میں ۱۹۵۴ء میں کراچی گیا تو کراچی واٹر بورڈ میں بطور اوورسیئر سب انجینئر ملازم ہوا۔ میرا پہلا تقرر کراچی سے ۵۶ میل دور ہالیجی جھیل پر ہوا۔ یہ وہ مقام ہے جہاں سے کراچی کے شہریوں کو پینے کاپانی فراہم ہوتا ہے۔ ہالیجی سے کچھ دور، کراچی ٹھٹھہ روڈ پر قصبہ تھیم میں سرکاری کوارٹر میں رہائش ملی۔ چونکہ میں سرکاری ملازم تھا، اور قصبہ تھیم کے کچھ لوگ بیلدار کی حیثیت سے میرے ماتحت تھے، لہٰذا جلدی ہی وہاں کئی لوگوں سے میری جان پہچان ہوگئی۔ ان میں ایک بوڑھا، ابراہیم بھی شامل تھا، وہ ایک بیلدار کا باپ تھا۔ وہ تقریباً روزانہ لاٹھی ٹیکتا ہوا میرے پاس آجاتا اور کچھ دیر بیٹھ کر گپ شپ لگاتا۔ بڑھاپے کے باعث کئی عوارض میں مبتلا تھا۔ میں اسے اچھا کھانا کھلاتا اور دوائی کے لیے مالی امداد بھی دیتا۔ تاہم اس کا رویہ بڑا پُر اسرار قسم کا تھا۔ اس کی باتوں سے مجھے لگتا کہ اس کے دل میں کوئی ایسی بات ہے جو وہ کرنا تو چاہتا ہے مگر کر نہیںپاتا۔
شاید اس لیے کہ ہم دونوں کی عمر میں بڑا فرق تھا۔ میں بیس سالہ نوجوان تھا جبکہ وہ تقریباً ستر برس کا ہوگا۔ مگر وہ یہ ضرور کہتا تھا: ’’سائیں! اب تو میں بوڑھا ہوگیا ہوں مگر جوانی میں لوگ مجھ سے آنکھ ملاتے ہوئے کتراتے تھے۔‘‘
جب میں مزید تفصیل پوچھتا، تو بابا ابراہیم خاموش ہوجاتا۔ بس یہی کہتا، سائیں چھوڑیے گزرے وقت کی یادوں کو کریدنا مناسب نہیں سمجھتا۔ بہر حال وقت گزرتا رہا۔ وہ پُر اسرار ضعیف آدمی اپنا وقت گزارنے میرے پاس آجاتا۔ میں تنہائی کا مارا ہوا تھا، اس کی آمد کو غنیمت سمجھتا۔ میں تقریباً ایک برس وہاں رہا پھر میرا تبادلہ لانڈھی (کراچی) میں ہوگیا۔ جس جگہ میں رہائش پذیر ہوا وہاں سے نزدیک ترین گاؤں اللہ بخش حمایتی کا گوٹھ تھا۔
جب میں تھیم سے رخصت ہوا، تو چاچا ابراہیم مجھے ملا۔ بہت افسردہ تھا، آہ بھر کر کہنے لگا: ’’تمہارے یہاں رہنے سے میری صحت پر اچھا اثر پڑا اور میری تنہائی بھی دور ہوگئی جو بذاتِ خود ایک بیماری ہے۔ میرے لیے دعا کرنا۔ خداوند کریم میرے گناہ معاف کرے۔ اور ہاں، جہاں تم جا رہے ہو، وہاں نوجوانی کا میرا ایک دوست، اللہ بخش حمایتی مقیم ہے۔ اسے میرا سلام کہنا۔ عرصہ ہوا ہماری ملاقات نہیں ہوئی مگر ہم بہت گہرے دوست ہیں۔ اگر ممکن ہوا، تو شاید باقی حالات وہ تمہیں بتادے۔‘‘
بابا سے مل کر میں پپری چلا آیا۔ چند روز تک تو ماحول اور حالات کا جائزہ لیتا رہا۔ اس عرصے میں ریلوے اسٹیشن پر اسٹیشن ماسٹر محمد شریف خاں سے ملاقات ہوئی جو دوستی میں بدل گئی۔ میں فرصت کے اوقات ان کے پاس گزارنے لگا۔ ایک روز اسٹیشن پر بیٹھا تھا کہ اچھے قد کاٹھ کا مالک ایک بوڑھا وہاں سے گزرا۔ جسمانی طور پر وہ بڑا صحت مند تھا۔ اس نے اپنے قد کے برابر لاٹھی اٹھا رکھی تھی۔
