…مسافر کے نام
! میرے پیارے بچے سعدی
ڈھیروں دعائیں
تمھیں یہ کیسے کہوں کہ جیتے رہو۔تم تو جی چکے۔ آج میں تم سے وہ ساری باتیں کرنا چاہتی ہوں جسے سننے کے لیے تمھیں عدم سے لوٹنا ہوگا۔ میرے لختِ جگر! جانتے ہو کس طرح میں نے لخت لخت اکٹھا کرکے تمھیں وجود دیا؟ تم نے کیا کیا؟ ایک لمحے کے ہزارویں حصے میں بھی نہیں سوچا کہ یہ لہو جو تم اتنا بے وقعت سمجھ کر بہا رہے ہو اس میں میری کتنی ریاضتیں ہیں۔ میری کتنی بے خواب راتیں بسی ہوئی تھیں۔ میرے بچے! تم نے سوچا کہ اب کون گیٹ کے باہر کھڑے ہو کر کہے گا اماں! آپ کا لفتِ جگر آگیا۔ میں کسے کہوں گی نالائق لفتِ جگرنہیںلختِ جگر ہوتا ہے۔ اب کون کہے گا اماں جی! آپ کا ایم اے اردو ہمیں جینے نہیں دیتا۔
مجھے پتا ہوتا تو میں اُس ہر چیز سے کنارہ کرلیتی جو تمھیں جینے نہیں دے رہی تھی۔ میرے چاند آج میں تمھاری وہ غلط فہمی دور کرنا چاہتی ہوں جس نے تمھیں ہمیشہ بدگمان رکھا۔ تم نے ہمیشہ یہ سوچا کہ تمھارا رنگ گندمی ہے اس لیے شاید تمہیں کوئی پسند نہیں کرتا۔ تم نے ہمیشہ ڈریسنگ ٹیبل کے آئینے کے سامنے میرے ساتھ کھڑے ہو کر دیکھا۔ اپنا کندھا میرے کندھے سے اوپر دیکھ کر فاتحانہ مسکراہٹ سے مجھے دیکھا لیکن اندر ہی اندر بھائی بہن کا گورا رنگ، لمبے قد تمھیں کْچلتے رہے۔ پھر وہ لمحہ اذیت دیتا ہے جب کوئی مہمان آتا اور تمھارے ننھے دل کا خیال کیے بغیر پوچھتا آپ کا یہ بچہ کس پر ہے؟
اُس وقت جو رنگ تمھارے چہرے پر لہرا جاتا وہ میں دیکھ سکتی تھی۔ تمھاری ماں تھی نا میرا گمان تھا کہ پڑھائی میں کمزور جسمانی طور پر کمزور یہ بچہ میرے کام آئے گا۔ بڑی بے فکر تھی میں کہ سب چلے جائیں گے تم میرے پاس رہو گے۔ شاید میری یہ خودغرضی تم نے بھانپ لی یا پھر میرے وہ احسانات جو میں تم پر کرتی رہتی تھی ان کے بوجھ تلے دب کر تم جی نہ سکے۔ تمھیں یاد ہے! جب میں یہ کہتی تھی بیٹا پڑھ لو! کل کس کے در پر جائو گے کون تمھیں روٹی دے گا، بہن بھائی بھی دھتکار دیں گے۔ یہ ماں باپ ہی ہوتے ہیں جو تم جیسی اولاد کو بھی سینے سے لگائے رکھتے ہیں۔ تمھارے کتنے بلّے میں نے توڑے کہ شاید تم کھیل چھوڑ کر پڑھنے لگو مگر تم تو ہر مرتبہ اِک نئی امنگ سے کھیلنے جاتے۔
میری جان میں جان نہ سکی جس پرندے کو میں پنجرے میں بند کرنا چاہتی ہوں وہ تو ایک روز یوں اْڑے گا کہ پھر کبھی لوٹ کر نہیں آئے گا۔ صبح سویرے نماز کے بعد میں باہر کا گیٹ دیکھتی کہ تم میچ کھیلنے تو نہیں نکل گئے۔ جون، جولائی کی تپتی دوپہروں میں کئی بار تمھیں دیکھنے تمھارے کمرے میں آئی کہ تم باہر تو نہیں۔ رات گئے آنکھ کھلتی تو تمھارے موبائل پر بیل مار کر دیکھتی کہ جاگ رہے ہو یا سو چکے۔ میں نے تمھارا جینا حرام کر رکھا تھا پھر کیا تم اسے میری نفرت سمجھتے تھے۔ کاش بیٹا! تمھیں ماں کا دل پڑھنا آتا۔ آج میں تمھیں وہ سب اندیشے بتائوں جو مجھے پریشان کیے رکھتے تھے۔ بچپن ہی سے تم نڈر اور لڑاکے تھے۔ تمھیں دیر ہوجاتی اور میں خیال کی آنکھوں سے دیکھ لیتی کہ تمھاری لڑائی ہو گئی ہے اور تمھیں کسی نے مارکر پھینک دیا ہے۔ سچ مانو دل تڑپ جاتا تھا۔
