رمضان کا مبارک ماہ سایہ فگن ہے، یہ زمانہ ایمان ویقین کی فصل بہار اور رحمتوں کی ہوائے اشکبار کے چلنے کا زمانہ ہے۔ دینے والے کے دادودہش کا زمانہ ہے، ان ایام میں خدا کی طرف سے محبت کا فیضان ہوتا ہے، بخشش و نوازش کی ارزانی، عفو و درگزر کی فراوانی ہوتی ہے۔ اسی ماہ کی مبارک ساعتیں ہیں جب رحمت انسانیت کی بعثت ہورہی تھی، جب سرکار دوجہاں کو تاج نبوت عطا کیا جارہا تھا اور جب دنیا کو ایک کتاب دی جارہی تھی جو بالکل بے لاگ، حق گووبے باک اور تمام کج رویوں سے پاک ہے یعنی جب عالم انسانیت کو قرآن کی شکل میں ایک مکمل ضابطہ حیات اور ہمہ گیر دستور زندگی دیا جارہا تھا جو زندگی کے ہر گوشے میں اور فکروعمل کے ہر میدان میں انسانوں کی رہنمائی کرتا ہے۔ لیکن بقول شاعر ؎
اللہ اگر توفیق نہ دے انسان کے بس کاکام نہیں
فیضان محبت عام صحیح عرفان محبت عام نہیں
اس میں شک نہیں کہ اس ماہ مبارک میں خدا کا خوب خوب فیضان ہوتا ہے۔ اس کی نعمتوں، بخششوں، رحمتوں، برکتوں اور مغفرتوں کی برسات ہوتی ہے۔ یہ سب کے لئے ہوتی ہے اور سب پر یکساں طورپر برستی ہے۔ مگر اس سے فائدہ تو اسی کو ہوتا ہے جو صاف دل ہو، جس کے دل میں خدا کی فیضانِ نظروعنایت کی معرفت ہو، جو دل صنم آشنا نہیں بلکہ خدا آشنا ہو، بغیر عرفان کے یہ ساری عنایتیں انسان کے حق میں ویسے ہی ہیںجیسے بنجر زمین ہو یا کوئی پتھر کی سل کہ اس پر لاکھ امنڈتا سیلاب ہو، موسلا دھار بارش ہو، برسات کی بوچھار ہو، سمندری موجوں کی طغیانی، دریاؤں کی گردش وجولانی ہو یا ندیوں کا خاموش سیلان، فیضان نہیں بلکہ ہزار ہاستم آزما طوفان اس پر آتے اور گزرجاتے ہیں مگر کبھی اس پر زرخیزی وشادابی اور نمو کی کیفیت نظر نہیں آتی، اسی طرح اگر خدانخواستہ آپ کے حصے میں نعمت کی پہچان اور آپ کے نصیبائے دل کو محبت کا عرفان میسر نہ آسکا تو یہ مہینہ کیا اس جیسے ہزار مہینے اور ہزار مبارک مواقع ہوں گے جس میں خدا کی نعمتیں، عنایتیں، برکتیں، نوازشیں، رحمتیں اور بخششیں ہوں گی، وہ آئیں گی اور گزر جائیں گی۔ مگر آپ کے لئے کچھ نفع کا سودا اور فائدے کا سامان نہ ہوگا۔ لیکن کیا اس کے بعد آپ کے لئے صرف ناامیدی ومایوسی باقی رہ جاتی ہے۔ یا پھر امیدو آس کی کوئی کرن بھی نظر آتی، ضرور نظر آتی ہے کیونکہ ایک مومن کی زندگی یاس وقنوط میں نہیں بلکہ آس وامید میں ہے، آپ کو خدا کی معرفت اور اس کی محبت کا عرفان ضرور حاصل ہوگا، مگر دیر ہے توفیق کی، جس کے ملنے کے بعد انسان کی زندگی یکسر بدل جاتی ہے اور اس کا ہر عمل مقبول اور خدا کی نظر میں منظور ہوجاتا ہے۔ یہ توفیق تو بس اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملے گی، اس سے مانگنے، اس کا در کھٹکھٹانے اور اس کی چوکھٹ پر پڑجانے سے ملے گی، توبس تھوڑی دیر کے لئے اپنے دل کو گواہ بناکر کہئے کہ خدا کی رحمت، اس کی مغفرت اور سب سے بڑھ کر اس کی توفیق کی تلاش، طلب وجستجو کے لئے اس مہینے سے بہتر موسم اور اس سے مناسب موقع کون ہوگا؟ دل کا جواب ہوگا یہی سب سے مناسب موقع وموسم ہے۔ توبس اسی سے فائدہ اٹھائیے اور اسی کو غنیمت جانئے اور پھر زندگی کا کیا بھروسا۔ اس نے کسی کے ساتھ وفا کی ہے جو اس سے آپ کو وفا کی امید ہے۔ ساری امیدیں توڑ دیجئے، اسی کو آخری موقع اسی موسم کو وداعی موسم اور اسی رمضان کو اپنی زندگی کی رخصتی کا رمضان جانئے۔
اللہ تبارک وتعالیٰ سے توفیق اور مغفرت کی دعا مانگئے، بڑی لجاجت اور شرمندگی سے ایک مجرم کی طرح دعا کے لئے ہاتھ اٹھائیے اور کہئے:
ہانپتے کانپتے سرتا بقدم آئے ہیں
شرم کہتے ہوئے آتی ہے کہ ہم آئے ہیں
ورنہ کل جب یہ ہاتھ مٹی کے انبار کے نیچے دبا ہوگا اس میں یہ طاقت نہ ہوگی کہ اٹھ سکے، جب زبان گنگ ہوگی، اس میں یہ سکت نہ ہوگی کہ آپ کی خاطر معافی کے دوبول کہہ سکے، جب یہ دل آپ کا نہیں بلکہ اپنے مالک کے اشاروں کا رہین ہوگا، اس میں آپ کے تئیں ساری تمنائیں اور حسرتیں فنا ہوجائیں گی، جب یہ آنکھیں خشک ہوں گی، اسے آپ کے حق میں ندامت کے آنسو ٹپکانے کی اجازت اور اشکباری کی مجال نہ ہوگی۔ اس دن سوائے افسوس کہ کچھ نہ رہے گا اور سچ تو یہ ہے کہ اس دن افسوس وندامت بھی کچھ کام نہ دے گا، بس اسی فرصت کو قیمتی سونا سمجھئے اور اسی موقع کو غنیمت جانئے اور خدانخواستہ ان لوگوں میں نہ ہوجائیے، جو اپنی کوتاہی، غفلت شعاری کے سبب روح الامین کی اس بددعا کے مستحق ہوجاتے ہیں جس میں رحمت عالمؐ کی آمین شامل ہے، حال یہ ہے کہ دن جمعہ کا ہے، بددعا کی سختی کا عالم یہ ہے کہ آپ خطبہ کے منبر پر تشریف فرما ہیں اور بددعا یہ ہے کہ تباہی اس شخص کے لئے جس پہ ماہ رمضان گزر جائے اور وہ اپنی مغفرت نہ کراسکے‘‘۔ توبہ سوبارتوبہ، اے اللہ، تو ہمیں اس مہینے کی قدر کرنے والا بنا، اپنے غضب وناراضگی سے بچا۔ ہمیں توفیق سے نوازدے اور اپنی محبت کا عرفان اور فیضان نعمت سے آشنائی عطا کردے۔