معاشرتی زندگی کا سب سے اہم پہلو ازدواجی زندگی ہے، جس میں ایک مرد اور ایک عورت کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ اس کے یوں تو کئی پہلو ہیں مگر سب سے اہم پہلو افزائش نسل اور جنسی تسکین ہے اور اس جنسی تسکین کے لیے بے راہ روی سے محفوظ رہنے اور ایک دوسرے کے وفادار، جانثار، غم خوار۔ساتھی بنے رہنے کے لیے سماجی نظام کے تحت نکاح ایک ایسا مضبوط بندھن ہے جو زوجین کی زندگی کی آخری سانسوں تک قائم رہتا ہے۔ جوہر بسر کی لازمی اور انتہائی ضرورتوں میں سے ایک لازمی ضرورت ہے۔
خدائے لم یزل نے جب اس کائنات کو پیدا کیا تو آدم کی تخلیق کی اور جو ڑے کے نظام کے تحت حوا کو پیدا کیا گیا۔ پھر ان کی تمام خواہشوں کی تکمیل اور افزائش نسل کے مقصد کے تحت ان دونوں نکاح کردیا گیا۔ یہ نکاح کائنات کا سب سے پہلا نکاح تھا۔ جو انتہائی سادگی اور آسانی کے ساتھ پایہ تکمیل کو پہنچا تھا اور ایک زندہ اور دائمی مثال کے طور پر عملی نمونہ بھی تھا۔
آدم و حوا کی نسلوں میں بھی یہ سلسلہ یوں ہی قائم اور جاری رہا۔ بعد کے زمانے میں شادی بیاہ کا یہ رواج یوں ہی سادگی اور آسانی سے رائج ہونے کے ثبوت تاریخ میں موجود ہیں۔
ہمارے ملک میں بھی سوئمبر کا رواج تھا۔ جہاں جوان کنواری دلہن کو موجود نوجوانوں میں سے اپنی پسند کا شوہر منتخب کرنے کی آزادی تھی اور یہی نکاح یا شادی کی رسم تھی۔
زمانے کے ساتھ ان رسموں میں مزید کئی اضافے ہوتے گئے اس میں شہنشاہوں کے تام جھام شامل ہوگئے اور پھر ان کی نقل پہلے وزیروں نے پھر امیروں اور سرداروں نے کی بعد ازاں یہ نقل عوام میں عام ہونے لگی۔ ا س نقالی کی نہ کوئی مذہبی روایات تھیں نہ ہی سماجی پابندی۔ مگر ہم اس سے کیا کم ہیں‘‘ کی ذہنیت نے اپنی حیثیت اور اوقات سے بڑھ کر بے جا اصراف کی حد تک ان رسموں کو فروغ دیا۔
ہماری مذہبی تعلیم اور روایات میں تو انتہائی سادگی اور آسانی تھی۔ ہمارے نبی حضرت محمدؐ کی زندگی کی سادگی تو تمام عالم کے لیے ایک مثال تھی اور اب بھی ہے۔
خود نبی اکرمﷺنے اپنا اور اپنی پیاری بیٹیوں کے نکاح جس سادگی اور بغیر تزک و احتشام کے کیے یہ تو رہتی دنیا تک ایک بے مثال عمل ہے۔ آپؐ نے بھی جو نکاح کیے۔ اس کے پس پردہ بھی یہی حالات و عوامل تھے۔ مگر ان تمام نکاحوں میں بھی کوئی شان و شوکت نہ تھی۔ آپؐ نے اپنے پیروؤں کو بھی یہی تعلیم عملی طور پر دی تھی۔ اس کی مثال یوں ہے:
ایک صحابی آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو ان کے کپڑوں پر زعفران کے داغ تھے۔ آپ نے استفسار فرمایا تو ان صحابی نے اقرار کیا کہ ہاں حضور میں نے نکاح کرلیا ہے۔ اللہ اللہ کیا سادگی تھی۔
ایک عاشق رسول صحابی کو اپنے رسول اور نبی سے جو محبت اور ان کے تئیں جو عظمت تھی وہ اپنی جگہ مسلم۔ مگر سادگی کا یہ عالم کہ آپ کو قبل از وقت اطلاع یا دعوت دینا تک ضروری نہ سمجھا گیا۔ اب تو ڈھونڈ ڈھونڈ کر دور درواز کے ماموں، خالو، پھوپھا تک دعوت نامہ پہنچانے کا چلن عام ہوگیا ہے۔ رشتہ دار کیا دور دراز کے ملنے والوں تک کو دعوت دی جاتی ہے۔
آپ کی سادگی کی عملی تعلیم یہ کا یہ اثر تھا کہ جو ایک سادہ معاشرہ کی تعمیر کر رہا تھا۔ یہ ذہن سازی تربیت نبوی کا ایک پر اثر پہلو تھا۔
آج کا معاشرہ جس نہج پر گام زن ہے۔ یہ سب نتیجہ ہے اس تعلیم کو بھلا دینے یا پس پشت ڈالنے کا۔کہاں تو یہ عالم تھا کہ عصر میں رشتہ طے ہوا مغرب کے بعد نکاح ہوگیا۔ بعد نماز عشا بیٹی کے باپ نے اپنی بیٹی کو شوہر کے گھر پہنچا دیا۔ نہ جہیز نہ ہلدی مہندی نہ بینڈ باجا، نہ برات، نہ کھانا دانہ بس ہوگیا نکاح۔ اس نکاح کے پس منظر میں دیکھا جائے تو کیسی کیسی خرافات دیکھنے کو ملتی ہیں۔ یہ سب آسان نکاح کو مشکل بنانے کا عمل ہے۔
جب نکاح کی آسانیاں ختم ہوگئیں اس میں پیچیدگیاں پیدا کی جانے لگیں تو بے راہ روی کے در کھل گئے اور سماج میں وہ گھناؤنی برائیاں، گندگیاں اور گناہ پنپنے لگے کہ الاماں والحفیظ۔ اور یہ برائیاں گندیاں کسی ایک نقطہ یا سطح پر جاکر تھم جاتیں تو بھی غنیمت تھا۔ مگر وقت کے ساتھ ساتھ یہ سب بڑھتی ہی گئیں۔
جب نکاح مشکل ہوگیا تو مسلم معاشرہ بھی اس کے مضر اثر سے محفوظ نہیں رہا۔ جوڑے، گھوڑے کی رسم جہیز اور دیگر قسم کی غیر شرعی رسموں نے کتنے ہی خاندان کی جواں نوخیز کلیوں پر خزاں کا رنگ پھیر دیا۔
بیٹے والے اپنے بیٹے کو بیئرر چیک سمجھنے لگے جس کو بیٹی والوں کے بینک میں کیش کروایا جاسکتا ہے۔ بیٹے کی پرورش اور تعلیم پر ہونے والا خرچ ان کی نگاہ میں کئی گناہ سود سمیت وصول کرنے کا ایک حربہ بن گیا۔ بیٹا اگر سرکاری ملازم، برسر روزگار ڈاکٹر وکیل، انجینئر، بزنس مین ہے تو پھر کیا کہنے۔ شادی کے وقت اور پھر شادی کے بعد بھی زندگی بھر داماد کی فرمائش پوری کرتے کرتے زندگی گزر جاتی ہے۔ اور ان کی فرمائشوں کا پھوٹا ہوا گھڑا کبھی نہیں بھرتا۔
معاشرہ میں جوان کنواری بیٹی کا ماں باپ کے گھر بیٹھے رہنا بھی سماجی اعتبار سے ایک طرح کی ہتک اور بے عزتی ہی سمجھی جاتی ہے جب کہ اس میں نہ تو والدین کا کوئی قصور ہے نہ اس جوان کنواری بیٹی کا۔ اس لیے مجبوراً وہ باپ سلیمان خطیب کے الفاظ میں یہ کہتا ہے۔ ع
سرخ جوڑا تو دے نہیں سکتے
سرخ چادر میں کیوں نہ دفنادیں
اس کی تربت پہ یہ بھی لکھ دینا
زر پرستوں نے مار ڈالا ہے
مگر کیا یہ کرلینے سے معاشرتی مسائل ختم ہوجائیں گے۔ نہیں ہرگز نہیں، بلکہ یہ تو خود ہی ایک مسئلہ ہے۔ یہ کیا مسئلے کا حل دے گا۔
نکاح کے مشکل ہوجانے کا سماج اور معاشرہ پر دوسرا برا اثر یہ پڑا ہے کہ خواتین کے خلاف جرائم میں بے تحاشہ اضافہ ہوا۔ بیٹیوں کا اغوا، عصمت دری اور قتل اب عام ہونے لگے ہیں۔
باہمی رشتوں میں لگے ہوئے کلنک دیور بھابھی کے ناجائز تعلقات، سوتیلے باپ بیٹی سوتیلے ماں بیٹے اور کہیں کہیں تو یہ داغ دار رشتے سگے خون کے رشتوں کو بھی داغ دار کر رہے ہیں۔ وجہ ایک ہی ہے، جنسی جذبات کی تسکین کے لیے آسان طریقے سے سادگی سے نکاح کا میسر نہ ہونا۔
نکاح کی پیچیدگی کا دوسرا مضر اثر جو معاشرے اور سماج پر مرتب ہو رہا ہے، معاشرہ اور سماج کی پاکیزگی اور عظمت مجروح ہو رہی ہے وہ ہے خوب صورت الفاظ کے ساتھ زہر ہلال کو میٹھی گولی بنا کر سماج اور معاشرے کے حلق میں ڈالا جا رہا ہے۔ وہ ہے لیو اِن ریلیشن شپ۔ ایک مرد اور عورت نکاح کیے بغیر بطور زن و شوہر بغیر کسی ذمے داری باہمی ہمدردی، جاں نثاری کے ایک ساتھ رہ کر اپنی جنسی خواہشات کی تکمیل کرتے ہیں اور جب ایک دوسرے سے دل بھر جائے یا کوئی رنجش یا کدورت پیدا ہوجائے تو ایک دوسرے کے جذبات کا احترام کیے بغیر اپنی اپنی راہ پر ایک دوسرے کی مخالف سمت چل پڑتے ہیں۔ ایسے وقت میں ایک دوسرے کی کوئی ذمے داری بھی نہیں ہوتی۔ دریں اثنا اگر کوئی اولاد جنم لیتی ہے تو… سماج پہلے اسے ولد الزنا یا حرام کی اولاد کہتا تھا مگر اب اس ولد الزنا کو بھی جائز اولاد کا درجہ حاصل ہوچکا ہے۔ یہ الگ مسئلہ ہے کہ ایسی اولاد میں سے جائز اولاد کے حقوق اور وراثت ملنے کا تناسب کیا ہے۔ لمحہ فکریہ ہے یہ عمل بھی۔ بے عقل و شعور جانوروں کی معاشرتی زندگی سے بھی بدتر ہے، جس کو آدم تا ایں دم روئے زمین پر رائج مذاہب میں کسی بھی مذہب نے جائز نہیں ٹھہرایا۔ بلکہ ہمیشہ حقارت کی نگاہ سے ہی دیکھا ہے۔
’’می ٹو‘‘ کی وارداتیں اور قحبہ خانوں کی رونق بھی اسی وجہ سے قائم ہیں۔ اس لیے معاشرہ کی تعمیر و ترقی سماج کی فلاح و بہبود انسانوں کی آئندہ نسلوں کی پاکیزگی و عظمت اگر منظور ہے تو نکاح کو آسان بنانا ہوگا۔ اور آج یہ ذمے داری ہم سب کے سر ہے۔ اگر ہم آج اپنی ذمے داری سے چشم پوشی کریں گے تو اس کا خمیازہ آئندہ نسلوں کو بھگتنا ہوگا اور وہ نسلیں ہمیں موردِ الزام گردان کر معاف نہیں کریں گی۔lll