان میں وہ ہر بار کامیاب ہوا تھا۔ آسٹین نے اپنے گھوڑے ہینس کو اس وقت سے تربیت دینی شروع کردی تھی جب اس کی عمر صرف چار ماہ تھی۔ جب وہ نو برس کا ہوا تو اس کی تعلیم مکمل ہوچکی تھی اور اس کی تعلیم و تربیت کا امتحان لینے کے لیے اسے برلن یونیورسٹی اور شہر کے نفسیات دانوں، علم الحیوانات کے ماہرین اور دانشوروں کے سامنے پیش کردیا گیا۔
آسٹین کے دعوے کو جھٹلایا نہیں جاسکتا تھا کیونکہ اس کا زندہ ثبوت ہینس موجود تھا۔ لیکن نفسیات داں، علم الحیوانات کے ماہرین اور دانشور سمجھتے تھے کہ جس کارکردگی کا مظاہرہ ہینس کرتا ہے، وہ اپنی جگہ خود ایک بڑا حیران کن فعل ہے۔
ہینس کے معلم اور مالک آسٹین نے بتایا کہ اس کی گھوڑی نے یہ بچہ جنم دیا تو وہ اسے بہت پسند آیا۔ اس نے اس کا نام ہینس رکھ دیا جو جرمن زبان کا عام اور معروف نام ہے۔ وہ اس کے ساتھ فرصت کے اوقات میں کھیلا کرتا تھا۔ کھیل کود کے ایسے ہی ایک لمحے میں آسٹین کو خیال آیا کہ اسے اپنے گھوڑے کو پڑھانا چاہیے۔ آسٹین پیشے کے اعتبار سے استاد تھا اور گزشتہ اٹھارہ برس سے ایک اسکول میں طالب علموں کی تعلیم و تدریس کے فرائض انجام دے رہا تھا۔ اس کی تدریسی صلاحیتوں کا سب اعتراف کرتے تھے کیونکہ اس نے یہ گر سیکھا اور آزمایا تھا کہ طالب علموں کے سامنے جو بات بار بار دہرائی جائے وہ ان کے ذہنوں میں ہمیشہ کے لیے محفوظ ہوجاتی ہے۔ اسے وہ کبھی فراموش نہیں کرسکتے۔ اسی اصول کو اس نے ہینس پر آزمانے کا فیصلہ کیا اور جب وہ چار ماہ کا تھا تو اس کی تعلیم کا آغاز ہوا۔ آسٹین نے اعتراف کیا کہ اگر اس میں دو خوبیوں کا فقدان ہوتا تو وہ کبھی کامیاب نہ ہوسکتا تھا۔ اس میں ایک خوبی یہ تھی کہ وہ پیشہ ور اور تجربہ کار استاد تھا۔ دوسری خوبی یہ تھی کہ وہ بہت متحمل اور بردبار انسان تھا۔ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ایک گھوڑے کو ایک زبان سکھانے، راگوں اور راگنیوں کا فرق، رنگوں کی پہچان اور ریاضی کے سوال سمجھانے میں آسٹین کو کتنی دقتوں کا سامنا کرنا پڑا ہوگا۔ آسٹین پر کئی بار ایسے لمحے آئے کہ اس نے مایوس ہوکر اپنا ارادہ ترک کرنے کا فیصلہ کرلیا، لیکن اس نے اپنے گھوڑے ہینس کے سامنے کبھی اپنی جھنجھلاہٹ اور مایوسی کو ظاہر نہیں ہونے دیا۔
آسٹین کا دعویٰ ہے کہ اس نے ایک باربھی غلطی کرنے پر ہینس کو سزا نہیں دی۔ ایک ایک سوال کو وہ بار بار، سیکڑوں اور ہزاروں بار اس کے سامنے مختلف انداز میں دہراتا۔ جب تک ہینس غلطی کرتا، وہ ہر سوال دہراتا رہتا۔ جب گھوڑا صحیح جواب دے دیتا تو وہ انعام میں اسے روٹی کا ٹکڑا یا شکر کی ڈلی دیتا۔ یوں آسٹین اور ہینس کے درمیان باہمی مفاہمت طے پاگئی۔
ہینس سمجھ گیا کہ جس جواب پر اسے انعام میں شکر کی ڈلی یا روٹی کا ٹکڑا دیا جاتا ہے، وہ صحیح جواب ہے۔ یوں اس نے اپنے ذہن میں ان صحیح جوابات کو ہمیشہ کے لیے محفوظ کرلیا۔
ہینس نامی یہ عجوبہ گھوڑا اپنے زمانے میں بین الاقوامی شہرت کا مالک بنا۔ اس پر شاعروں نے نظمیں اور گیت لکھے۔ اس کے بارے میں لوک گیتوں نے جنم لیا۔ اس کے تصویری پوسٹ کارڈ پوری دنیا میں پھیلے۔ مختلف اشیائے ضرورت کے نام ہینس کے نام پر رکھے گئے اور ان کے پیکٹوں اور لیبلوں پر اس کی تصویریں شائع کی گئیں۔ بچوں کے لیے اس کے ہم شکل کھلونے بنائے گئے جو ساری دنیا کے بچوں میں مقبول ہوئے۔بعض ماہرین لسانیات کا کہنا ہے کہ انگریزی زبان میں Horse Sense کی ترکیب جرمنی سے آئی ہے اور اس کا منبع ہینس عجوبہ گھوڑے کی ذات تھی۔
دنیا کے اس عجوبہ گھوڑے نے محض ساڑھے تیرہ برس عمر پائی۔ وہ ایک عام گھوڑا تھا لیکن ساڑھے چار برس تک پوری دنیا میں اس کا نام گونجتا رہا اور اب بھی اس کا شمار دنیا کے عجوبہ حیوانات میں کیا جاتا ہے۔
مغربی دنیا کی تاریخ میں تین گھوڑوں کو بہت شہرت ملی ہے۔ ان میںایک گھوڑاتو سکندر اعظم کاتھا جس کانام بیوی فیلس تھا اور جو سکندر اعظم کی مہمات میں اس کی سواری بنا اور جس کی موت پر سکندر اعظم نے ماتم کیاتھا۔ دوسرا گھوڑا اطالوی آمر اور شہنشاہ کالیگولا کا تھا جو اسے بے حد عزیز تھا۔ انسانی تاریخ میں اس گھوڑے کے حوالے سے جو حماقت کی گئی، وہ اپنی مثال آپ ہے۔ شہنشاہ کالیگولا نے اپنے عزیز اور چہیتے گھوڑے کو اطالوی سینٹ کا رکن بنادیا تھا۔
تیسرا گھوڑا یہی ہینس ہے، جو ’’تعلیم یافتہ گھوڑا‘‘ مشہور ہوا۔ وہ ساڑھے تیرہ برس کا تھا جب ایک رات اسے سردی لگی۔ دوسرے دن کی شام تک وہ مر گیا۔ اس کی موت کی خبر دنیا بھر میں پھیل گئی۔
اس کے معلّم اور اتالیق آسٹین کو اپنے پیارے ہینس کی موت کا بہت صدمہ ہوا۔ ڈیڑھ برس بعد وہ بھی اس دنیا سے رخصت ہوگیا۔
(مرسلہ اقبال احمد ریاض، اردو ڈائجسٹ سے ماخوذ)
——