وہ میرا لنگوٹیا یار تھا۔ گاؤں میں ہماری دوستی کے چرچے ہوا کرتے تھے۔ ندی میں تیراکی، برگد کے درخت کے نیچے کھیلنا اور آم کے باغات سے کچے آم چُرانا ہمارا مشغلہ تھا۔ ہمارے گاؤں میں ایک چھوٹی سی تاریخی مسجد تھی، گاؤں کے بزرگ کہتے ہیں اس مسجد کی تعمیر اورنگ زیب کے زمانے میں ہوئی۔ اسی مسجد سے لگ کر چھوٹا سا تالاب تھا، تالاب میں ایک مچھوارا اکثر موسمِ باراں میں اپنی کشتی میں سوار ہوکر مچھلیوں کا شکار کیا کرتا تھا۔ مچھوارے کی غیر حاضری میں ہم کشتی میں سوار ہوکر خوب سیر کرتے اور جی بھر جاتا تو کشتی کو دوسرے کنارے پر الٹا پلٹا کرچھوڑدیتے۔ دوسرے روز جب مچھوارا آتا تو کشتی تلاش کرنے میں اُس کا وقت ضائع ہوتا اور شاید اس کا نقصان بھی ہوتا تھا۔ ہمیں اس کے نقصان سے کچھ لینا دینا نہیں تھا، ہمیں تو بس شرارتوں میں ایک عجیب سا لطف ملتا تھا۔ مسجد سے تھوڑی دوری پر کھلے میدان میںایک پرانا مندر تھا۔ لوگ یہاں چڑھاوے کے لیے ناریل اور قسم قسم کے پھل لے کر آتے۔ خصوصاً گاؤں کی غیر مسلم عورتیں رنگ برنگے کپڑوں میں ملبوس تھالیوں میں پھول اور پرساد مورتیوں پر چڑھاوے کے لیے ضرور لاتیں۔ ہم انجانے میں غیر اللہ کے نام پر چڑھائے ہوئے ناریل کے ٹکڑوں کو کھا جاتے تھے۔ ہفتے کے دن یہاں میلا لگتا تھا۔ آس پاس کے گاؤں سے ٹھیلے والے فروخت کرنے کے لیے پھل فروٹ اور دیگر اشیاء لے آتے تھے۔ ان چیزوں کو دیکھ کر ہمارے منہ میں پانی بھر آتا، ٹھیلے والے کی آنکھ بچا کر ہم پھل فروٹ اور مٹھائی اڑا لاتے اور ندی کنارے بیٹھ کر خوب مزے لے کر کھاتے۔ سورج غروب ہوتے ہی موذن کی اذان سنائی دیتی۔ ہم مسجد کی پچھلی چوکھٹ پر سجدہ ریز ہوکر پورے دن کی شرارتوں کی، گناہوں کی اپنے ننھے ننھے ہاتھ اٹھا کر ربِ کائنات سے معافی مانگتے۔ مگر دوسرے دن پھر وہی مشغلہ وہی شرارتیں۔
گاؤں میں ایک اسکول تھا جہاں صرف چار جماعتوں تک تعلیم دی جاتی تھی۔ ہم دونوں اسی اسکول میں پڑھتے تھے۔ تعلیم سے ہمیں کوئی خاصی رغبت نہیں تھی۔اکثر ہم کلاس سے غائب رہ کر پورا پورا دن کبھی باغات میں تو کبھی ندی کنارے یا پھر پرندوں کے شکارمیں گزار دیتے۔ ماسٹر جی ہمارے والدین سے شکایت کرتے، اس روز ہماری اچھی خاصی چمپئی ہوجاتی۔ کسی طرح چار جماعتیں پاس کیں تو مزید تعلیم کے لیے ہمیں شہر بھیج دیا گیا۔ شہر میں اسکول پھر کالج میں ہم دونوں کا ساتھ رہا۔ کالج کے ہاسٹل میںبھی ہم دونوں ایک ہی کمرے میں مقیم رہے۔ کالج کے زمانے میں ہم میں سوجھ بوجھ اور بہت حد تک سنجیدگی آگئی تھی۔ ہم اپنے ماضی کے کرتوتوں اور شرارتوں پرنادم تھے۔ اب حصولِ تعلیم ہمارا اولین مقصد بنا تھا۔ اچھے مارکس حاصل کرنے کے لیے ہم ایک دوسرے پر سبقت لے جانا چاہتے تھے۔ ہمارا زیادہ تر وقت اسٹڈی میں گزر جاتا۔ اپنے عزیزوں کی، والدین کی یادیں بھی ستاتی تھیں، مگر کیا کرتے حصولِ تعلیم کے لیے ایثار و قربانی لازمی تھی۔ رات بستر میں جانے سے پہلے میں ریڈیو پر کچھ خبریں وغیرہ سنتا اور نیند کی آغوش میں جانے سے پیشتر ریڈیو سوئچ آف کرکے چند قرآنی آیات پڑھتا، تسبیحات پڑھتا اور سوجاتا۔ اختر روزانہ شب میں بلاناغہ ڈائری لکھا کرتا تھا۔ روز مرہ کی چھوٹی موٹی باتیں وہ ڈائری میں ریکارڈ کیا کرتا۔ یہ اس کی عادت سی بن گئی تھی۔
