ہے وہ سالارِ عرب، فخرِ عجم، میرِ حرم
جس کی آمد سے فزوں تر ہوئی توقیرِ حرم!
ابن آدم کے دکھوں کا ہے مداوا اس میں
خاص پیغامِ شفا، نسخۂ اکسیرِ حرم!
حرف حرف اس کا ہے آئینہ اسرارِ قدم
کیسی پُر مایۂ وپرنور ہے تحریر حرم!
اس کا ہر نقشِ دل آویز ہے جانِ ہستی
ہم نے سینے میں سجا رکھی ہے تصویرِ حرم!
جاں سپاری کی روایت ہے اسی کا عنواں
سرخیِ خوں سے لکھی جاتی ہے تفسیرِ حرم!
خوابِ ہستی تو ہے اِک خوابِ پریشاں کی طرح
چشمِ بینا کو جِلا دیتی ہے تعبیرِ حرم!
ہر بُنِ مو سے نکلتی ہے صدائے لبیک
کیسے روحوں میں نمو پاتی ہے تاثیرِ حرم!
کبھی ظلمت غمِ ہستی کی نہ آئی نزدیک
جب سے آنکھوں میں بسا لایا ہوں تنویرِ حرم!
سادگی ایسی، اور اس پر یہ جلالت احسنؔ
منفرد سارے زمانے میں ہے تعمیرِ حرم!