تنگیٔ رزق…ایک پہلو

وقار احمد

جب کوئی مریض بیک وقت کئی قسم کی بیماریوں میں مبتلا ہو تو معالج کی سمجھ میں نہیں آتا کہ کونسی دوا کرے۔ اسی طرح اس وقت ہم اپنے معاشرے میں دکھ درد، بد اخلاقی اور فساد کی گونا گوں جہتیں دیکھ رہے ہیں کہ بڑے بڑے دانشوروں کی عقلیں گنگ ہوئی جاتی ہیں اور کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ معاشرے کے علاج کا کونسا سارخ اختیار کیا جائے۔ ان ہی میں سے ایک رزق کا تنگ ہوناہے۔
حالت یہ ہے کہ کسی بھی دینی محفل کے اختتام پر یا اخلاق میں اپنے سے بہتر کوئی شخص نظر آئے تو اس سے دعا کی درخواست میں کہا جاتا ہے کہ میرے رزق کے لیے دعا کریں، میرا رزق تنگ ہے، کوئی تسبیح بتادیں، کاروبار میں جو لگاتا ہوں، سب ڈوب جاتا ہے، حالانکہ رزق حلال لگاتا ہوں، دوکان میں بے برکتی ہے، جس کام میں ہاتھ ڈالتا ہوں نقصان ہوتا ہے وغیرہ وغیرہ۔ ہر پھر کے بات مہنگائی پر آجاتی ہے۔ عوام نے مہنگائی پر صبر کرلیا ہے اور اس کو اپنے مسائل کی جڑ سمجھ کر خود پر بے بسی کو طاری کرلیا ہے۔
میں نے کچھ احادیث کا مطالعہ کیا تو رزق کے تنگ ہونے کا ایک ایسا پہلو سامنے آیا جو بالکل آئینے کی طرح ہمارے سامنے کے داغ دکھا رہا تھا۔ دل چاہا کہ جو میری سمجھ میں آیا ہے آپ کو بھی اس میں شامل کرلوں۔ میرا مخاطب وہ دو فیصد طبقہ نہیں جس کے سرمائے اور جائیدادوں کی ہوشربا تفصیلات پڑھ کر ایک قاری انھیں اپنی تباہ حالی کا ذمہ دار قرار دے کر سر منہ جھکا کر بیٹھ جاتا ہے، وہ تو اس مضمون کو پڑھنا بھی پسند نہ کریں گے۔ میرے مخاطب وہ عام، متوسط اور نچلے طبقے کے افراد ہیں جنھیں عام کہا جاتا ہے۔
بخاری شریف میں حدیثِ قدسی ہے کہ ’’اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میں ہی اللہ ہوں، اور میں ہی رحمن ہوں، میں نے رحم (رشتہ داری) کو پیدا کیا میں نے اس کا نام اپنے نام سے نکالا ہے، جو اس کو جوڑے گا، میں اس کو جوڑوں گا اور جو اس سے قطع تعلق کرے گا میں بھی اسے ٹکڑے ٹکڑے کردوں گا۔‘‘
پہلی وحی کے پرجلال تجربے کے بعد دنیا کے سب سے بہترین انسان گھر میں داخل ہوتے ہیں، حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی خدمت گزاری کے بعد اوسان بحال ہوتے ہیں اور آپ واقعہ گوش گزار کرتے ہیں، حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا بے ساختہ جن الفاظ میں تسلی دیتی ہیں، وہ تاریخ میں ہمیشہ پڑھے اور لکھے جاتے رہیں گے: ’’ہرگز یہ نہیں ہوسکتا، اللہ تعالیٰ آپ کو کبھی رنجیدہ نہیں کرے گا، کیوں کہ آپ رشہ داروں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرتے ہیں، بے سہاروں کا سہارا بنتے ہیں، محتاجوں کے لیے کماتے ہیں، مہمانوں کی تواضع کرتے ہیں، ضرورت مندوں کی مدد کرتے ہیں۔‘‘
