یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا اتَّقُوْا اللّٰہَ حَقَّ تُقَاتِہٖ وَلَا تَمُوْتُنَّ اِلَّا وَاَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَo (آل عمران)
’’اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو جیسا کہ اس سے ڈرنا چاہیے (اور آخری دم تک اس تقویٰ کے تحت، اس کی فرمانبرداری کرتے رہو) یہاں تک کہ تم کو اسی فرمانبرداری کی حالت میں موت آئے۔‘‘
تقویٰ — یعنی خوفِ خدا اور آخرت میں خدا کے حضور حاضر ہونے کا ڈر۔ ایک مومن بندہ ہر وقت خدا سے ڈرتا رہتا ہے، اس کی ناراضگی سے بچتا رہتا ہے۔ خدانے جن کاموں کو کرنے کا حکم دیا ہے وہی کام کرتا ہے اور جن کاموں سے خدا ناراض ہوجاتا ہے، ان کو چھوڑ دیتا ہے۔ وہ ہمیشہ قیامت کے دن کا خیال اپنے دل میں تازہ رکھتا ہے کہ ایک دن مجھے خدا کے حضور حاضر ہونا ہے اور اپنے تمام اعمال کا حساب دینا ہے۔ یہی ڈر اسے گناہوں سے بچاتا ہے اور وہ اپنی زندگی کو نیکی میں گزارتا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ اگر اس چند روزہ زندگی کو خدا کی خوشنودی اور رضا والے کاموں میں گزار دیا جائے تو آخرت کی لازوال نعمتیں اسے نصیب ہوں گی۔ اس کے برخلاف اگر اس دنیا کی زندگی کو خدا کے احکام سے روگردانی کرکے من مانے طریقے سے بسر کیا جائے تو ہمیشہ ہمیشہ نارِ جہنم میں جلنا پڑے گا۔ قرآن مجید میں یہ خوشخبری بھی دی گئی ہے کہ جو لوگ اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہوئے متقیانہ زندگی بسر کرتے ہیں ، ان پر دنیا میں بھی اللہ تعالیٰ کا خاص فضل و کرم ہوتا ہے اور خدا ان کی مدد فرماتا ہے۔