اسٹیشن ماسٹر شریف خاں نے پوچھا :’’اوورسیر صاحب! آپ اسے جانتے ہیں؟‘‘
میرے انکار پر انھوں نے بتایا کہ اس بوڑھے کا نام اللہ بخش حمایتی ہے۔ یہ گوٹھ اس کے نام پر ہے کیونکہ اسی نے اسے آباد کیا۔ یہ اپنے وقت کا بڑا طاقتور انسان تھا۔ اب کچھ زمین اور پچاس ساٹھ بھینسوں کا مالک ہے۔ اس کے سات جوان بیٹے کراچی میں کام کرتے ہیں۔ یہ سن کر مجھے ایک دم چاچا ابراہیم کا پیغام یاد آگیا جو میں تقریباً بھول چکا تھا۔
میرے ساتھ اس گوٹھ کے کچھ لوگ کام کرتے تھے۔ میں نے ان سے اللہ بخش کے متعلق پوچھا تو انھوں نے اس کی تعریف کی اور بتایا کہ وہ بڑا ہی نیک دل، مخلص اور عبادت گزار انسان ہے۔ لوگوں کے بہت کام آتا ہے ۔ اب مجھے اس سے ملنے کا اشتیاق ہوا۔ میں نے ان سے کہا کہ وہ کسی وقت اس بزرگ کو میرے پاس لائیں۔ مزدوروں نے وعدہ کرلیا۔ میں غیر سندھی اور پردیسی ہونے کے باعث گوٹھ جانے سے ہچکچاتا تھا۔ لہٰذا اسے میرے کوارٹر لانے کا منصوبہ بنا۔ چند دن بعد میں اپنے کوارٹر میں بیٹھا ہوا تھا کہ اللہ بخش لاٹھی ٹیکتا ہوا میرے پاس آیا اور سلام دعا کے بعد کہا: ’’سائیں! مجھے آپ کا پیغام ملا تھا۔ اگر میرے لائق کوئی خدمت ہو تو حکم کریں۔‘‘
یہ جملے اس نے سندھی میں کہے۔ میں نے بھی جواب سندھی ہی میں دیا ’’میں آپ سے مل کر آپ کے ایک دیرینہ دوست کا پیغام پہنچانا چاہتا تھا۔‘‘
جب میں نے اسے چاچا ابراہیم کے متعلق بتایا، تو وہ ایک دم خاموش ہوگیا اور سندھی میں کہا: واہ رے واہ ابراہیم!‘‘
میں نے دریافت کیا: ’’سائیں! آپ اسے کیسے جانتے ہیں؟‘‘
وہ آہ بھر کر بولا: ’’ایک بھولی بسری کہانی کا کردار ہے۔ اب برسوں بعد اس کا سلام ملا تو پرانی یادیں تازہ ہوگئیں۔ اس کی صحت کیسی ہے، گزر بسر کیسے ہورہی ہے؟‘‘
میں نے اسے اس کی بیماری کے متعلق بتایا اور یہ بھی کہ اس کے بیٹے کماتے اور باپ کو سنبھالتے ہیں۔ بیوی فوت ہوجانے پر البتہ وہ تنہائی کا شکار ہے۔ جس کے باعث کمزور ہوگیا ہے۔ یہ سن کر اسے بہت افسوس ہوا۔ کہنے لگا: ’’جوانی میں وہ مجھ سے بھی زیادہ طاقتور اور دلیر تھا۔ لوگ اسے ابراہیم سے زیادہ دلیر ڈکیت کے نام سے جانتے تھے۔‘‘
میں نے کچھ سوچتے ہوئے کہا: ’’مجھے بابا کی اس حیثیت کا پتا نہیں البتہ شک ضرور تھا، کہ وہ کوئی پراسرار شخصیت ضرور ہے۔‘‘