یہ تمھاری سب سے بُری عادت تھی کہ موبائل بند کرکے رکھتے تھے۔ یہ بات مجھے مزیداندیشوں میں مبتلا کر دیتی۔ تم بے خبری میں کھیلتے رہتے اور میں لمحہ لمحہ مرتی رہتی۔ تم گھر لوٹتے میں تمھیں بہت ڈانٹتی مگر اندر سے شکر ادا کرتی۔ آئو آج میں تمھیں ایک عجیب بات بتائوں۔ تمھارے جانے سے ایک ماہ پہلے ہر نماز کے بعد دعا مانگتے ہوئے ایک عجیب سا جملہ میرے لبوں سے نکلتا: ’’اے اللہ میں تیری رضا میں راضی ہوں۔‘‘ مجھ جیسی جاہل مطلق ماں کو یہ علم نہیں تھا کہ اْس کی رضا کیا ہے؟ کیا مجھ جیسی کمزور عورت اْس کی رضا پر پورا اُتر سکتی ہے؟ کیا میں اتنی اعلیٰ ظرف تھی کہ اُس کی دی ہوئی نعمتوں میں سے کچھ اُسے لوٹاسکوں۔ مگر دیکھو نا میں تو بے وقوف تھی ہی وہ تو قادرِمطلق تھا اُس نے کیوں میری اس بے خبری کی رضا کو سچ جانا اور یہ مان لیا کہ میں تمھیں کھو کر بھی راضی رہوں گی۔
ہاں بیٹا میں بہت ناراض ہوں اپنے آپ سے جسے یہ دعویٰ تھا کہ اللہ اْس کی کوئی بات رد نہیں کرتا سعدی! جمعے کی وہ رات میری راتوں کا عذاب بن گئی ہے جب تم خاموشی سے اوپر گئے اور پھر کبھی واپس نہ آئے۔ یاد ہے اْس شام تم نے مجھے کہا تھا اماں جی! آپ کا بچہ مصوری کی دنیا میں دھوم مچا دے گا۔ میرے بچے آج تمھاری ا سکیچ بک، تمھارے بنائے ہوئے ہاتھ، تمھاری تمام ڈرائنگ میرے سامنے ہیں، تمام رنگ سرخ پڑ گئے ہیں۔ ہر طرف تمھارے لہو کا سرخ رنگ بکھرا ہو اہے۔ آج مجھ سے لوگ پوچھ رہے ہیں آپ نے اْسے کیا کہا تھا؟ کیا اتنا ڈانٹا تھا کہ اْس نے یہ قدم اْٹھا لیا؟
میری جان تمھیں مجھ سے محبت نہیں تھی، نہ سہی مگر یہ کہاں کا انصاف ہے کہ تم مجھے ایسا مجرم بنا کر دنیا کے سامنے کھڑا کر گئے ہو جسے اپنے جرم کا بھی پتا نہیں۔ کوئی فردِجرم تو عائد کرتے پھر دیکھتے تمھاری یہ خوش فہم ماں کوئی صفائی پیش کیے بغیر ہی سزا لے لیتی۔ تم نے آزمایا تو ہوتا، تم نے تو کبھی مجھے یہ احساس بھی نہیں ہونے دیا کہ میری کون سی بات تمھیں اچھی لگتی ہے اور کون سی بہت بُری۔ پھر مجھے یہ کب اور کیسے پتا چلتا کہ تم بدگمانی کی اس حد تک پہنچ چکے ہوں جہاں زندگی جیسی نعمت بھی بے وقعت ہو جاتی ہے۔ مجھے اس وقت بھی یاد ہے کہ رات کے ٹھیک بارہ بجے کا وقت تھا جب تم باہر سے آ کر اپنے کمرے میں گئے ہو اور پھر نجانے کس منحوس گھڑی وہ ریوالور تمھارے ہاتھ لگ گیا جو سفر سے واپسی پر تمھارے ابو نے سامنے کپڑوں والی الماری میں رکھ دیا تھا۔
نہ جانے کیا سوچ کر تم نے یہ جان لیوا کھلونا اُٹھایا؟ نہ جانے کہاں فائر کیا اور پھر سارا منظر ہی بدل گیا۔ میری تو آنکھ تب کھلی جب تم اطمینان بھری اَبدی نیند سو چکے تھے۔ آج بھی فائر کی آواز کہیں میرے کان میں سنائی دیتی ہے تو دہل جاتی ہوں اور پھر میرے بچے دوسرا سانس لیے بغیر تم چل دیے۔ نہ دعا نہ سلام۔ ہمیشہ کی طرح خودغرضی دکھائی۔ اتنا لمبا سفر نہ گلے ملے، نہ پیشانی پر بوسہ دیا۔ نہ مجھ سے رختِ سفر باندھنے کی اجازت چاہی، نہ زادِ راہ مانگا۔ میرے سارے احسانات میری دہلیز پر رکھ کر چل دیے۔ میرے دودھ کا قرض، میری جاگتی راتوں کا قرض، میری محبتوں کا قرض۔ سب کچھ ادا کیے بغیر چل دیے۔ میرے بچے باقی قرض تو دور کی بات ہے تم تو میرے آنسوئوںکا قرض بھی نہیں چکا سکتے جو تمھاری جدائی میں رات دن میری آنکھوں سے رواں رہتے ہیں۔ کیونکہ موت تمھیں یہ قرض چکانے کے لیے دنیا میں آنے کی اجازت نہیں دے گی۔
اس عورت کو تسلی کے دو بول کون کہے جو اب اپنے گھر میں نہیں رہتی۔ بدروح کی طرح تمھارے کمرے کے باہر بھٹکتی رہتی ہے۔ اْس ماں کے بہتے آنسو کون پونچھے جسے آنسوئوں کی دْھند میں تمھارے دوسرے بہن بھائی دکھائی نہیں دیتے۔ کیا میں ہمیشہ سے سعدی کی ماں تھی۔ اْس سعدی کی جس نے کبھی اْسے ماں جانا ہی نہیں۔ سعدی…!
تم تو کچے جذبات کے گھوڑے پر سوار ایک بڑی نافرمانی کرکے چلے گئے۔ تیری ماں کیا کرے۔ تو یہاں میرے پاس ہوتا تو شاید سات خون بھی معاف کردیتی مگر تم نے اب ماں کی نہیں رب کی حدود کو توڑ ڈالا۔ وہ جو مہربان ہے، وہ جو زندگیاں اور خوشیاں دیتا ہے۔ تم نے اسی کے حکم کی خلاف ورزی کر ڈالی۔ تمھیں کس نے حق دیا تھا اپنی جان لینے کا اور پھر عمر بھر اپنی ماں کو دکھ کا عذاب دینے کا۔ اس نافرمانی پر تو معافی بھی نہیں ملتی۔
ساری دنیا کی مائیں اپنی اولاد کے مرنے کے بعد بخشش کی دعائیں کرتی اور اطمینان پاتی ہیں۔ مجھے تو آخری سانس تک یہ اطمینان بھی نہیں مل پائے گا۔ کیا خبر رب کے حضور حاضری ہو تو سارا قصور میرا ہی نکل آئے جو نہ تم کو اپنے آپ پر اعتماد کرنا بتاسکی، نہ رشتوں سے محبت سکھا سکی۔ حد تو یہ ہے کہ اپنے اللہ اور رسولؐ کے احکام بھی نہ سمجھا سکی۔ تو زندہ تو رہتا، تیری ماں تجھے دن میں کتنی بار دعائیں دیتی، جیتے رہو۔ کل تیرے بچے ہوتے، تمھیں ان سے خوشی اور سکھ ملتے۔ کیا خبر ان کے رنگ ہی گورے ہوتے۔ مگر سعدی! تو نے لمحے بھر کو بھی نہیں سوچا جو گورے نہ ہوں وہ جیتے نہیں ہیں کیا؟کاش تو زندہ ہوتا۔ کاش تو اتنی بڑی نادانی اور نافرمانی نہ کرتا۔ مگر کوئی مجھے بھی تو بتائے۔ میں کیا کروں۔ اپنے دل اور آنکھوں کو کہاں لے جائوں۔ جب تک زندہ ہوں سعدی کے کمرے کا پہرہ دینا ہی میرا مقدر ہوگیا ہے کیا؟
——