ترجمہ: مومن بدایونی
[محترمہ اوم پربھا جین کی 1971 کی ایک زندہ تحریر جو انگریزی سے ترجمہ ہوئی ہے۔ زیر نظر تحریر ہندوستانی سماج کے موجودہ تناظر میں بھی تازہ نظر آتی ہے۔ یہ تحریر 1971 کے حجاب کے شمارے سے ماخوذ ہے۔]
سماج میں عورت کو جو مقام حاصل ہے اس کا تنقیدی جائزہ برساتی مینڈکوں کی طرح موسمی مصلحین سماج اور مبلغین مذہب کے ان تمام دعوؤں پر پانی پھیر دینے کے لیے کافی ہے جن کا خلاصہ یہ ہے کہ جب سے کرہ ارض پر تہذیب کی پہلی کرنیں پڑی ہیں۔ عورت کو نہ صرف یہ کہ مرد کی برابری کا بلکہ یک گونہ برتری کا مقام حاصل رہا ہے۔ کٹر لوگ اس قسم کے فرسودہ دلائل صرف اس غرض سے پیش کرتے ہیں کہ حکومت کے اصلاحی قوانین، جن کے ذریعے وہ عورت کو سماج میں مناسب مقام دینا چاہتی ہے، کی مخالفت کی جائے۔ اور ان کے اثرات کو زائل کر دیا جائے۔ کم عمر بچوں کی شادی کو روکنے کا قانون، بیوہ کے نکاح ثانی کا قانون اور قانون وراثت وغیرہ کو ایسے اصلاحی قوانین کی فہرست میں شامل کیا جاسکتا ہے۔
مہلک نتائج
قدیم ماضی کی مختلف اور الجھی ہوئی تاریخ کی جگہ ہم عہد وسطی کی تاریخ کو سامنے رکھ سکتے ہیں۔ اس عہد میں اپنی خودداری اور عزت کے تحفظ کی خاطر راج پوت پیدائش کے فوراً بعد اپنی لڑکیوں کا گلا گھونٹ دیا کرتے تھے، ان کا خیال تھا کہ لڑکیوں کی وجہ سے والدین کا وقار مجروح ہوتا ہے اور ان کی شادی کے وقت والدین کی ذلت اور اہانت ہوتی تھی۔
اب حالات میں تھوڑا سا فرق واقع ہوا ہے، مگر جہیز اور تلک کی رسم نے جو اگرچہ ایک زمانہ سے چلی آرہی ہے لڑکیوں کے مقام کو پست کر دیا ہے اور ان کے والدین کو بے چین اور فکر مند بنا دیا ہے۔ یہ مصیبت اس قدر ہولناک بن چکی ہے کہ بعض سمجھ دار اور سعادت مند لڑکیاں بھی اس اندیشہ کی وجہ سے کہ ان کے ماں باپ ان کے لیے مناسب رشتے کا بار نہیں اٹھا سکتے خود کو گناہ اور جرائم کی راہ پر ڈال دینے کو ترجیح دیتی ہیں اور ہم پورے سکون قلب کے ساتھ یہ پڑھا اور سنا کرتے ہیں کہ جہیز کی مصیبت سے اپنے والدین کو نجات دلانے کی خاطر نوجوان لڑکیوں نے خود کشی کرلی۔
یہ رسم ایک خوفناک عفریت ہے، جس نے سیکڑوں سال سے ہندو معاشرے کا خون چوس چوس کر اسے نڈھال کر دیا ہے۔ یوں تو تھوڑی بہت یہ رسم پورے ہندوستان میں پھیلی ہوئی ہے مگر یوپی بہار، مغربی بنگال، کرناٹک، کیرل اور راجستھان خاص طور پر اس کا شکار ہیں۔
براتیوں کا پورا لشکر اس ام الخبائث کی جلو میں چلتا ہے خود کشی اور قتل اطفال کا ذکر اوپر گزر چکا ہے۔ ذہنی امن و سکون کی بربادی، فرد کی گھریلو معیشت اور نتیجتاً قومی اور ملکی معیشت کا ستیا ناس، دوامی قرض داری، متکبر اور خود پسند ساس اور بہتان زدہ بہو کے آپس کے جھگڑے، گھر میں ماں کی کمزوری جو نہ بچوں پر کنٹرول کرسکتی ہے نہ انہیں تعلیم ہی دے سکتی ہے، ماؤں کا صحت سے عاری ہونا، دکھیاری اور کام کی ماری ہوئی مائیں اور لڑکیاں، بوڑھے، بیمار، شرابی عیاش طبع لوگوں کے ساتھ ناموزوں شادیاں اور اسی قبیل کی اور کتنی ہی خرابیوں کی جڑ کا پتہ اسی قبیح رسم کے اندر لگایا جاسکتا ہے۔ مگر ان سے بھی زیادہ اہم وہ برائیاں ہیں جن کا ذکر کرنا بھی مہذب سوسائٹی پسند نہ کرے گی یعنی اغوا کے واردات جبری اسقاطِ حمل اور ایسی زنا کاری جو روگ افلاس پر منتج ہوتی ہے۔ گاندھی جی کہا کرتے تھے کہ جہیز کی تلک کی وجہ سے شادی جو ایک مقدس ملاپ کا نام تھا محض ایک بازاری چیز بن گئی ہے۔ سماج میں اس نے ایک مخرب اخلاق اور ناپاک فضا پیدا کردی ہے کیوں کہ اب لڑکے قابل فروخت جنس بن چکے ہیں اور لڑکیوں کو بالکل ناقابل لحاظ مقام تک گرا دیا گیا۔ کیڑے مکوڑے سے بھی نیچے۔
بنیادی اسباب
اس رسم کی پیدائش کے اسباب کا کھوج لگانا ایک دلچسپ موضوع مطالعہ ہے، اس قدیم رواج کی تاریخ ویدک عہد تک جاتی ہے جب کہ تلک دکشنا اور لڑکی دان کے طور پر شادی کے رسوم کے ساتھ دی جاتی تھی اس وقت تلک دینا ایک فعل اختیاری تھا۔ اور خوشی کے ساتھ والدین کے معاشی استقلال کا لحاظ رکھتے ہوئے ایسا کیا جاتا تھا۔
لیکن جیسے جیسے زمانہ گزرتا گیا سماجی رسوم نے مذہبی عقائد کی سختی اختیار کرلی اور مذہب و اخلاق اس کو بے لچک قانون کا مرتبہ دینے میں ایک دوسرے کے مددگار بن گئے۔
اقتصادی دشواری کے اس مادی دور میں جب کہ تلک کا پورا سماجی نظام مالی مشکلات اور معاشی کشمکش بیدار کر رہا ہے روز افزوں بے روزگاری کی وجہ سے ڈانوا ڈول ہو رہا ہے۔
تمام سنجیدہ اور پیچیدہ مسائل کی طرح یہ مسئلہ بھی قدرے توضیح طلب ہے۔ یہ تو ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ قابل کار بالغ مردوں کا صرف دس ہی فیصد روزگار حاصل کرنے میں کامیاب ہے۔ جب کہ کوشش یہ ہوتی ہے کہ سو فیصد لڑکیوں کی شادی دس ہی فیصدی سے ہو اور ان نوے فیصد لڑکوں کی طرف جو بر سر روزگار نہ ہوں اور متاہل زندگی کا بوجھ اٹھانے کے لیے بس آدھے دل سے تیار ہیں پہلے توجہ نہیں کی جاتی۔ نتیجتاً اس دس فیصد خوش نصیب لڑکوں میں سے ہر ایک کے پاس کم از کم دس پیش کشیں آتی ہیں۔ اور طبعی طور پر معاشیات کے قانون طلب و رسد کا عمل شروع ہو جاتا ہے۔
رسد کی کمی اور طلب کی زیادتی کی صورت میں قیمتوں کا چڑھنا لازمی امر ہے خصوصاً ایسی صورت میں قیمتوں کا اصول غیر لچکدار ہے اور رسد کی کمی کے پیش نظر اس میں کمی نہیں ہوسکتی اس لیے کہ ہر لڑکی کی شادی ضروری ہے۔جب کسی لڑکے (یا اس کے والدین) کے پاس دس پیش کشیں آتی ہیں تو وہ باری باری ہر ایک کو ناپتا اور تولتا ہے اور یہ معلوم کرتاہے کہ ان میں سے کون اس کے لیے سب سے زیادہ نفع بخش ثابت ہوگی۔
نیلام کے بازار میں بولی بولی جاتی ہے اور فطری طور پر سب سے بڑھ کر بولی بولنے والے کے ساتھ معاملہ چکا دیا جاتا ہے۔
یاد ہوگا کہ اب تک ان نوے فیصد لڑکوں کے پاس جو بے روزگار یا کم روزگار ہے کوئی پیش کش نہیں آئی تھی اب تک ان کی طرف توجہ نہیں دی گئی تھی، اب ذرا ان کے طرزِ عمل کا بھی مطالعہ کیجیے۔