اب مجھے ان دونوں پراسرار ہستیوں کا ماضی جاننے کا ہوکا لگ گیا۔ میں نے اس پر زور دیا کہ چاچا اپنی کہانی سنائیں۔ وہ پریشان ہوگیا اور پچھتانے لگا کہ اس نے یکدم اپنا راز افشا کیوں کردیا۔ کہنے لگا: ’’سائیں! چھوڑیں اس بات کو، میں نے تو ویسے ہی کہہ دیا تھا۔‘‘ مگر جب میں نے بے حد اصرار کیا تو اس نے وعدہ کرلیا کہ وہ کسی مناسب وقت پر اپنی کہانی سنائے گا۔ وقتی طور پر بات ٹل گئی اور میں خاموش ہوگیا۔
ایک روز سائیں اللہ بخش بہت ترنگ میں تھا اور کافی دیر تک میرے کوارٹر میں بیٹھا رہا۔ چائے کا دور چل رہا تھا۔ میں نے اس کا خوشگوار موڈ دیکھ کر اس سے اپنی زندگی کی کہانی سنانے کی فرمائش کردی تو وہ میری بات ٹال نہ سکا، کہنے لگا ’’نوجوان! کیا یاد کروگے۔ آج میں تمہیں ایک انوکھی اور دلچسپ داستان سناتا ہوں کہ میں اللہ بخش سے ڈکیت اور ڈکیت سے ماموں کیسے بنا؟‘‘ اب اس کی کہانی اسی کی زبانی سنیے: ’’میری جوانی میں یہاں انگریز کی بادشاہی تھی۔ میں یا میرے والد اتنے مالدار نہیں تھے مگر ہم عمر نوجوانوں پر میری طاقت کا سکہ بیٹھا ہوا تھا۔ تاہم میں نے کبھی کوئی ناشائستہ حرکت نہیں کی تھی۔ ہر بڑے چھوڑے سے عزت و احترام سے ملتا۔ ہم عمروں سے دوستی، چھوٹے بچوں اور خواتین سے حسبِ مراتب پیار محبت سے پیش آتا۔ گوٹھ کی لڑکیوں کو بہنوں کی طرح سمجھتا۔ مگر میری ایک بری عادت ضرور تھی کہ جب موقع ملتا، میں چھوٹی موٹی چوری کرلیتا۔ یہ گناہ بھی اسی وقت کرتا جب جیب خالی ہوتی۔ تاہم کوئی بڑی واردات کبھی نہیں کی۔ میں ریلوے میں بطور مزدور ملازم تھا۔ وہاں سے بھی کبھی کبھار لوہے کا کوئی ٹکڑا اٹھالاتا۔
ملازمت کے دوران ابراہیم سے ملاقات ہوئی جو نیا نیا ملازم ہوا تھا۔ ہم دونوں گہرے دوست بن گئے۔ وہ بھی کڑیل جوان تھا۔ چند ماہ بعد مجھے احساس ہوا کہ وہ اکثر دو تین روز کے لیے غائب ہوجاتا ہے۔ واپسی پر بتاتا کہ وہ فلاں جگہ رشتہ داروں کے پاس گیا تھا یا کسی کام سے گیا تھا۔ دیہاڑی کٹنے کا بھی اسے کوئی ملال نہ تھا۔ حالانکہ اس وقت روپیہ ڈیڑھ روپیہ بڑی رقم تھی جسے کوئی مزدور چھوڑنے کا تصور بھی نہیں کرسکتا تھا۔ خاص طور پر گھریلو حالات کے پیش نظر یہ بہت بڑا نقصان تھا۔ مگر ابراہیم کو اس نقصان کی پروا نہیں تھی۔ اس کے علاوہ وہ دل کھول کر رقم خرچ کرتا اور مجھے اور دیگر دوستوں کو کھلاتا پلاتا۔
ایک روز میرے اصرار پر اس نے یہ انکشاف کرکے مجھے حیرت زدہ کردیا کہ وہ دیگر اضلاع میں جاکر نقب زنی اور چوریاں کرتا ہے۔ اس کے ساتھ دو تین دوست اور بھی تھے۔ اسی لمحے اس نے مجھے اپنے گروہ میں شامل ہونے کی دعوت دی۔ پہلے تو میں خوف زدہ ہوا مگر اس کی حوصلہ افزاباتوں کے باعث آخر کار رضا مندی ظاہر کردی۔ پھر میں بھی اکثر ان کے ساتھ وارداتیں کرنے لگا۔
ہمارا طریقہ واردات مختلف تھا۔ ہم ہر دفعہ نئے علاقے اور دو دراز مقامات پر جاکر چوری کرتے اور اپنے پیچھے کوئی ثبوت نہیں چھوڑتے تھے۔ مزید براں واردات کے لیے مقام کی نشاندہی کرنے والے بھی چند مخصوص لوگ تھے۔ وہ اس معاملے میں بہت طاق تھے۔ ہم بھی لوٹ کے مال سے ان کا حصہ ایمانداری سے پہنچاتے۔ یہ دھندہ کافی عرصہ چلتا رہا۔ میں کافی تجربہ کار چور بن گیا مگر جب اللہ تعالیٰ کسی انسان کو راہِ راست پر لانا چاہے، تو ایسے اسباب پیدا کرتا ہے کہ ایک ہی جھٹکا لگنے پر انسان سنبھل جاتا ہے۔ یہی میرے ساتھ ہوا۔
ایک دفعہ میں تن تنہا چوری کرنے دور دراز علاقے پہنچ گیا۔ گھومتے ہوئے میری نظر ایک ایسے گھر پر پڑی جو آبادی سے ہٹ کر تھا۔ باہر اچھی نسل کے مویشی بندھے ہوئے تھے۔ مکان بھی نہایت خوبصورت بنا ہوا تھا۔ اس کی چار دیواری سرکنڈوں اور کانٹے دار جھاڑیوں پر مشتمل تھی مگر دروازہ معمولی قسم کی کمزور لکڑی کا بنا ہوا تھا۔
میں نے رات اسی قصبے کی ایک سرائے میں گزاری۔ ایک دن کی نگرانی ہی سے میں جان گیا کہ اس گھر میں صرف ایک نوجوان عورت مقیم ہے۔ اس کے مویشیوں کی دیکھ بھال کے لیے ایک آدمی تھا جو رات کو اپنے گھر چلا جاتا۔ جب مجھے یقین ہوگیا کہ رات کو عورت اکیلی ہوتی ہے تو میں نے اس گھر میں چوری کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ میں عورت کے گلے اور بازوؤں میں سونے کے قیمتی زیور بھی دیکھ چکا تھا۔
یاد رہے کہ اس وقت لوگ بے فکر ہوکر گہری نیند سوتے تھے۔ کہیں شاذ و نادر ہی واردات ہوتی تھی۔ میں نے قسمت آزمائی کے لیے رات کو وہاں چوری کا پختہ ارادہ کرلیا۔ یہ نہ صرف میری حماقت بلکہ نوجوانی کی خود سری کا نتیجہ تھا کہ میں نے تنہا ہی یہ خطرناک قدم اٹھایا۔ گرمیوں کے دن تھے۔ میں آدھی رات کو بڑے آرام سے دورازہ کھول کر اندر داخل ہوا۔ کچھ دیر جائزہ لینے کے بعد مجھے یقین ہوگیا کہ صرف وہی عورت صحن میں سورہی ہے۔ آسمان پر چاند کی معمولی سی روشنی بھی تھی جس کے باعث مجھے سب کچھ نظر آرہا تھا۔
میں بے دھڑک عورت کی چارپائی کے نزدیک پہنچ گیا تاکہ اس کے بدن سے زیوراتار سکوں۔ مجھے یہ زعم بھی تھا کہ اگر عورت جاگ پڑی، تو اس پر قابو پالوں گا۔ وہ عورت بے سدھ ہوکر جوانی کی نیند سورہی تھی۔ سب سے پہلے میں نے دھاگا کاٹ کر اس کے گلے سے کنٹھااتارا۔ پہلے تو سوچا کہ یہی بہت ہے پھر میری ہوس نے مجھے مزید اکسایا کہ بازوؤں کی چوڑیاں بھی کاٹ کر اتار لو۔ جب میں نے انھیں تراشندے (کٹر) سے کاٹنے کی کوشش کی، تو عورت کی آنکھ کھل گئی۔ اس نے فوراً میری کلائیاں پکڑلیں۔ میں نے جھٹکے دے دے کر اپنے آپ کو چھڑانے کی کوشش کی، تو وہ پوری طرح ہوش میں آنے کے بعد بولی: ’’اب تم بھاگ نہیں سکتے۔‘‘