ان الفاظ سے جو روشنی ملتی ہے، وہ ہمیشہ مشعلِ راہ رہے گی بشرطے کہ کوئی روشنی کا طالب ہو۔ ہم رزق کے حصول کے لیے ہر طریقہ اپنا رہے ہیں، بہتر نوکری کی تلاش، اوورٹائم کرکے آمدنی میں اضافہ کرنے کی کوشش کررہے ہیں، دن رات اس جدوجہد میں ایک کیے دے رہے ہیں، لیکن اس روشنی کے ہوتے ہوئے راستے کے پتھروں سے اندھوں کی طرح سر پھوڑ رہے ہیں۔ میں آج آپ کو آپ کے گھر اور قریبی عزیز و اقارب کے حوالے سے جھنجھوڑنا چاہتا ہوں۔ قرآن و حدیث میں یہ ذکر بعنوان ’’صلۂ رحمی‘‘ اور ’’قطع رحمی‘‘ آیا ہے۔
صلہ عوامی زبان میں بدلہ، تنخواہ کے معنی میں استعمال کیا جاتا ہے، ہم کہہ رہے ہوتے ہیں کہ میں نے یہ کام کیا تو مجھے اس کا کیا صلہ ملا، یا ملے گا۔ اسی بنیاد پر انتہائی قریبی عزیزوں سے سلوک کا مطلب یہ لیتے ہیں کہ ہمیں بھی سلوک کا ان کی طرف سے کوئی بدلہ ملنا چاہیے۔ حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ’’رسولِ خدا ﷺ نے فرمایا: صلۂ رحمی کرنے والا وہ نہیں جو اپنے رشتہ داروں کی طرف سے کی گئی صلۂ رحمی کے جواب میں صلۂ رحمی کرے، بلکہ صلۂ رحمی کرنے والا وہ ہے کہ جب اس سے قطع رحمی کی جائے تو وہ اس کے جواب میں صلۂ رحمی کرے۔‘‘
صلہ کا مطلب جوڑنا ہے۔ اردو زبان میں وصل کے ہم معنی ہے۔ بدلہ لینا یا بدلہ ملنا نہیں اور رحم کا مطلب وہ رشتے جن کی بنیاد خون ہو یعنی ددھیالی اور ننھیالی رشتہ دار۔
قرآن کی ہدایت بھی پڑھ لیجیے: سورہ النساء آیت ۴-۱ ’’اللہ سے ڈرو جس کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے اپنے حق مانگتے ہو، اور رشتہ داری اور قرابت کے تعلقات کو بگاڑنے سے پرہیز کرو۔‘‘
سورۃ رعد آیات ۲۵-۱۳ میں ان لوگوں پر لعنت کی گئی ہے، جو رشتہ داری اور قرابت کے تعلق کو توڑتے ہیں۔
ہم اس گناہ کو بڑا ہلکا سمجھتے ہیں، بلکہ گناہ سمجھتے ہی نہیں اور ذرا ذرا سی بات پر رشتہ کو منقطع کرلیتے ہیں۔ بڑی آسانی سے اپنی ذات کو نکال کر دوسرے کو مطعون کرتے ہیں کہ وہ اسی قابل تھے، اس لیے ہم نے ان سے رشتہ توڑ لیا ہے۔ پھر اس کو قابلِ فخر سمجھ کر دیگر عزیزوں کے سامنے تعلق توڑنے کا اعلان کرتے ہیں۔ خواتین اپنے دائرے میں اور مرد اپنے دائرے میں کچھ یوں اظہار کرتے ہیں کہ ہم تو اپنے سسرال والوں کو منہ نہیں لگاتے، میں تو ان کے گھر جاتی ہی نہیں ہوں، وہ اپنے گھر خوش، ہم اپنے گھر میں خوش۔ ہم نے تو ملنا جلنا چھوڑ دیا، ان سے مل کر ہمیشہ تکلیف ہی ہوتی ہے۔ ایک دفتر ایک کارخانے میں کام کرتے ہیں، لیکن کہتے ہیں: میں تو سلام دعا بھی نہیں کرتا، میں تو جواب ہی نہیں دیتا، ہمارا دل توایسا ہے کہ کسی کی طرف سے ایک دفعہ ہٹ گیاتو ہٹ گیا، وہی ذلیل ہوکر ہماری توجہ لینے کی کوشش کرتا ہے، وغیرہ وغیرہ۔
ترمذی میں حضور ﷺ کا ایک فرمان نقل ہوا ہے کہ ’’جو مسلمان، لوگوں کے ساتھ مل جل کر رہتا ہے اور ان کی طرف سے پہنچنے والی تکلیفوں کو برداشت کرتا ہے وہ اس شخص سے بہتر ہے جو لوگوں سے الگ تھلگ رہتا ہے اور ان کی طرف سے پہنچنے والی تکلیفوں پر رنجیدہ ہوتا ہے۔‘‘
خونی رشتوں یعنی اپنی بہن، اپنے بھائی، ماں یا باپ، چچا، دادا، نانانانی یہ وہ رشتے ہیں جن کے ساتھ ملنا جلنا ترک کردینا، ان کے خلاف برے جذبات رکھنا اور ان سے باہمی تعلق توڑ دینے کا اعلان کردینا گناہِ کبیرہ ہے او ر اپنے لیے بے شمار الجھنوں کو دعوت دینے کا ذریعہ بھی ہے۔ جو رحم کے رشتوں کو کاٹتا ہے، اللہ نے اعلان کیا ہے کہ وہ اس کو ٹکڑے ٹکڑے کردیتا ہے۔ اس کی معاشرت، اس کی معیشت، اس کی صحت، اس کے جسم اور اس کی روح سے اللہ کی رحمت دور ہوجاتی ہے۔ کوئی ساتھی دوست، ہمسائے اس کا ساتھ دینا چاہیں تو وہ دیرپا یا سود مند ثابت نہیں ہوتا۔ کوئی کاروبار کے لیے کچھ سرمایہ دیتا ہے، کبھی اس کے کام میں شراکت داری کی بنیاد پر ساتھ دیتا ہے تو وہ کچھ دن کے لیے تو پنپ جاتا ہے، جس کو کہیں کہ مصنوعی تنفس کے ذریعے زندگی کی ڈور کا بحال ہوجانا، مگر کچھ دن بعد چونکہ اس گناہ سے دامن پاک نہیں کیا تھا، لہٰذا اس مدد گار سے بھی تعلقات کشیدہ ہوجاتے ہیں اور وہ اسی مقام پر آجاتا ہے، جہاں سے کاروباری سفر کا آغاز کیا تھا، بلکہ اب قرض کی دلدل کچھ اور گہری ہوجاتی ہے۔
اگر میں آپ کو صلۂ رحمی کے اجر و ثواب بتاؤں تو آپ مطمئن ہوجائیں گے کہ آپ ایسا ہی تو کرتے ہیں، لیکن میرا ایسا ارادہ نہیں میں تو قطعِ رحمی کے ان نقصانات کی طرف نشاندہی کرنا چاہتاہوں جسے آپ میں سے بہت سے بھگت رہے ہیں۔
اللہ تعالیٰ تو بڑے بڑے گناہوں کا پردہ ڈھک دیتے ہیں۔ لیکن ترمذی میں بیان کردہ حدیث کے مطابق ’’دوسرے گناہوں کے مقابلے میں بغاوت اور قطعِ رحمی ایسے گناہ ہیں کہ ان کا ارتکاب کرنے والے کو اللہ تعالیٰ دنیا میں ہی عذاب دیتا ہے، آخرت میں ان پر جو سزا ہوگی وہ تو ہوگی ہی۔‘‘
رزق کی تنگی گھریلو ناچاقی کا سبب ہمیشہ سے رہی ہے۔ گھریلو زندگی میں بدگمانی اور بے سکونی ڈیرے ڈال لیتی ہے۔ بیوی بچے اور والدین اپنی ضروریات کی عدم فراہمی پر احتجاج کرتے ہیں۔ وہ گھریلو اخراجات جو کسی طور رکنے والے نہیں مثلاً یوٹیلٹی بلز، بچوں کے تعلیمی اخراجات، روزہ مرہ کی غذائی ضروریات، دکھ بیماری کا اچانک آپڑنا ان کا سامنا کرنے والا بنیادی مہرہ بیوی ہوتی ہے۔ ان کی عدم فراہمی کی صورت میں وہ اپنے میکے یا قریبی دوستوں سے امداد وصول کرتی ہے۔ جب یہ سلسلہ دراز ہوتا ہے اور کسی حد پر رکتا نہیں تو معاونت کرنے والے افراد کی نظر میں آپ کی کیا حیثیت رہ جاتی ہے، اس کا اندازہ آپ خود ہی لگا سکتے ہیں۔ وہ معاونین اپنی بہن یا بیٹی کی محبت میں مجبور ہوکر مدد تو کرتے رہتے ہیں، لیکن آپ کے لیے اپنے دل میں نہایت ناپسندیدہ جذبات رکھتے ہیں۔
حضرت ابوہریرہ ؓ سے حدیث مروی ہے کہ ’’جس کو یہ پسند ہو کہ اس کی روزی میں وسعت اور اس کی عمر میں برکت ہو تو اس کو چاہیے کہ صلۂ رحمی کرے۔‘‘
اس سے صاف سمجھ میں آتا ہے کہ قطع رحمی کرنے سے روزی سے برکت اٹھ جاتی ہے۔ بلکہ بعض صورتوں میں تو رزق بالکل روک دیا جاتا ہے کہ ذرائع اور وسائل موجود ہوتے ہوئے بھی انسان ان سے فائدہ نہیں اٹھاپاتا۔ لوگ مشورہ دے رہے ہوتے ہیں کہ اس کام میں آپ ناکام ہیں تو آپ فلاں دوسرا کام کریں تو مشورے بہت زہر لگ رہے ہوتے ہیں۔ بعض دفعہ سخت محنت کے باوجود جائز حق تنخواہ لینے جائیں تو آج نہیں کل والا معاملہ چل پڑتا ہے۔ بعض دفعہ دوکان یا مکان کا سودا ہوتے ہوتے رہ جاتا ہے، غرضیکہ ہزار رکاوٹیں آڑے آنے لگتی ہیں۔
جہیربن مطعم اپنے والد سے روایت کرتے ہیںکہ ’’نبی کریمﷺ نے فرمایا کہ رشتہ داروں سے تعلق توڑنے اور ان سے بدسلوکی کرنے والا جنت میں نہیں جائے گا۔‘‘
جو شوہر اپنی بیویوں کے کہنے پر اور جو بیویاں اپنے شوہروں کے کہنے پر یہ گناہ کبیرہ کرلیتے ہیں، تو اللہ نے ایسا اصول بتادیا ہے کہ دونوں کی آنکھیں کھل جانی چاہئیں۔ اگر شوہر اور بیوی آپس میں لڑجائیں اور نباہ کی کوئی صورت نہ پائیں بلکہ ساتھ رہنا زیادہ فساد کا باعث ہو تو الگ ہوجائیں۔ اللہ دونوں کو ایک دوسرے کی صورت سے بے نیاز کردے گا اور اپنے فضل سے ان کی محتاجی دور کردے گا، لیکن خونی رشتوں کو قطع کردیا تو رزق تنگ کردے گا، برکت اٹھا لے گا اور محتاجی مسلط کردی جائے گی۔
اگر آپ بھی تنگیِ رزق میں اپنے آپ کو مبتلا پاتے ہیں تو ان گزارشات کے آئینے میں اپنے آپ کو دیکھئے۔ اگر آپ نے اس پہلو سے رزاقِ حقیقی کو نہ منایا اور اپنے طرزِ عمل کی اصلاح نہ کی تو اسے آپ کی پرواہ بھی نہیں۔ جس معمولی سی بات پر اپنے بھائی، بہن یا چچا وغیرہ سے تعلق توڑا ہے، اسے کسی بھی طریقے سے بحال کیجیے۔ اگر آپ قطع تعلق کرنے میں اپنے آپ کو حق پر سمجھتے ہیں تو ایک تجزیہ کرکے دیکھئے جس سے آپ نے تعلق توڑا ہے (کسی بھی وجہ سے) کیا وہ بھی رزق کے حصول میں اسی طرح دھکے کھارہا ہے، یا وہاں سب کچھ معمول کے مطابق ہے۔ بچوں کی فیس کا خوف اس پر طاری نہیں، بلوں کی فکر سے وہ آزاد ہے، اگر کرایہ کے گھر میں رہتا ہے تو کرایہ ادا کرنے کے قابل بھی ہے، کچھ مہمانداری بھی کرلیتا ہے، خاندانی تقریبات اور سماجی تعلقات بھی کسی حد تک نبھا لیتا ہے۔ بہت عالیشان نہ سہی لیکن کسی کی مدد اور سہارے کے بغیر اپنا گھرچلا ہی رہا ہے تو سمجھ لیجیے کہ غلطی پر وہ نہیں بلکہ آپ ہیں، تعلق توڑنے کا روحانی اثر اور وبال آپ پر اثر انداز ہورہا ہے اس پر نہیں۔
اگر آپ اس نتیجے پر پہنچ جائیں کہ زیادتی تو آپ ہی کی طرف سے ہوئی ہے، تو پھر جلدی کیجیے خدا کے حضور پہنچ جانے کے بعداس گناہ کی تلافی کا کوئی امکان نہ ہوگا۔ اپنے خالق اور رازق کو منانے کے لیے یہ کام کرنا ہی پڑے گا کہ تعلق کو بحال کیجیے۔ اپنے بھائی کو راضی کرلیجیے، جس پر شدید غصہ ہے اسے سلام کرلیجیے۔ ایسا نہ ہوکہ وہ تو آپ کو سلام کرتا ہو، لیکن آپ ہی کی گردن اکڑی رہتی ہو۔
میری ان گزارشات کے نتیجے میں یہ نہ سمجھا جائے کہ میں مہنگائی اور کرپشن جیسے عوامل کو نظر انداز کررہا ہوں یا ان کے وجود سے انکاری ہوں۔
حضرت خدیجہؓ نے نبی کریم ﷺ کو تسلی دی تھی کہ چونکہ آپ رشتہ داروں کے حقوق ادا کرتے ہیں تو اللہ آپ کو ضائع نہ کرے گا۔ تو ہم بھی سمجھ لیں کہ اس سارے معیشت کے عالمی فساد کے باوجود اگر قطع رحمی کے گناہ سے بچنے کی صورت اختیار کرلی جائے تو ضائع ہونے سے بچ جائیں گے۔ لہٰذا اپنے دل کی سختی کو دور کیجیے۔ اپنے معاملات میں نرمی اور جھکاؤ کو جگہ دیجیے۔ نبی کریمﷺ کا قول ہے: ’’نرمی ہمیشہ بھلائی لاتی ہے اور جس میں سے نرمی نکال لی جاتی ہے اسے عیب دار بنادیتی ہے۔‘‘ اور یہ کہ ’’اللہ اس شخص کو جو درگزر کرتا ہے نہیں بڑھاتا مگر عزت میں۔‘‘
——

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146