وہ اپنے لیے زندگی کا کوئی سہارا نہیں پاتے ان کے دل امنگوں سے خالی ہیں اور یہ کوشش کرتے ہیں کہ جہاں تک ممکن ہو شادی سے کترائیں مگر جب آخری چارۂ کار کے طور پر ناکام بولی بولنے والے برسر روزگار نوجوانوں کے دروازے بند پاکر اس بے روزگار نوجوان کا دروازہ کھٹکھٹاتے ہیں تو دفعتاً ان کی افق امید پر روشنی کی ایک کرن چمک اٹھتی ہے وہ سوچتا ہے کیوں نہ ایک موٹی سی رقم کا مطالبہ کر دیا جائے کہ اس کے بل پر چند سال تو گزریں۔ زیادہ اچھا تو یہ ہے کہ اس کے ذریعے کوئی چھوٹا موٹا روزگار ہی شروع کر دیا جائے۔ چناں چہ یہ نوے فیصد لڑکے بھی اب مطالبہ پیش کرتے ہیں۔
وہ اتنی رقم کا مطالبہ کرتے ہیں جو انہیں اپنے پاؤں پر کھڑا کر دینے کے لیے کافی ہو اور بسا اوقات وہ تشفی بخش سودا چکانے میں کامیاب بھی ہوجاتے ہیں۔ اس لیے کہ بولی بولنے والے اب اپنے انتخاب اول یعنی باکار نوجوانوں کی گلیوں کی خاک چھانتے چھانتے تنگ آگئے ہوتے ہیں۔
برائی ہی برائی
اسی طرح یہ رسم سماج میں پھیلتی جاتی ہے، شادی کا معاملہ طے کرنے میں اسی رسم کے ایک فیصلہ کن عامل ہونے کی وجہ جو کچھ بھی ہو تمام باضمیر لوگ اس بات کو تسلیم کریں گے کہ جبری جہیز وصول کرنے کی رسم سر تا سر ایک بری رسم ہے اور اس کو مٹانے کی ہر ممکن کوشش کی جانی چاہیے۔
ہوسکتا ہے کہ اس رسم کی ہر ممکن کوشش کے خلاف ہندو معاشرے کے راسخ الاعتقاد عنصر میں ایک زبردست ردعمل یا بغاوت رونما ہو (جیسا کہ ہندو میرج ایکٹ اور ہندو قانون وراثت کے خلاف ہوچکا ہے)۔
مگر یاد رہے کہ اس رد عمل کے علی الرغم آج دو سال سے زیادہ مدت گزر چکی ہے کہ یہ قانون ملکی قانون قرار دیے جاچکے ہیں۔ ہوائی جہاز اور گاڑیوں کے عہد میں رہتے ہوئے ہم بیل گاڑی کے زمانے کی طرف واپس نہیں لوٹ سکتے، ہمیں ایسے تمام بندھنوں اور بیڑیوں کو نظر انداز کرتے ہوئے آگے بڑھنا ہوگا جنہوں نے ہماری جائز اور زمانہ سے رکی ہوئی ترقی کو روکے رکھا ہے جہیز جیسی رسم کو جس کی کراہت اور شناعت بین ہے کہ تیزی سے بدلتی ہوئی معاشی دنیا میں اخر کب تک زندگی کو مہلت دی جاسکتی ہے۔
پھر یہ بات بھی قابل لحاظ ہے کہ دستور ہند نے عورتوں سے مساوات کا وعدہ کیا ہے اس لیے ہر عورت کے لیے اپنے جائز حقوق کے لیے جدوجہد کرنا اس کا اخلاقی فرض ہے بلکہ اس کی خود داری اور سماجی عظمت کا مسئلہ ہے۔ کیا جنس بازاری کی طرح اپنی عورتوں کے تعیین قیمت کو برداشت کرلینے کے بعد کوئی سماج ترقی کی جانب ایک قدم بھی آگے بڑھنے کی آرزو رکھنے کا حق دار ہے؟ آج کی لڑکی بالکل اسی طرح کل کی ماں ہے، جس طرح آج کا لڑکا کل کا باپ۔
محض قانون سازی موثر نہیں ہے
