تنظیم اوقات

تحریر: تیسیر الزاید ترجمہ: تنویر آفاقی

دنیا کے ہر شخص کے لیے گھنٹہ ساٹھ منٹ کا ، دن ۲۴ گھنٹے کا اور ہفتہ سات دن کا ہی ہوتا ہے۔ اس کے باوجود مشاہدے میں آتا ہے کہ بعض لوگ وقت کو استعمال کرنے میں کامیاب رہتے ہیں اور اسی محدود وقت میں اپنے مطلوبہ ہدف کو حاصل کرلیتے ہیں، ان کے دنیوی امور کے علاوہ عبادات اور دینی امور بھی اچھی طرح انجام پاتے ہیں۔ اس کے برعکس کچھ لوگ ہر وقت گھڑی کی سوئی کے پیچھے بھاگتے رہتے ہیں۔ نہ ان کی زندگی میں سکون و چین ہوتا ہے اور نہ ہی وہ اپنے مطلوبہ اہداف تک پہنچ پاتے ہیں۔ ان کی زندگی بھی بے لطف ہوتی ہے اور وہ عبادت کا حق بھی صحیح سے ادا نہیں کرپاتے ہیں۔
دونوں قسم کے افراد کے درمیان فرق یہ ہے کہ ایک نے وقت کی اہمیت کا ادراک کرلیا ہے اور ان کو یہ معلوم ہے کہ وقت کو کس طرح منظم کیا جائے۔ دوسری قسم کے افراد کو وقت کی اہمیت کا شعور تو کسی حد تک ہے مگر وہ اسے منظم اور کارآمد نہیں بنا پائے۔ اللہ کے رسولﷺ نے وقت کی اہمیت کو واضح کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:
’’دو نعمتیں ایسی ہیں جن کے سلسلے میں اکثر لوگ فریب اور نقصان کا شکار رہتے ہیں۔ ایک صحت اور دوسری فرصت۔‘‘ (بخاری)
اللہ اور رسولﷺ کی اطاعت و فرماں برداری میں اپنے وقت کو استعمال کرنے والا شخص قابلِ رشک اور خوش بخت ہے اور اللہ و رسول کی نافرمانی میں اپنے وقت کو ضائع کرنے والا فریب خوردہ اور نقصان اٹھانے والا ہے۔ آپؐ نے صحت اور فرصت کی اہمیت کو اس لیے واضح فرمایا کیونکہ صحت نہ ہو تو بیماری حملہ آور ہوتی ہے اور فرصت چلے جانے کا مطلب ہے کہ آدمی ہر دم مشغول رہے اور اس پر مصروفیت کا بوجھ رہے۔
مغربی مثل ہے کہ ’’وقت ہی دولت ہے۔‘‘ (Time is money)۔ حضرت حسن بصریؒ فرماتے ہیں کہ ’’میں نے ایک شخص کو دیکھا جو مال سے زیادہ اپنی عمر کے سلسلے میں فکر مند رہتا تھا۔‘‘ اس کو یہ شعور حاصل ہوگیا تھا کہ اگر عمر ضائع ہوگئی تو اس کا کوئی متبادل اسے ملنے والا نہیں ہے لیکن اگر دولت آج اس سے رخصت ہوگئی تو ہوسکتا ہے کہ کل پھر واپس آجائے۔
ہمارا خیال تو یہ ہے کہ وقت اور دولت میں کوئی مماثلت ہی نہلیں ہے، بلکہ وقت دولت سے بھی زیادہ قیمتی شے ہے۔ عظیم صحابی حضرت عبداللہ بن مسعودؓ فرمایا کرتے تھے کہ ’’مجھے اس دن سے زیادہ کبھی ندامت اور افسوس نہیں، جس دن صبح سے شام ہوگئی ہو اور میری زندگی کا ایک دن کم ہوگیا ہو، لیکن میرے عمل میں کوئی اضافہ نہ ہوا ہو۔‘‘