میں نے پورا زور لگایا کہ کلائیاں اس کی گرفت سے آزاد ہوجائیں مگر وہ جیسے لوہے کے شکنجے میں جکڑی گئی تھیں۔ میں پسینے پسینے ہوگیا۔ اب مجھے احساس ہوا کہ اس عورت میں بڑی طاقت ہے۔ پھر شاید نفسیاتی طور پر میں بزدل بن گیا۔ اب مجھے احساس کمتری کا احساس ہوا، تو میں نے کہا: ’’بہن! مجھے چھوڑ دے، میں کہیں نہیں جاتا۔‘‘ اس نے جواب دیا: ’’تم جا بھی کیسے سکتے ہو؟ میں ویسے ہی تو اکیلی نہیں رہ رہی، تم جیسے بزدل کو سبق سکھانے کے لیے میں ہی کافی ہوں۔‘‘
یہ کہہ کر اس نے جھٹکے سے مجھے پیٹھ کے بل نیچے گرادیا۔ مجھے افسوس ہوا جیسے میری کلائیاں چٹخ گئی ہوں۔ میں چاہتے ہوئے بھی اٹھ کر فرار نہ ہوسکا۔ عورت چشم زدن میں میرے سر پر آکھڑی ہوئی اور بولی ’’شرافت سے بیٹھے رہو، میں تمہیں کچھ نہیں کہوں گی۔‘‘
اس وقت صورت حال کچھ ایسی تھی کہ میرے جسم سے ساری توانائی رفو چکر ہوگئی اور میں اپنے آپ کو کسی کمزور انسان کی طرح محسوس کرنے لگا۔ پھر اس عورت نے ہاتھ بڑھا کر اپنی چارپائی کی ادوائین نکالی اور مجھے اس سے اچھی طرح جکڑ کر زمین پر ڈال دیا۔ عورت نے مجھے اس طرح باندھا کہ میں حرکت کرنے کے قابل بھی نہ رہا۔ یوں سمجھ لیں کہ میں شرمندگی کی وجہ سے مٹی ہوگیا۔ اور ہر لمحہ یہی سوچ ذہن میں آتی ’’لعنت ہے تجھ پر اور تیری جوانی پر جو آج ایک عورت کے ہاتھوں اتنی ذلت اٹھائی کہ کسی سے ذکر بھی نہیں کرسکتا۔ اس کے بعد وہ عورت ایک کمرے میں چلی گئی۔
صبح ہوئی تو عورت نے اپنے ہاتھوں سے مجھے پراٹھا کھلایا اور لسی پلائی۔ احساس ندامت کے باعث میں اس کی آنکھوں میں آنکھیں نہ ڈال سکا، بس خاموشی سے کھاتا رہا۔ تاہم جب اس کا حسن سلوک دیکھا، تو عورت کی منت سماجت کرتے ہوئے کہا کہ مجھے جانے دو، میں پہلے ہی بہت شرمندہ ہوں۔ مجھے جوبھی سزا دو، میں قبول کرنے کو تیار ہوں۔ معلوم نہیں تمہارا خاوند میرے ساتھ کیا سلوک کرے۔
عورت کہنے لگی: میرا شوہر تین دن پہلے منڈی گیا تھا، آج دوپہر تک آجائے گا۔ مجھے یقین ہے وہ تمہیں کچھ نہیں کہے گا۔ بس تم اس کی آمد کا انتظار کرو۔‘‘
دوپہر تک جیسے تیسے وقت گزر گیا۔ تقریباً دو بجے ایک خوبصورت نوجوان صحن میں داخل ہوا۔ میں اسے دیکھتا ہی رہ گیا۔ اللہ تعالیٰ نے کیا خوب جوڑی بنائی تھی۔ اس نے مجھے جو ادوائین سے بندھا دیکھا تو بے چینی سے اپنی بیوی کی طرف دیکھا۔
عورت نے شوہر سے کہا: ’’آپ آرام سے بیٹھیں میں سب کچھ بتاتی ہوں۔‘‘
