جب میری بیٹی خدیجہ ماں کو دیکھتی تو ہمک کر دونوں ہاتھ بڑھا کر میری طرف بڑھنا چاہتی۔ اس کوشش میں الٹے سیدھے پاؤں مارتی تو اس کا واکر اپنی مخصوص گول ساخت کی وجہ سے اسے آگے بڑھانے کے بجائے اور پیچھے لے جاتا۔ اسے اس حالت میں دیکھ کر مجھے اس پر پیار آنے کے ساتھ ساتھ ہنسی بھی آجاتی۔
جب میں اپنی ذات اور حالت پر غور کرتی ہوں تو محسوس ہوتا ہے کہ میری حالت بھی میری بیٹی سے کچھ زیادہ مختلف تو نہیں ہے۔ اپنے رب سے تعلق مضبوط کرنے کی کوشش میں مجھے لگتا ہے، میں جتنی کوشش آگے بڑھنے کی کرتی ہوں، میری خطائیں مجھے اتنا ہی پیچھے لے جاتی ہیں۔
اللہ میاں نے فرمایا: ’’جنت ان خدا ترس لوگوں کے لیے مہیا کی گئی ہے جو غصے کو پی جاتے ہیں اور دوسروں کے قصور معاف کردیتے ہیں۔ مگر ہماری تو ساری نیکیاں غصہ کی ہی نذر ہوجاتی ہیں۔ آدھا آدھا دن اپنی اسٹوڈنٹ کو اپنے پاس بٹھا کر پڑھانا کہ اس کا امتحان میں پاس ہونا میری عزت کا معاملہ ہے۔ پڑھتی نہیں ہے، ادھر ادھر دھیان رہتا ہے، تھوڑا تھوڑا کام کلاس ورک کا پیوں میں ادھورا رہ جاتا ہے۔ ’’کل ضرور مکمل کرکے لانا‘‘، ’’بھول گئی‘‘، ’’آج پیریڈ نہیں تھا‘‘، ’’آج دانیہ نہیں آئی تھی، کس سے کاپی لیتی‘‘، آخر آگیا ناں غصہ!
’’کیا مسئلہ ہے تمہارا؟ کب ہوگا یہ کام، چار دن سے یہ کام کرنے کو کہا ہوا ہے۔ کلاس ورک پورا کروانا میری ذمہ داری نہیں ہے، تمہیں خود مکمل کرکے لانا چاہیے، نہیں پڑھنا ہے تو صاف صاف بتادو۔‘‘ یہ لمبی چوڑی ڈانٹ سن کر دس سالہ یمنیٰ کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ اداس صورت لیے ہی وہ اپنے گھر بھی چلی گئی۔ نماز پڑھتے ہوئے سارا دھیان اس کے آنسوؤں کی طرف رہا۔ میں دوبارہ واکر میں بیٹھ کر پیچھے چلی گئی۔ شاید خلوص اور نیک نیتی میں کچھ کمی ہے۔ یا اللہ میں نے تو کبھی فیس کی لالچ رکھتے ہوئے نہیں پڑھایا کہ بس پڑھادوں اور وقت پر پیسے مل جائیں، بلکہ ہمیشہ یہ فکر دامن گیر رہی کہ یہ میری ذمہ داری ہے تو اسے دیانت داری سے سر انجام دوں۔
گھنٹہ بھر کچن میں کھڑے ہوکر گھر والوں کے لیے بہت محنت سے کھانا تیار کیا۔ سب کھا کر خوش ہوں گے، خدمت کرنا ثواب ہے۔ کھانے کے بعد امی کے پاس سے گزری۔ ’’چائے بنی ہے کیا؟‘‘ امی کا پوچھنا ہی تھا کہ تنک کر جواب دیا : ’’اب چائے کوئی اور بنائے گا میں تھک گئی۔‘‘ ایک پیالی چائے بنانے میں کیا تھا! اللہ نے فرمایا کہ والدین بوڑھے ہوکر ایک یا دونوں تمہارے پاس رہیں تو انھیں اف تک نہ کہو۔ کہاں یہ حال کہ تھک کر یہ سمجھا کہ گھر والوں پر بہت احسان کردیا، اب مزید کچھ نہیںکرنا۔ واکر میں بیٹھ کر پہنچ گئی پھر پیچھے۔ اللہ میاں اس واکر سے میرے جان کب چھوٹے گی، جو مجھے پیچھے ہی پیچھے لے جاتا ہے، کب مجھے اپنے پیروں پر چلنا آئے گا۔ اب تو میری پیاری بیٹی بھی ماشاء اللہ پاؤں پاؤں چلنے لگی ہے۔
اللہ میاں کے پاس بیٹھ کر پھر رونے کے سوا کچھ سجھائی نہیں دیتا۔ سب کچھ ٹھیک ٹھیک کیوں نہیں ہوتا۔ اللہ میاں مدد کریں۔ ہاں اللہ نے توبہ کا در کھلا رکھا ہے کہ میرے بندو! جنھوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا ہے، میری رحمت سے مایوس نہ ہو۔ اور اللہ کے سوا کون ہے جو گناہ معاف کرسکتا ہے۔
——