وقت کو منظم کرنا ایک آرٹ اور فن ہے۔ سوال یہ ہے کہ ہم اپنے وقت کو کس طرح منظم کریں کہ وہ ہمارے لیے زیادہ کارآمد بن جائے؟ نیز وقت کو منظم کرنے کا مطلب کیا ہے؟ وقت کو منظم کرنے کامطلب ان طریقوں اور ذرائع کا اختیار کرنا ہے جن کی مدد سے ہم اپنے اہداف کو بہ آسانی اور کم وقت میں حاصل کرسکیں۔ اس کے لیے ہمیں اپنی ذمہ داریوں، اپنی دلچسپیوں اور اپنے اہداف کے درمیان توازن قائم کرنا پڑے گا۔ تنظیم اوقات کے ماہرین کی رائے یہ ہے کہ ہم اپنے وقت کو جتنی مستعدی سے استعمال کریں گے اس کے بہتر نتائج اسی قدر زیادہ اور اچھے ہوں گے۔
جس خاندان کا ہر شخص (شوہر و بیوی) ملازمت پیشہ ہو، وہ اگر اپنے وقت کو اچھے طریقے سے منظم کرلیتے ہیں تو معاملات و عبادت دونوں چیزیں اخلاص کے ساتھ انجام دے لیتے ہیں نیز اپنی خاندانی زندگی کو بھی مستعدی کے ساتھ گزار پاتے ہیں۔ ان تمام مصروفیتوں کے باوجود ان کے پاس تفریح کے لیے بھی وقت ہوتا ہے۔ یعنی وہ اپنی ذمہ داریوں اور دلچسپیوں کے درمیان توازن قائم رکھتے ہیں۔
وقت کی تنظیم صرف بڑوں کے لیے ہی سود مند نہیں ہے بلکہ اس کی اہمیت بچوں کے لیے بھی ہے، وہ بھی اس سے مستفید ہوسکتے ہیں۔ انھیں بھی اس کی تربیت دی جاسکتی ہے اور دی جانی چاہیے والدین کی حیثیت سے ہماری یہ ذمہ داری ہے کہ ہم اپنے بچوں کو وقت کا بہترین استعمال، نظم و ڈسپلن اور وقت کی پابندی سکھائیں۔
پیش نظر کاموں کے چارٹ پر ایک نظر
سب سے پہلے آپ اس سوال کا جواب طے کریں کہ روز مرّہ کے کاموں کی انجام دہی میں آپ کا کتنا وقت صرف ہوتا ہے؟ اس سلسلے میں آپ کو کرنا یہ ہے کہ ہفتے بھر کے کاموں کی فہرست تیار کرلیں۔ ہر کام کے آگے یہ بھی لکھ لیں کہ اس کو انجام دینے میں کتنا وقت صرف ہوسکتا ہے۔ بہتر یہ ہے کہ آپ اس کو ٹیبل کی شکل میں لکھیں۔
۱- اب جو ٹیبل آپ کے سامنے ہے، اس پر نظر ڈال کر یہ دیکھیں کہ اس میں کون سا کام ایسا ہے جس میں آپ زیادہ وقت لگاتے ہیں، لیکن اس کے فوائد زیادہ حاصل نہیں ہونے والے ہیں۔ مثال کے طور پر گھنٹوں ٹی وی دیکھنا، لمبی مدت تک ٹیلیفون پر گفتگو وغیرہ، ان پر صرف ہونے والے وقت کا حساب لگاتے وقت اس وقت کو شامل کرنا نہ بھولیں جو مذکورہ کاموں میں ضائع کیے گئے وقت پر افسوس کرنے میں صرف ہوگا۔
۲- ان کاموں کو اولیت دیں جن کے متعلق آپ کا خیال ہے کہ وہ ضروری ہیں، مثلاً نماز کی ادائیگی، دیگر عبادات، صحت پر توجہ؛ ورزش وغیرہ۔ ایسا کوئی سامان جس کی مرمت فوری طور پر ضروری ہو، اخراجات کی ادائیگی اور ڈیوٹی کی انجام دہی وغیرہ۔
۳- دوسرے نمبر پر وہ کام رہیں جن کا تعلق آپ کے گھریلو مستقبل سے ہے۔ مثلاً جو وقت آپ اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ گزارنا چاہتے ہیں، بچوں کا ہوم ورک کرانے یا انھیں پڑھانے پر صرف ہونے والا وقت یا جو وقت آپ اپنی تربیت اور اپنے کام بہتر بنانے کے لیے استعمال کرنے والے ہیں۔
