اسلامی زندگی گزارنے کے لیے احتساب نفس کی بڑی اہمیت ہے۔ آپ ﷺ نے بھی اپنے صحابہؓ کی تربیت میں احتساب کے پہلو کو نمایاں طور پر بلند کیا۔ خود آپؐ کا معمول تھا کہ توبہ و استغفار میں مشغول رہتے۔اور یہی کیفیت آپ کے صحابہ کی نظر آتی ہے۔ حضرت عمرؓ بار بار کہتے تھے۔ کاش میں تنکا ہوتا کہ مجھ سے حساب نہ لیا جاتا۔ اس کے برعکس ہم دیکھتے ہیں کہ یہودیوں کے اندر یہ مرض جڑ پکڑ گیا تھا کہ ہم انبیاء کے خاندان سے ہیں۔ ہم سے حساب اور پوچھ گچھ نہیں کی جائے گی۔ ہم صرف یہ کہہ کر چھوڑ دیے جائیں گے کہ ہم نبیوں کے خاندان اور شجرئہ نسب کے لوگ ہیں اور ان کے نام لیوا ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے اس غلط عقیدے کی روک تھام کرتے ہوئے قرآن میں کہا:
تلک امۃ قد خلت لہا ما کسبت ولکم ما کسبتم ولا تسئلون عما کانوا یعملون۔ (البقرۃ: ۱۴۱)
’’وہ کچھ لوگ تھے جو گزر گئے۔ جو کچھ انھوں نے کیا ہے وہ ان کے لیے جو کچھ تم نے کیا ہے تمہارے لیے ہے۔ تم سے ان کے کاموں کی کچھ پوچھ نہ ہوگی۔‘‘
یہاں واضح اشارہ انسانوں کے اعمال کی طرف ہے کہ جو جیسا کرے گا ویسا پھل پائے گا۔ ہم کسی کا نام لے کر یا کسی کے اعمال کاحوالہ دے کر جنت میں داخلہ نہیں پاسکتے اور نہ اپنے حساب سے پلاَّ جھاڑ سکتے ہیں۔ ہزار درود و سلام ہمارے پیغمبر حضرت محمد ﷺ پر کہ آپ نے عین مرض کی حالت میں اپنے خاندان کو مخاطب کرکے آنے والی نسلوں کو اس بات کی تعلیم دی کہ اللہ کے یہاں نہ شجرہ کام آئے گا نہ نسب نہ وسیلہ بلکہ صرف ایمان اور عمل کام آئیں گے۔ آپؐ نے اپنے خاندان کے لوگوں کو خطاب کرکے کہا کہ ’’اے پیغمبر خدا کی بیٹی فاطمہ ! اے رسولِ خدا کی پھوپھی صفیہ! کچھ کرلو جو خدا کے یہاں تمہارے کام آئے۔ میں تم کو اللہ کی پکڑ سے بچا نہیں سکتا۔‘‘
جب کوئی قوم اپنا فریضہ منصبی بھلا کر بزرگوں کی میراث پر تکیہ کرنا شروع کردیتی ہے اس قوم کو فعال اور متحرک رہنا مشکل ہوجاتا ہے اور فلاح و کامرانی حاصل کرنا محال ہوجاتا ہے۔ دنیا میں بہت سی قومیں اس غلط فہمی کی وجہ سے تباہ و برباد ہوئی ہیں۔
حضرت محمد ﷺ نے اپنے ماننے والوں کی جس طرح سے تربیت کی تھی اس کا اثر یہ ہوا کہ وہ چاہتے تھے کہ انسان دنیا میں ہی شرعی اعتبار سے سزا پالے تو بہتر ہے۔ ایک صحابیہ تھیں ان سے زنا کا ارتکاب ہوا اور وہ اس سے حاملہ بھی ہوئیں۔ لیکن ان کا نفس اس گناہ اور آخرت کے خوف سے انہیں ملامت کرنے لگا۔ وہ حضرت محمد ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں۔ اور کہا کہ ’’اے رسولِ خدا میرے اس گناہ کی مجھے سزا دی جائے اور مجھے پاک کردیا جائے۔‘‘ وہ چاہتیں تو اپنا گناہ چھپا بھی سکتی تھیں۔ اور اس کی کسی کو خبر بھی نہ تھی۔ رسولِ خدا نے کہا جاؤ ولادت ہونے پر آنا۔ بعد میں وہ اپنے شیر خوار بچے کو لے کر پھر حاضر ہوئیں اور کہا کہ اے رسولِ خدا میرے گناہ کی سزا دی جائے اور مجھے پاک کردیا جائے۔‘‘
رسولِ خداﷺ نے کہا کہ جاؤ اس بچے کو دودھ پلاؤ اور دودھ پلانے کی مدت ختم ہونے کے بعد آنا۔ انھوں نے یہ نہ سوچا کہ چلو مجھے مہلت پر مہلت مل رہی ہے اور اب دربارِ رسالت میں نہ بھی جائے تو کیا ہوگا۔ انہیں تو بس یہ خیال رہا کہ میری کل خدا کے یہاں پکڑ نہ ہو جو بھی سزا ملنی ہے وہ یہیں رسولِ خداؐ کے سامنے اس دنیا میں مل جائے تاکہ کل میں اس دردناک عذاب سے بچ جاؤں ، وہ پھر اس خیال کو لے کر آپؐ کے پاس حاضر ہوتی ہیں اور کہتی ہیں کہ اے رسولﷺ میں اپنے لڑکے کے ساتھ حاضر ہوں اور اب اس کا دودھ بھی چھڑگیا ہے لہٰذا اب میرا فیصلہ کیا جائے اور مجھے اس گناہ کی سزا دی جائے، اس لڑکے کے ہاتھ میں روٹی کا ٹکڑا تھا جسے وہ کھا رہا تھا، آپؐ نے اس لڑکے کو مسلمانوں کے حوالے کردیا اور سزا کے طور پر حکم دیا گیا کہ اس صحابیۂ رسول ﷺکو سنگ سار کیا جائے۔ خالد بن ولیدؓ نے ایک پتھر مارا کہ خون کا فوارہ سر سے نکلا اور ان کی روح پرواز کرگئی۔ رسولِ خدا ﷺ نے کہا کہ انھوں نے جو توبہ کی اگر چنگی والا بھی کرتا تو بخش دیاجاتا پھر آپؐ نے ان کی نمازِ جنازہ پڑھائی۔ (مسلم)
آپؐ نے اس بخشش کا ذکر کردیا۔جس کی طلب صحابیہ کو تھی۔ ایک مومن کی ہمیشہ سوچ یہی رہتی ہے کہ بس اللہ کے یہاں بخش دیا جائے،اسی لیے وہ اپنے ہر عمل کی فکر کرتا ہے اگر کبھی شیطان اسے غلط راستے پر لگا بھی دے اور اسے اس بات کا احساس ہوتا ہے، تو توبہ کرکے اللہ کی راہ کی طرف پلٹتا ہے۔ یقینا انسان بشر ہے، اس لحاظ سے اس سے غلطی ہوجانا کوئی عجب بات نہیں لیکن نیک انسانوں کی خصوصیت یہ ہے کہ جب انہیں اپنی غلطی کا احساس ہوتا ہے تو وہ توبہ کو اپنا شعار بناتے ہیں اور پھر دوبارہ اس راہ پر کبھی نہیں جاتے۔ توبہ دراصل اپنی غلطی پر ندامت، اس کی معافی، اور دوبارہ وہ عمل نہ کرنے کا عہد ان تینوں عناصر کا مجموعہ ہے۔
——