دورِ حاضر میں امت مسلمہ کے مابین جس چیز نے زور پکڑا ہے وہ فرقہ پرستی، تفرقہ بازی اور گروہ بندی ہے۔ یہ ایک ایسا مرض ہے جس نے مسلمانوں کو اندر سے کھوکھلا کر دیا ہے اور اسی بنا پر مخالفین اپنے مقاصد میں کافی حد تک کام یاب ہو چکے ہیں۔
ارشاد خداوندی ہے: ’’اور تم سب مل کر اللہ کی رسی کو پکڑلو اور جداجدا نہ ہونا اور اللہ کی اس نعمت کو یاد رکھو جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے، پس اس نے تمہارے دلوں میں باہمی الفت و محبت پیدا کردی اور تم لوگ اللہ کی نعمت سے بھائی بھائی بن گئے۔‘‘ (آل عمران)
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ رب العزت کی اس عظیم نعمت سے دشمنی دوستی میں بدل گئی، نفرت محبت میں تبدیل ہوگئی، جن کے دل سیاہ ہوچکے تھے ایمان کی روشنی سے جگمگانے لگے، ایک دوسرے کے جانی دشمن ایک دسرے پر جان قربان کرنے والے بن گئے۔ ارشاد خدا وندی:
’’اور ان لوگوں کی طرح نہ ہوجانا جو فرقوں میںبٹ گئے اور اختلاف کرنے لگے تھے، اس کے بعد بھی کہ جب ان کے پاس روشن نشانیاں آچکی تھیں اور ان کے لیے بڑا عذاب ہے۔‘‘ (آل عمران)
اس آیت کریمہ میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو آگاہ کیا جا رہا ہے کہ آپ ایسے لوگوں سے کوئی سروکار اور تعلق نہ رکھیں جنھوں نے اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے اپنی جمعیت کا شیرازہ منتشر کر ڈالا۔ ارشاد خدا وندی ہے :
’’جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے جنگ کرتے ہیں اورزمین میں فساد انگیزی کرتے ہیں ان کے جرم کی سزا یہی ہے کہ قتل کر دیے جائیں۔ یا ان کے ایک طرف کے ہاتھ اور دوسری طرف کے پاؤں کاٹے جائیں یا زمین میں ان کی نقل و حرکت بند کردی جائے۔ یعنی قید کر دیے جائیں۔(المائدہ)
جب کسی نام نہاد مذہبی کارروائی سے اسلام اور امت مسلمہ کے مجموعی مفاد کو نقصان پہنچ رہا ہو تو اسلام اسے سرے سے مذہبی عمل تصور ہی نہیں کرتا۔ بلکہ دین و مذہب کے خلاف ایک منافقانہ سازش سے تعبیر کرتا ہے۔ قرآن پاک شاہد ہے: ’’اور جنہوں نے مسجد بنائی مسلمانوں کو نقصان پہنچانے، کفر کو فروغ دینے اور اہل ایمان میں تفرقہ ڈالنے کے لیے اور ایسے لوگوں کی تاک میں جو پہلے ہی سے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مخالف ہوں وہ یقینا قسمیں کھاکر کہیں گے کہ ہم نے محض نیکی کا ارادہ کیا ہے مگر اللہ گواہ ہے کہ بے شک وہ جھوٹے ہیں۔ اے محبوب ؐ تم اس مسجد میں کبھی کھڑے نہ ہونا۔‘‘ (التوبہ)
اس آیت کریمہ سے واضح ہوا کہ مسجد اللہ رب العزت کا گھر ہے اور اسلام میں اس کی حرمت اور تقدس کا بہت خیال رکھا گیا ہے لیکن اگر نیت میں یہ تبدیلی آجائے کہ امت میں بگاڑ پیدا ہو تفرقہ بازی، نفاق اور مسلمانوں کو نقصان پہنچانا مقصود ہوجائے تو ایسی مسجد میں بہ جائے عبادت کرنے، اس کو مسمار کرنے کا حکم صادر ہو جاتا ہے۔ اللہ رب العزت نے تو ان لوگوں کو بھی برا بھلا کہنے سے منع فرمایا ہے کہ جو بتوں کو اپنا معبود اور حاجت روا مانتے ہیں۔
ارشاد خداوندی ہے، مفہوم: ’’اور تم انہیں گالی نہ دو جن کی اللہ کے سوا یہ پرستش کرتے ہیں (کہیں ایسا نہ ہو) کہ وہ بھی جہالت اور زیادتی کی وجہ سے اللہ کو برا بھلا کہنے لگیں۔‘‘ (الانعام) خبردار کیا جا رہا ہے کہ آپ لوگ ان کے جھوٹے خداؤں کو برا بھلا کہیں گے تو جواب میں جہالت کی بنا پر وہ تمہارے سچے خدا کو برا بھلا کہیں گے۔ قرآن مجید فرقان حمید واضح حکم دے رہا ہے لیکن بدقسمتی سے ہم لوگ منبروں پر بیٹھ کر مسلمانوں کے خلاف کفر، بدعت اور شرک کے فتوے دیتے ہیں۔ بدنصیبی اور بدقسمتی کی یہ انتہا نہیں کہ ہم نے اتنا کافر کو کافر نہیں کہا جتنا مسلمان کو کافر کہا ہے۔ ارشاد خداوندی ہے: ’’اور فتنہ انگیزی تو قتل سے بھی زیادہ سخت ہے۔‘‘ (البقرۃ)
اس آیت کریمہ میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے فتنہ فساد کو قتل سے بھی بدترین قرار دیا ہے۔ دور حاضر میں بھی اگر ہم غور کریں کہ جن مساجد اور عبادت گاہوں میں تنقید و تنقیص ہوتی ہے تو یہ فتنہ و فساد میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ عبادت گاہیں اور مساجد ویران ہو جاتی ہیں جو چند نمازی بچ جاتے ہیں وہ بھی مذہبی اور روحانی سکون سے محروم ہو جاتے ہیں۔
ارشاد خداوندی ہے: ’’اے اللہ کے بندو (آپس میں) بھائی بھائی بن جاؤ۔‘‘
حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے مسلمان محفوظ رہیں اور مومن وہ ہے جس سے لوگوں کی جانیں اور مال محفوظ ہوں۔‘‘ (بخاری)
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضورؐ نے فرمایا:
ایک مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے وہ نہ اس پر ظلم کرتا ہے (نہ مشکل حالات میں) اسے بے یار و مددگار چھوڑتا ہے، جو شخص اپنے مسلمان بھائی کے کام آتا رہتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے کام میں (مدد کرتا) رہتا ہے اور جو شخص کسی مسلمان کی دنیاوی مشکل حل کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی اخروی مشکلات میں سے کوئی مشکل حل فرمائے گا اور جو شخص کسی مسلمان کی پردہ پوشی کرتا ہے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی پردہ پوشی کرے گا۔‘‘ (متفق علیہ)
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’مسلمان کو گالی دینا فسق ہے اور اس کے ساتھ قتال کرنا کفر ہے۔‘‘ (متفق علیہ)
محسن اعظم صلی اللہ علیہ وسلم جب مکہ مکرمہ سے ہجرت کر کے مدینہ منورہ تشریف لائے تو اس وقت مدینے کا معاشرہ بالعموم مسلمان، یہودیوں اور عیسائیوں پر مشتمل تھا، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی پیغمبرانہ بصیرت اور قائدانہ حکمت عملی سے ان مختلف الخیال عناصر اور متضاد نظریات رکھنے والے طبقے کو مدینہ کی پہلی ریاست کے قیام کے لیے ایک پلیٹ فارم پر جمع ہونے کی دعوت دی۔ چناں چہ اس دعوت اتحاد کے نتیجے میں پہلی اسلامی ریاست کے استحکام کی خاطر غیر مسلموں کو ایک نقطہ اشتراک کی بنیاد پر دعوت اتحاد دی جاسکتی ہے تو کیا وجہ ہے کہ ایک خدا ایک رسول صلی اللہ علیہ وسلم، ایک کتاب، ایک دین اور ایک کعبہ کو ماننے والوں کے درمیان اعلائے کلمۃ اللہ کے لیے اتحاد و یگانگت کے لازوال رشتے قائم نہ کیے جاسکیں۔
صد افسوس آج مسلمان اپنے گروہی، مسلکی، جماعتی اور طبقاتی مفادات کے اسیر ہوگئے ہیں۔ انھیں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کا اتنا بھی پاس نہیں رہا کہ اسلام کی کشتی میں سوار ہر فرقہ کشتی کے تختوں کو اکھاڑ اکھاڑ کر سمندر میں پھینک رہا ہے اور کسی کو اتنا بھی خیال نہیں کہ خدا ناخواستہ یہ کشتی ڈوب گئی تو وہ سب اس کے ساتھ غرق ہوجائیں گے۔ تاریخ کا مطالعہ کیا جائے یا دور حاضر کے حالات کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ جب بھی دشمن کو اہل اسلام پر غلبہ حاصل ہوا تو اس کا ہدف کوئی خاص مسلک نہیں تھا بلکہ بلا امتیاز سب مسلمان تھے۔ کفر کے نزدیک ہدف صرف مسلمان ہے نہ کہ مسلمان کا مسلک کہ وہ کس مسلک سے تعلق رکھتا ہے۔ اس لیے ہمارے لیے لازمی ہے کہ قرآن پاک اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے احکامات کے مطابق دوسرے مسلمانوں کا احترام کریں۔ گروہ بندی، تفرقہ بازی سے بالا تر ہوکر اپنی حدود میں رہ کر عبادت کی جائے اور کسی پر کیچڑ نہ اچھالا جائے۔lll