ایک روز صبح جب میں بیدار ہوا تو مجھے ایسا محسوس ہوا جیسے میرا پورا بدن ٹوٹ رہا ہو۔ ہلکا سا بخار بھی تھا۔ میں نے اختر سے کہا : ’’آج میں کالج نہیں جاؤں گا۔ میری طبیعت ناساز ہے۔‘‘ اس نے اپنی چند کتابیں سمیٹیں اور مجھے تاکید کرتے ہوئے کہ اپنا خیال رکھنا، روم سے نکل گیا۔ اختر کے چلے جانے کے بعد میری طبیعت کچھ زیادہ ہی بگڑ گئی۔ بخار اور تیز ہوگیا۔ اور میں اپنے ہوش و حواس کھوبیٹھا۔ جب ہوش آیا تو اپنے آپ کو شہر کے اسپتال میں داخل پایا۔ میرے سرہانے ہی والدین بیٹھے تھے، شاید اختر نے ہی میری طبیعت کی ناسازی کی اطلاع دی تھی۔ والدہ پر نظر پڑی تو میری آنکھیں بھر آئیں، والدہ نے مجھے چھاتی سے چمٹا لیا۔ محسوس ہوا جیسے جنت الفردوس کے کسی گوشے میں مجھے پناہ ملی ہو۔ اب بھی میں بخار میں تپ رہا تھا۔ ڈاکٹروں نے بتایا کہ مرض کی شناخت نہیں ہوپارہی ہے۔ بخار بھی چڑھتا اور اترتا ہے۔ سر میں شدت کا درد تھا۔ یہ کیفیت تقریباً پندرہ روز تک جاری رہی۔ میڈیکل رپورٹ سے بھی کسی مرض کا پتہ نہیں چل پایا۔ شہر کے دوسرے بڑے نامور ڈاکٹروں سے بھی رابطہ قائم کیا گیا۔قیمتی دواؤں اور انجکشن کا استعمال کیا گیا مگر طبیعت میں کوئی خاص افاقہ نہیں ہوا۔ اسی دوران اختر بھی کالج سے چھوٹ کر میری عیادت کے لیے آجایا کرتا تھا۔ دو ماہ کا عرصہ گزرگیا۔ اس دوران ہمارے گاؤں سے کئی لوگ میری عیادت کے لیے آتے رہے۔ چند بزرگوں نے والدین کو مشورہ دیا کہ کسی اللہ والے سے روحانی علاج کروایا جائے۔ انھیں شک تھا کہ بیرونی اثرات، جادو ٹونا، سحر یا کرنی کے اثرات ہوسکتے ہیں ورنہ اب تک اسے صحت یاب ہوجانا چاہیے تھا۔ میرے والدین بے حد پریشان تھے۔ والد صاحب کا اچھا خاصا سرمایہ میری بیماری کی نذر ہوگیا۔ ڈاکٹری علاج معالجے میں پیسہ پانی کی طرح بہایا گیا ساتھ ہی منتیں مانگی گئیں۔ کئی باباؤں سے رجوع کیا گیا۔والدین نے میرے علاج میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی۔ روحانی علاج بھی جاری رہا۔
اسی دوران کسی تانترک نے کہہ دیا کہ میرے کسی قریبی رشتے دار یا دوست نے دشمنی میں جادو ٹونا کردیا ہے۔ میرے والدین نے سرے سے ہی اس بات کو رد کرادیا۔ تمام تدبیریں ناکام ہونے پر مجھے اپنے گاؤں لے جایا گیا۔ پہلے تو مجھے بھی اس بات پر یقین نہیں آیا۔ میں سوچنے لگا میں کسی کا بھی برا نہیں چاہتا ہوں پھر میرے ساتھ ایسا عمل کوئی کیوں کرے گا۔ میرے ذہن میں رشتے داروں کے چہرے آنے لگے۔ مجھے کوئی بھی ایسا نظر نہیں آیا جو میرا برا چاہتا ہو۔
