عن عبداللہ بن مسعودؓ قال ان ہذا القرآن مأدبۃ اللہ، فاقبلوا مأدبتہ ما استطعتم، ان ہذا القرآن حبل اللہ، والنور المبین، والشفاء النافع، عصمۃ لمن تمسک بہ، ونجاۃ لمن اتبعہ، لا یزیغ فیستعتب، ولا یعوج فیقوم، ولا تنقضی عجائبہ، ولا یخلق من کثرۃ الرد۔ (المنذری بہ حوالۂ مستدرک)
’’حضرت عبداللہ بن مسعودؓ نے فرمایا: یہ قرآن اللہ تعالیٰ کا بچھایا ہوا دسترخوان ہے، تو خدا کے دسترخوان پر پہنچو جتنی بار پہنچ سکتے ہو، بلاشبہ یہ قرآن اللہ تک پہنچنے کا ذریعہ ہے، تاریکیوں کو چھانٹنے والی روشنی ہے اور شفابخشنے والی اور فائدہ دینے والی دوا ہے، یہ مضبوطی سے تھامنے والوں کا محافظ ہے، اور پیروی کرنے والوں کے لیے ذریعۂ نجات ہے، یہ کتاب بے رخی اختیار نہیں کرتی کہ اسے منانے کی ضرورت پڑے، اس میں کوئی ٹیڑھ نہیں کہ سیدھا کرنے کی ضرورت پیش آئے، اس کے عجیب معانی کا خزانہ کبھی ختم نہیں ہوتا، اور ایسا لباس ہے جو کثرت استعمال سے پرانا نہیں ہوتا۔‘‘
تشریح: حضرت عبداللہ بن مسعودؓ نے قرآن کو ’’اللہ کا دسترخوان‘‘ کہہ کر بڑی اہم بات کہی ہے، جس طرح مادی غذا کے بغیر انسان کا جسمانی وجود برقرار نہیں رہ سکتا ہے اور اس کی برقراری کے لیے اللہ نے غذائی سامان فراہم کیا ہے، اسی طرح اس نے روحانی وجود برقرار رکھنے کے لیے اپنے ہدایت نامہ کی شکل میں یہ دسترخوان بچھایا ہے، جو لوگ جتنا ہی زیادہ اس روحانی غذا سے استفادہ کریں گے اتنے ہی زیادہ ان کی روحانیت ترقی کرے گی۔