اس قسم کے خیالات سے متاثر ہوکر پارلیمنٹ اور صوبائی مجالس قانون سازی کے کچھ ممبر اس برائی کو روکنے کے لیے قانون بنارہے ہیں، مگر اس سے قبل ہمیں سوچنا چاہیے کہ کیا صرف قانون اس جمی ہوئی اور گہری برائی کو جڑ سے اکھاڑ سکتا ہے، عموماً دیکھا گیا ہے کہ جو لوگ قانون سازی کے ذریعے کسی سماجی برائی کو دور کرنا چاہتے ہیں وہ اکثر تاریخ اور اس کے واقعات سے کوئی سبق نہیں لیتے، رشوت، چور بازاری، غذاؤں اور دواؤں میں ملاوٹ، شراب نوشی اور اسی قبیل کی سیکڑوں برائیوں کو قانون کے زور سے مٹایا نہیں جاسکا، دنیا کے تمام متمدن ممالک نے ان کو قابل تعزیر جرم قرار دیا اس کے باوجود وہ باقی ہیں۔ اور ہمارے ملک کے جسم میں تو اس کا زہر شریانوں اور وریدوں کے ذریعہ ہر ہر عضو میں سرایت کرچکا ہے۔
بعض لوگوں کا خیال ہے کہ سول میرج اور مختلف قانون کے درمیان شادی بیاہ کی ہمت افزائی کی جائے تو جہیز کی رسم پر کچھ قابو پانا ممکن ہوگا مگر ایک عام ہندوستانی کے لیے جس نے ایک روایتی راسخ العقیدہ گھرانے میں پرورش پائی ہے یہ خیال بہت زیادہ ترقی پسندانہ ہے کیوں کہ اس سے ان کے ان مذہبی جذبات کو ٹھیس لگتی ہے، جس سے وہ مدت ہائے دراز سے وابستہ ہے، اس لیے ایسے خیالات کے مطابق لوگوں کے ذہنوں کو بدلنے کے لیے ابھی لمبی مدت درکار ہے۔
اپنے گریبان میں جھانکیے!
اس مرض کا سب سے موثر علاج انفرادی اور اجتماعی محاسبہ نفس کے ذریعے ممکن ہے ایسی انجمنیں بنائی جانی چاہئیں جو اس کے خلاف تبلیغ و اشاعت کا کام کریں، یہ انجمنیں سماجی احساس کو ابھارنے اور عام بیداری پیدا کرنے میں معاون ہوں گی۔
سماج کے رہنماؤں، معروف لیڈروں اور بااثر لوگوں کو اور ان لوگوں کو بھی جو عوامی سماجی اور سیاسی تنظیموں سے متعلق ہوں آگے بڑھنا چاہیے اور بڑھ کر عوام کے اندر اس رسم کے خلاف زبردست تبلیغی مہم شروع کرنی چاہیے۔
عورتوں کو موجودہ نسل کے اندر بلند مقاصد کی تلقین اور مضبوط اخلاقی حسن کی بیداری کے لیے نکل کھڑا ہونا چاہیے۔ جو اپنی مدد آپ نہیں کرتا کوئی دوسرا اس کی امداد کو نہیں پہنچتا۔ اشوک نے جس کے شیر ہمارے قومی نشان ہیں بدھ کی تعلیمات کو آخر اس طرح پھیلایا کہ ہزاروں امراء اور شہزادے بھکشو بن گئے۔ اس وقت بادشاہ نے خود اپنی بیٹی اور اپنے بیٹے کو تبلیغ کی خاطر لنکا چین اور جاپان بھیجا۔
اگر ہم نے اس وقت دور دراز ملکوں کے نیم وحشی باشندوں کو بلندی کی راہ دکھائی تھی تو کیا ہم خود اپنے ہی لوگوں کے جذبہ فرض شناسی اور ایثار کو بیدار نہیں کرسکتے۔
گاندہی جی نے دھوتی باندھ کر اپنی مثال سے کتنے ہی ایسے وکلا کو جن کا طوطی بولتا تھا اپنی وکالت چھوڑنے پر آمادہ کر لیا اور اس کے بعد وہی آرام طلب وکلا جیل کے اند رپتھروں پر سونے کے لیے آمادہ ہوگئے۔
اس لیے جس چیز کی ہمیں ضرورت ہے، وہ مخلص کارکنوں کی ایک جماعت ہے۔ ایسے کارکن جو عہدوں کے حریص اور ہوائی جہازوں میں اڑنے کے متمنی نہ ہوں۔ بلکہ جن کے دل مقصد کی آگ سے روشن ہوں اس کی لپٹ ان کی زبانوں سے بھی ظاہر ہو اور جو محض اپنے کردار کی مضبوطی اور اپنی مثال سے دوسروں کے دلوں کو روشن کرسکیں یہ ہم نے کرلیا تو مرض کا علاج ممکن ہوجائے گا۔lll (ماخوذ)