اچانک میرے دل و دماغ کے دریچے کھل گئے مجھے بڑا سا ایک جھٹکا لگا۔ میرے سامنے میرے دوست اختر کا چہرہ آگیا۔ میں نے اپنے حافظے پر زور دیا تو مجھے یاد آیا کہ اختر اکثر و بیشتر ہاسٹل کے کمرے میں کبھی لیموں،کبھی سوئی، کبھی کالا دھاگا لایاکرتا تھا۔ انہی چیزوںکااستعمال جادو ٹونے جیسے عمل میں ہوتا ہے۔مجھے یقین ہونے لگا کہ یہ گندی حرکت اختر ہی کی ہوگی۔ چونکہ میں ایک ذہین طالب علم رہا ہوں، میں نے کبھی بھی اسے اپنے سے آگے نکلنے کا موقع نہیں دیا ہے۔ ہر جماعت میں ہر امتحان میں اسے پچھاڑتا رہا ہوں، مجھے پچھاڑنے کے لیے یہ عمل وہ ہی کرسکتا ہے۔ جیسے جیسے میں ماضی کے جھروکوں میں جھانکتا رہا میرا شک یقین میں بدل گیا اور میرا یقین مزید پختہ ہوگیا۔ میں اپنے علاج کے دوران کالج سے غیر حاضر رہا اور نتیجہ یہ ہواکہ امتحان میں ناکام رہا۔ اختر اچھے نمبروں سے کامیاب ہوا۔ اب مجھے اختر سے نفرت ہونے لگی۔ کتنا کمینہ انسان ہے، ذلیل کہیں کا۔دوستی کے نام پر کلنک…
میں نے ٹھان لی کہ میں بھی انتقام لوں گا۔ جب میری طبیعت میں ہلکا سا افاقہ ہوا، ہاتھ پیر ہلانے کے قابل ہوا تو سب سے پہلے میں نے گاؤں کے مشہور تانترک سے رابطہ قائم کیا اور پورا ماجرا سنایا۔ تانترک نے مجھے یقین دلایا کہ وہ کام تمام کردے گا۔ میں نے اس کی مٹھی گرم کردی۔ جب مجھے اطمینان ہوگیا اور طبیعت میں سدھار آیا تب میں نے اپنے والدین سے اجازت لی اور شہر میں کالج کی طرف چل دیا۔ شہر پہنچتے ہی میں سب سے پہلے ہاسٹل کے کمرے میں چلاگیا۔ اختر کمرے پر موجود نہیں تھا۔ میں نے ڈپلیکیٹ چابی سے کمرے کا تالا کھولا۔ کمرے کا سامان ترتیب و سلیقے سے رکھا ہوا تھا۔ میں نے اپنا بیگ اور دیگر سامان بیڈ پر رکھ دیا۔ میں سوچنے لگا چند روز بعد میں اس کمرے میں تنہا رہوں گا۔ اچانک میری نظر اختر کی ڈائری پر پڑی۔ میں نے ڈائری اٹھائی پھر اپنے بسترپر ٹیک لگا کر بیٹھ گیا اور پھرڈائری کے پنوں کوالٹ پلٹنے لگا۔ میری نظر ایک صفحے پر ٹک گئی۔ لکھا تھا : ’’میرا عزیز دوست، میرا یار شامی جس کے بغیر میری زندگی ادھوری ہے، اس کی چند بری عادتیں مجھے گراں گزرتی ہیں۔ وہ بچپن ہی سے لاپرواہ ہے، اپنی چیزوں کو ہمیشہ بے ترتیب رکھتا ہے۔ کئی روز سے اس کی رضائی ایک سرے سے پھٹی ہوئی ہے، شامی نے اس پر توجہ نہیں دی۔ میں نے آج ہی کالے دھاگے اور سوئی کی مدد سے رضائی کی سلائی کردی ہے۔ وہ بہت ہی لاپروا ہے۔ چند روز سے اس کی طبیعت ناساز ہے، تیزابیت کی وجہ سے اس کے سینے میں جلن ہوتی ہے۔ کبھی سردی کبھی زکام بھی رہتا ہے۔ ڈاکٹر سے رجوع کرنا اس کی عادت میں شامل نہیں ہے۔ میں نے قہوہ میں لیموں کا رس گھول کر اسے پلایا۔ اسے تو معلوم بھی نہیں کہ یہ بھی علاج کا ایک جز ہے۔ ورنہ وہ یہ عرق پینے سے بھی انکار کردیتا۔ گزشتہ شب بعد نمازِ تہجد اللہ جل شانہ سے اس کے لیے گڑگڑا کر دعائیں کیں۔ رب العزت شامی کو ہمیشہ صحتمند، خوش و خرم رکھ۔ اس کی ہر تمنا پوری کر۔ میری بھی عمر اسے لگ جائے۔ میرا ایک ہی تو عزیز دوست ہے۔ میں اس کے بغیر جی نہیں سکتا…‘‘
بستر پر پڑی میری رضائی میرا منہ چڑا رہی تھی، ڈائری میرے ہاتھوں سے پھسل کر فرش پر گرگئی۔ اسی دوران کسی نے دروازے پر دستک دی۔ لپک کر دروازہ کھولا۔ سامنے اختر کو کھڑے پایا۔ فرطِ مسرت سے اسے بھینچ لیا، گلے لگایا، اس کی پیشانی کو بوسہ دیا۔ پھر روم سے نکل کر ٹیلی فون بوتھ کی طرف دوڑا۔ فوراً ٹیلی فون کے ذریعے اپنے گاؤں میں تانترک سے رابطہ قائم کرنے کی کوشش کی۔ معلوم ہوا کہ تانترک کا اسی روز انتقال ہوگیا جس روز میں نے اس سے ملاقات کی تھی۔ ——