۴- ان کاموں کو آپ سب سے موخر رکھیں جن کو فرصت کے اوقات کے لیے ملتوی کیا جاسکتا ہو۔ مثال کے طور پر ایسا کام جس کا مطالبہ کسی اور کی جانب سے ہو، حالانکہ وہ خود بھی اس کام کو انجام دے سکتا تھا، لیکن اپنی کسل مندی اور سستی کی وجہ سے آپ کے اوپر ڈال دیا ہو۔
گھر میں تنظیم اوقات
۱- ہر روز انجام طلب کاموں کاٹیبل تیار کریں اور خیال رکھیں کہ ٹیبل کو بہت پیچیدہ نہ بنائیں۔ ہر کام کے لیے ایک محدود وقت کا تعین کریں نیز ایسے کام جو بہت زیادہ ضروری نہیں ہیں انھیں کم سے کم وقت دینے کی کوشش کریں۔
۲- جس کا جو وقت مقرر کیا ہے، اسے اسی وقت پر انجام دے ڈالیں، دوسرے کاموں کے ساتھ مؤخر نہ کریں۔ اگر آپ اسے مؤخر کریں گے تو وقت زیادہ صرف ہونے کا امکان ہے۔
۴- تفریح کے اوقات کے لیے پہلے سے ہی منصوبہ بندی کرکے رکھیں۔ ہفتہ وار چھٹی کے لیے بھی پہلے ہی سے پروگرام بناکر رکھا کریں۔ عین وقت پر سوچیں گے تو کافی وقت ضائع ہوگا۔
۵- کھانے کی اشیا کی ہفتہ وار فہرست بناکر رکھیں نیز گھر کے لیے جو اشیاء خریدنی ہیں ان کی فہرست بھی بناکر رکھیں۔
۶- گھر کے کسی کام کو مکمل کرنا پیش نظر ہو تو اس کے لیے ایک وقت مقررکردیں اور اس کی پابندی بھی کریں۔
۷- ہفتے بھر کے اندر انجام دیے جانے والے کاموں کی فہرست تیار کریں اور اہمیت کے اعتبار سے ان کاموں کو ہفتے کے سات دنوں میں تقسیم کردیں۔
۸- ایک ہی وقت میں دو کاموں کو بہ یک وقت انجام دینا ممکن ہو تو، ایسا ضرور کریں۔ مثال کے طورپر موبائل سے گفتگو کرتے وقت بے ترتیب رکھی ہوئی میز کرسیوں کو درست کردیں۔ یا آپ کوئی مخصوص سی ڈی یا کیسٹ سننا چاہتے ہیں تو گھر کے دوسرے کام انجام دیتے وقت اسے سن سکتے ہیں۔ اس کے لیے الگ سے وقت مخصوص کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
۹- گھر کے بیشتر افراد کا جو دن چھٹی کا ہو، اس کو بھی اہمیت دیجیے۔سونے کے اوقات بھی متعین کیجیے۔ اس سے آپ کا کافی وقت بچ سکے گا۔
۱۰- بہت سے روز مرہ کے کاموں کے تعلق سے جو وقت آپ بلا وجہ کی بحث و مباحثے میں نکال دیتے ہیں، اسے حتی الامکان بچانے کی کوشش کیجیے۔ مثلاً امی اور بچوں کے درمیان عام طور پر اس مسئلے پر بحث ہوتی ہے کہ وہ کون سے اور کس قسم کے کپڑے پہنیں، یا یہ کہ آج کھانے میں وہ کیا کھائیں گے ، ہر شخص اپنی اپنی پسند کا اظہار کرتا ہے اور اس پر بحث بھی ہونے لگتی ہے۔ یا گھر کے کسی متعینہ کام کو لے کر بھی یہی ہوتا ہے کہ اسے کون انجام دے۔ ہفتے میں ایک روز بیٹھ کر ان تمام مسائل کو طے کرلینے سے روز صرف ہونے والا اچھا خاصہ وقت بچایا جاسکتا ہے۔
——

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں