وقت اور زندگی کے مراحل گزرنے کے ساتھ ساتھ ہماری زندگی میں بہت سے ایسے مواقع آتے ہیں، جو ہمارے ذہن پر کچھ تلخ اور کچھ میٹھی یادیں چھوڑ جاتے ہیں۔ ان میں سے کچھ ہمیں یاد رہ جاتی ہیں اور کچھ کو ہم بھول جاتے ہیں۔ ان میں سے کچھ یادیں ایسی بھی ہوتی ہیں جنھیں ہم نہ صرف بھول نہیں پاتے بلکہ چاہ کر بھی بھلا نہیں پاتے۔ ہماری زندگی میں کچھ لوگ ایسے ضرور ہوتے ہیں جو یا تو بہ قید حیات ہیں یا رخصت ہوچکے ہیں مگر ان کی یادیں ہمارے ذہن میں ہمیشہ تازہ رہتی اور دل و دماغ میں گھر کیے رہتی ہیں۔ یہ یادیں کسی بھی طرح کی ہوسکتی ہیں، جنھیں بھلایا نہیںجاسکتا۔
ہم انسان ہیں اور اپنی زندگی کی یادوں کو یکسر بھلا نہیں سکتے چنانچہ وہ کسی نہ کسی صور ت میں ہمارے ذہن کے کسی خانے میں محفوظ رہتی ہیں اور ہم انہیں یاد کرکے کبھی مگن اور خوش ہوتے ہیں اور کبھی اداسی کا شکار ہوجاتے ہیں۔ بے فکری کا دور بچپن زندگی کا خوبصورت ترین مرحلہ ہوتا ہے، پھر ہم جوانی کو پہنچتے ہیں جہاں ہماری تمام جسمانی طاقتیں پختہ تر ہوجاتی ہیں۔ جذبات، احساسات اور کچھ کر گزرنے کا جذبہ ہمیں زندگی کے نئے نئے تجربات سے گزارتا ہے اور اس دوران انسان تلخ و شیریں ہر دو طرح کے تجربوں اور یادوں کو زندگی میں سمیٹ لیتا ہے۔ پھر ہم زندگی کے اگلے مرحلے میں داخل ہوتے ہیں اور زندگی کے بوجھ اور وقت وحالات کے دباؤ کے سبب بہت سی چیزیں اور صلاحیتیں کھونے لگتے ہیں ، اور ہم ماضی کی یادوں میں کھوکر اچھا محسوس کرتے ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ ماضی کی یہ حسین یادیں چمکتے ستارے ہیں جو زندگی کے اندھیروں میں ہمیں روشنی فراہم کرتے ہیں۔
یہاں ہمیں یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ گزرے ہوئے مراحل زندگی کی تلخ اور تکلیف دہ یادیں ہمارے ذہن و دماغ میں بالکل ایسے ہی گھل سکتی ہیں جیسے نمک پانی میں گھل جاتا ہے۔ یہ یادیں ہمارے قلب و دماغ میں اپنی جملہ تکالیف اور احساسِ درد و الم کے ساتھ پھنس جاتی ہیں اور جب بھی ان کا دباؤ بڑھتا ہے تو ہمارے ذہن کے پردے پر تکلیف دہ یادوں کی ریل یا فلم چلنے لگتی ہے۔ اس وقت ہم ان یادوں سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہتے ہیں مگر کر نہیں پاتے۔
اب کیا کریں؟
ایسے وقت و حالات میں کیا کریں یہ ایک اہم سوال ہے۔ اس کے جواب میں پہلی بات یہ ہے کہ تلخ اور تکلیف دہ یادوں کو اپنی زندگی پر حاوی نہ ہونے دیا جائے کیونکہ یہ خوشیوں کے حصول اور ان تک پہنچنے کی صلاحیت کو تباہ کردیتی ہیں۔ ایسا بالکل ممکن ہے کہ ان مشکلات کو جو آپ نے اپنی زندگی کے کسی مرحلے میں جھیلی ہیں اور وہ تلخ یادیں جو آپ کے ذہن میں بیٹھ گئی ہیں وہ ایسی عام ہوں جن کا پیش آنا عین تقاضۂ وقت ہو مگر آپ نے انہیں اپنی زندگی میں بہت زیادہ بڑھا چڑھا کر دیکھا اور سمجھا ہو جس کے سبب آپ کا ذہن اس سے کچھ زیادہ ہی متاثر ہوگیا ہو۔ ایسے میں چیزوں کا حقیقی جائزہ لینا ضروری ہے۔ جب آپ حقیقت پسندانہ تجزیہ کریں گی تو معلوم ہوگا کہ یہ باتیں اتنی بڑی نہیں تھیں جتنا بڑا آپ نے انہیں سمجھ لیا یا بنادیا۔ حقیقت میں آپ نے کچھ حساسیت کے سبب ان کا اثر لینے میں مبالغہ کیا یا انتہائی حد تک پہنچ گئیں۔ اگر آپ نے اسی وقت ان تلخ یادوں کا حقیقت پسندانہ تجزیہ کرلیا ہوتا تو آپ کا ردِ عمل کچھ مختلف ہوتا اور آپ کے دل و دماغ میں وہ تلخ یادیں گھر نہ کرپاتیں۔