مگر اس جوان کو بھلا چین کہاں، اس نے آگے بڑھ کر مجھے کھولا اور ایک چارپائی پر بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ اس دوران وہ عورت اند رجاکر ڈھیر سارے زیورات اکٹھے کرلائی اور ہم دونوں کے سامنے رکھ دیے۔ اس کے خاوند نے پوچھا: ’’یہ کیا ہے؟‘‘
عورت نے بے تکلفی سے جواب دیا: ’’یہ بے چارہ ضرورت مند ہے، رات کو بڑی تکلیف اٹھا کر یہی کچھ لینے آیا تھا، بہتر ہے ہم اس کی مدد کریں۔‘‘ اس نے پھر خاوند کو سارا واقعہ سنایا۔ میں تو اس قدر پریشان اور شرمندہ تھا کہ دل چاہتاتھا کہ زمین پھٹ جائے اور میں اس میں سما جاؤں مگر نہ پائے ماندن نہ جائے رفتن والا معاملہ تھا۔
میری نظریں زمین میں گڑی ہوئی تھیں۔ مجھے اور کچھ نہیں سوجھا، اٹھا، ان میاں بیوی کے قدموں میں گڑ پڑا اور گڑگڑا کر اپنی اس حرکت کی معافی مانگی۔ عورت کے خاوند نے مجھے دونوں بازوؤں سے پکڑ کر اٹھایا اور بولا: ’’ہم تو تمہیں معاف کردیں گے مگر یہ بتاؤ اگر زندگی میں پھر کبھی ایسی صورت حال پیدا ہوئی تو کیا کرو گے؟ پھر تم باقی عمر جیل میں گزارو گے۔ تم جیسا جوان آدمی اگر محنت مشقت سے رزق حلال کما کر کھائے تو اللہ تعالیٰ بھی خوش ہوگا۔ معاشرے میں بھی تمہیں عزت ملے گی۔ تمہیں اگر کاروبار کرنے کے لیے رقم چاہیے تو میں مہیا کرسکتا ہوں۔ اگر کھیتی باڑی کے لیے بیل چاہئیں، تو ایک جوڑی بیل بھی دے دوں گا، مگر تمہیں ہم سے وعدہ کرنا ہوگا کہ آئندہ چوری جیسی قبیح حرکت نہیں کروگے۔‘‘
میں نے آنسو بہاتے ہوئے خدا کو حاضر و ناظر جان کر ان دونوں سے وعدہ کیا: ’’میں آئندہ چوری تو درکنار زندگی میں کوئی غلط حرکت نہیں کرو ںگا۔ مجھے نہ تو دولت کی ضرورت ہے اور نہ ہی بیلوں کی! میں آج سے اس نیک دل خاتون کا بھائی اور یہ میری بہن! ان شاء اللہ آئندہ آپ مجھے ایک شریف انسان کے روپ میں دیکھیں گے۔‘‘
وہ دن اور آج کا دن، میں کبھی کسی گناہ کے قریب نہیں پھٹکا اور ہر ممکن کوشش کی کہ میری ذات سے دوسرے انسانوں کا بھلا ہوجائے۔ خداوند کریم نے اس عورت کو اولاد کی نعمت سے نوازا اور میں ان کا ماموں بن گیا۔ اس کے بچوں کی شادی بیاہ پر بھی میں نے حقیقی ماموں کا کردار ادا کیا۔
میں نے ابراہیم کے گروہ سے اپنا تعلق ختم کرلیا اور اسے بھی سمجھایا کہ وہ گناہ کی زندگی ترک کردے مگر وہ اپنی حرکتوں سے اسی وقت باز آیا جب تین سال جیل میں سڑتا رہا۔ خداوند کریم نے رزقِ حلال کے طفیل مجھے یہ مرتبہ بخشا کہ اب یہ گوٹھ میرے نام سے مشہور ہے۔ بہن بہنوئی فوت ہوچکے ہیں اور میں اپنی عاقبت سنوارنے کے لیے دعا گو ہوں کہ اللہ تعالیٰ مجھے معاف فرماکر اپنے قرب میں جگہ عطا فرمائے۔ آمین!‘‘