’’مسلمان ماضی کے حسین تصورات میں جیتے ہیں۔‘‘ یہ جملہ غیرمسلم دانشوران طنزاًاور مسلم علماء اور اسلام پسند دانشوران اعتراف حقیقت کے طور پر کہتے ہیں۔ امت کے حالات و مسائل کی فکر کرنے والے اس بات پر نظر رکھتے ہیں کہ امت کا بڑا طبقہ مستقبل سے نظریں چرائے حال کی عیش سامانیوں میں مگن ہے۔ اور موجودہ دور کی تمام تر ذلت و نکبت اور مظلومیت و مغلوبیت اسی بیماری کا شاخسانہ ہے۔ حالانکہ اسلام کی تاریخ ہمیں یہ بتاتی ہے کہ مسلمان مستقبل شناس ہوتا ہے اور اسے ہونا چاہیے۔ اس کا غیب پر ایمان لانا زندگی کے حقائق اور مستقبل کے دھندلکوں سے اس طرح پردہ اٹھادیتا ہے کہ وہ آنے والے وقت کی تبدیلیوں کو بچشم سر دیکھنے کے قابل ہوجاتا ہے۔
مکہ کے دور مظلومیت میں غلبت الروم فی ادنی الارض و ہم من بعد غلبہم سیغلبون کہہ کر روشن مستقبل کی خبر سنائی گئی اور اہل ایمان نے اس کا مشاہدہ کیا۔ اللہ کے رسول انتہائی بے چارگی کے عالم میں اہل مکہ سے چھپ کر ہجرت کررہے تھے۔ اس وقت سراقہ بن جعشم کو آپ نے خوش خبری دی کہ میں کسریٰ کے کنگن تمہارے ہاتھوں میں دیکھ رہا ہوں۔ صحابہ کرامؓ سے ایک مرتبہ آپ نے فرمایا کہ ایک وقت وہ آئے گا کہ مدینہ سے حضر موت تک ایک عورت سونا اچھالتی چلی جائے گی اور اسے اللہ کے علاوہ کسی کا ڈر نہ ہوگا۔
مستقبل کے پردوں سے حقائق کا پتہ لگانے کے لیے ضروری ہے کہ امت کے افراد جدوجہد اور محنت کے ذریعہ دور بین نگاہیں پیدا کریں۔ اور اپنی زندگی کا رشتہ عروج اقبال کی ضمانت سے استوار کریں۔ عروج و اقبال اور غلبہ و سربلندی کے سرچشمہ کے بارے میں نشان دہی کرتے ہوئے فرمایا گیا :
ان اللہ یرفع بہذا الکتاب اقواما ویضع بہ آخرین۔
’’اللہ تعالیٰ اس کتاب یعنی قرآن کے ذریعہ کچھ لوگوں کو بلندی اور غلبہ و اقتدار عطا کرے گا اور کچھ لوگوں کے لیے اسے مغلوبیت و رسوائی کا ذریعہ بنائے گا۔‘‘
اور اس وقت پوری امت کا رشتہ اس سرچشمے سے کٹا ہوا ہے۔ اور یہی بیماری کا اصل سبب ہے۔
یہ امت اپنی ابتداء ہی سے اور اپنے مزاج کے اعتبار سے داعی امت اور نیکیوں کو پھیلانے اور برائیوں کو مٹانے والی امت ہے۔ یہی اس کا وجود ہے اور یہی اس کا مقصود ہے۔ اگر یہ مفقود ہے تو امت کا وجود بے سود۔ یہی اس کے وجود کی ضمانت ہے اور یہی اس کے بقاء، باہمی اتحاد اور عزت و سربلندی کا راز۔ اگر یہ نہ ہوتو اس کا وجود بے معنی۔ اللہ کے رسول نے اس حقیقت کی طرف اشارہ فرمایا تھا۔
’’خدا کی قسم تم ضرور لوگوں کو نیکیوں کا حکم دیتے رہو گے اور برائیوں سے روکتے رہو گے۔ اگر ایسا نہ ہوا تو اللہ تعالیٰ تم پر عذاب نازل فرمادے گا ۔ پھر تم اسے پکاروگے اور تمہاری پکار سنی نہیں جائے گی۔ اور مثالیں سامنے ہیں۔ افغانستان جہاں باہمی اتحاد کا شیرازہ بکھر گیا اور دشمن غالب آیا۔ مثال ہے عراق کی جہاں وحدت امت کا سبق بھلادیا گیا اور دشمنوں کی ہوس کا نشانہ بنے۔ اور … مثال ہے فلسطین کی جہاں امت کے جسدِ واحد ہونے کا تصور ماند پڑا اور دشمن طاقتیں چڑھ دوڑیں۔
یہ ہماری بیماریاں ہیں۔ انفرادی، اجتماعی، سیاسی اور دینی بیماریاں جن کا علاج کیے بغیر ذلت و رسوائی سے نکلنے کی تمنا محض آرزو اور خواہش ہی رہے گی۔ اس لیے آئیے اس سے نکلنے کے راستے تلاش کرتے ہیں۔ اور یہ راستے پہلے ہی سے موجود ہیں بات صرف اتنی ہے کہ ہم ان راستوں سے بھٹک کر دوسری پگڈنڈیوں پر چل نکلے ہیں۔
مظلومیت اور مغلوبیت سے نکلنے کا فارمولہ خود اللہ تعالیٰ نے پیش کیا ہے اور بدر و احد کے واقعات نے دنیا کے سامنے اس فارمولے کی حقانیت کو ثابت کردیا ہے۔ تاریخ اسلام میں قیصر و کسریٰ سے اسلامیوں کی جنگوں نے یہ بتادیا ہے کہ یہ فارمولہ صد فیصد کارگر اور کامیاب ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
انتم الاعلون ان کنتم مؤمنین۔ ’’تم ہی سربلند رہو گے اگر تم واقعی مومن ہو۔‘‘
اس لیے سب سے پہلے ہمیں انفرادی اور اجتماعی سطح پر اپنے اندر ایمان کا پودا لگانا ہے اور اپنی ذات اور اپنے معاشرہ میں اس کی جڑوں کو اتنا مستحکم اور گہرا کرنا ہے کہ کفروشرک کی آندھیاں بھی اگر چلیں تو یہ ایمان کا درخت سینہ تانے کھڑا رہے۔ اگر ہم اس پودے کو اتنا مضبوط اور تناور درخت بنانے میں کامیاب ہوگئے تو اس کی وہ تمام شاخیں خود بہ خود پھوٹنے لگیں گی جن کا تقاضہ اہل ایمان سے کیا جارہا ہے۔ اس لیے کہ یہ ناممکن ہے کہ ایک شخص مومن بھی ہو اور تفرقہ پسند بھی۔ صاحب ایمان بھی ہو اور فریضۂ دعوت سے غافل بھی۔ نیکیاں کرنے والا تو ہو مگربرائیوں کومٹانے والا نہ ہو۔
اس لیے آئیے ہم عہد کرتے ہیں کہ اپنی ذات کو، اپنے گھر کو اور پھر اپنے معاشرہ کو ایمان کی مضبوط رسی سے باندھیں گے اور واعتصموا بحبل اللہ جمیعا ولا تفرقوا کی مثال بن کر اپنی زندگی کا رشتہ اللہ کی کتاب سے مضبوط کریں گے کیونکہ یہی ہمارے بقا کی ضامن ہے اور یہی ہمیں مظلومیت اور مغلوبیت سے نکالنے والی بھی۔