ان سے چھٹکارا پانے کا طریقہ یہ ہے کہ آپ اپنی تکلیف دہ یادوں اور تلخیوں کو ایک صفحہ پر لکھ لینے اور انہیں پھاڑ ڈالنے کا عمل شروع کریں اس طرح ذہن میں جو منفی خیالات آتے ہیں یا منفی طاقتیں سرگرم ہوتی ہیں ان کا تدارک ہوگا اور ایسا کرنا آپ کو گھٹن اور ذہنی دباؤ سے نجات دلانے میں مدد کرے گا۔
دوسری بات یہ ہے کہ صدقہ اور غریبوں اور محتاجوں پر خرچ کرنا وہ بہترین اور خوبصورت عمل ہے جو ہمیں مثبت طاقت (پازیٹیو انرجی) فراہم کرتا ہے۔ جتنا زیادہ صدقہ و انفاق آپ کریں گی آپ کے اندر مثبت طاقت کا اسی قدر اضافہ ہوگا۔ جتنا اور جو صدقہ آپ رضائے الٰہی کی خاطر نکالیں گی اسی قدر منفی سوچ یا نیگیٹیو انرجی خارج ہوگی اور دھیرے دھیرے ختم ہوجائے گی۔ اللہ فرماتا ہے:
’’مردوں اور عورتوں میں سے جو لوگ صدقات دینے والے ہیں اور جنھوں نے اللہ کو قرض حسن دیا ہے، ان کو یقینا کئی گنا بڑھا کر دیا جائے گا اور ان کے لیے بہترین اجر ہے۔‘‘ (الحدید:18)
تیسری بات یہ ہے کہ اچھی کتابوں کا مطالعہ شروع کیا جائے اور تباہ کن بے کاری سے دور ہوا جائے کیونکہ انسان کی ذات اور اس کا ذہن ایک’اسٹور‘ ہے جہاں ہر طرح کی تلخ و شیریں یادیں جمع رہتی ہیں۔ شیریں یادیں ہمیں خوشیاں دیتی اور ہماری زندگی کو روشن کرتی ہیں جبکہ تلخ یادیں ہمارے ذہن ودماغ ہی میں نہیں جسم میں بھی منفی سوچ اور نیگیٹیو انرجی پیدا کرتی ہیں۔ لیکن یاد رہے کہ جب آپ کو گزرے زمانے کے تکلیف دہ لمحات یاد آئیں تو اللہ سے قریب ہونے کے طریقے اپنائیں اور موجودہ حالت پر اس کا شکر ادا کریں کیونکہ وہی ہے جو ہمارے دل کو ہدایت و رہنمائی فراہم کرتا ہے۔
چوتھی بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کریں اور اس کی رحمت سے ہرگز مایوس نہ ہوں کیونکہ وہ اپنے بندوں پر بے حد مہربان اور رحم کرنے والا ہے۔ زیادہ سے زیادہ نماز اور نوافل کا اہتمام کریں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
’’صبر اور نماز سے مدد لو، بے شک یہ مشکل کام ہے مگر ان لوگوں کے لیے بالکل مشکل نہیں جو اس سے ڈرتے ہیں۔‘‘ (البقرۃ: 45)
یقین رکھیں کہ اللہ تعالیٰ آپ کی دعا قبول کرے گا۔ بس بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ایسے بندے کو پسند کرتا ہے جو اصرار کے ساتھ اور مسلسل اس سے مانگتا رہتا ہے اور جلد بازی نہیں کرتا۔ ان شاء اللہ اس کی ذات آپ کو تکلیف دہ اور غم زدہ کرنے والی تمام یادوں سے دور کردے گی۔ بس اللہ کی یاد سے کسی بھی وقت غافل نہ رہیں کیونکہ راحت نفس اور اطمینان قلب اللہ کی یاد میں پوشیدہ ہے وہ فرماتا ہے:’’لوگو! سن لو اللہ کے ذکر اور اس کی یاد ہی دل کو اطمینان فراہم کرنے والی ہے۔‘‘ ll
(محترمہ امل عبدالستار کی یہ تحریر مصری روزنامے ’الاہرام‘ سے ترجمہ ہے)