توہم پرستی سے نجات کیسے ملے؟

پروفیسر اقتدار حسین فاروقی

اوہام پرستی یوں تو ضعیف الاعتقادی کا دوسرا نام ہے، لیکن اگر اس کا پورے طور سے جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ توہم پرستی ایک ایسا خلافِ عقل اورپست قسم کا انسانی طرزِ فکر ہے جو لاعلمی، نادانی، بے خبری اور جہالت کی بنا پر بے سبب ڈر اور خوف کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے اور اس سے انسان گمراہ کن تصورات کا شکار ہوجاتا ہے جو نہ صرف دین کے برخلاف ہوتے ہیں بلکہ بنیادی انسانی عقل اور سائنس کی کسوٹی پر بھی رد ہوجاتے ہیں۔ افسوس کی بات تو یہ ہے کہ جھاڑ پھونک اورجادو ٹونے اور شگن پر یقین رکھنے والے توہم پرست ان باطل خیالات کو مذہب سے منسوب کردیتے ہیں۔ چنانچہ سائنسی شعور رکھنے والے باہمت اور منطقی لوگ جب اسی قسم کے فرسودہ تصورات کی مخالفت کرتے ہیں تو انھیں مذہب دشمن قرار دے کر ذلیل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ ذہین، ذی علم، ذی شعور اور اہلِ بصیرت عالموں اور سائنسدانوں کو مختلف ادوار اور دنیا کے مختلف حصوں میں صرف اس لیے زہر کاپیالہ پلایا گیا، سنگسار کیا گیا یا اذیتیں دی گئیں کیونکہ انھوں نے توہم پرستی کا پردہ فاش کیا اور اسے سماج کے لیے ایک مرض تصور کیا۔ لیکن ان نامور دانشوروں کی قربانیاں بیکار نہیں گئیں بلکہ حقیقتیں ابھر کر سامنے آئیں اور سماج کا ایک بڑا طبقہ کمزور اعتقاد کی لعنت سے آزاد بھی ہوگیا۔
پچھلی نصف صدی میں سائنس کی حیرت انگیز ترقی کی بنا پر عام طور سے عوام میں ایسا شعور پیدا ہوا ہے جس کے نتیجے میں توہم پرستی کو ختم کرنے میں بڑی مدد ملی ہے۔ مگر یہ عمل مغربی ممالک میں تو کسی حد تک قابلِ اطمینان کہا جاسکتا ہے لیکن مشرقی اقوام میں یہ تصورات اس حد تک باقی ہیں کہ وہ سماجی اور معاشی ترقی میں ہی حائل نہیں ہوتے بلکہ حقیقی دین کو اختیار کرنے میں بھی رکاوٹ بنتے ہیں۔
مغرب کے زیادہ تر ملکوں میں پرانے توہمات کو اب ایک خوبصورت رسم کے طور پر اپنایا جاتا ہے مگر مشرق کا سماج آج ان توہمات کو عقیدے کے طور پر اختیار کیے ہوئے ہے اور حیرت تو اس بات پر ہے کہ مسلم سماج بھی اس کی زد میں ہے۔ مثلاً جنوبی فرانس میں جب مچھیرے اپنی کشتیاں لے کر سمندر میں نکلتے تھے تو گاؤں کی جوان عورتیں ساحل کے کنارے کھڑے ہوکر سمندری پانی پر پھول برساتی تھیں کیونکہ ایسا کرنے سے یہ اعتقاد تھا کہ مچھلیاں آسانی سے جال میں آجاتی تھیں۔ آج بھی یہ رواج کسی حد تک رائج ہے لیکن توہم پرستی کے طور پر نہیں بلکہ ایک خوبصورت رواج کے طور پر۔ فرانس میں اگر کسی پادری سے کوئی شخص غلطی سے آگے نکل جاتا تو وہ اس کو بدتمیزی ہی نہیں تصور کرتا تھا بلکہ کسی ناگہانی آفت کاشکار ہونے کا خوف رہتا تھا اور اس کا توڑ یہ تھا کہ فوراً کسی لوہے کو چھولیا جائے۔ جرمنی میں یہ خیال تھا کہ اگر بلی کو کسی نے ماردیا ہے تو وہ خود اپنی موت کے بعد جب قبر میں اتارا جائے گا تو طوفانی ہوائیں چلیں گی اور تیز بارش ہوگی۔ جاپان میں یہ عام عقیدہ تھا کہ سفر سے قبل ناخن نہ کاٹے جائیں کیونکہ ایسا کرنے سے سفر میں خطرات کا سامنا ہوسکتا تھا۔
فجی آئی لینڈ میں قبائلی لوگ سمجھتے تھے کہ اگر وہ اپنی ساری دولت مذہبی رہنما کے حوالے کردیں گے تو ان کے دشمنوں کا خاتمہ ہوجائے گا۔ نیوزی لینڈ میں ایک رواج یہ تھاکہ مردے کے ہاتھ باندھ کر اس کے ناخن نکال لیے جاتے تھے۔ کیونکہ ایسا نہ کرنے سے خطرہ اس بات کا تھا کہ مردہ ہاتھ کے ناخن کی مدد سے قبر کھود کر نکل جائے گا اور بھوت بن کر پریشان کرے گا۔
مصر میں زمانہ قدیم میں اس کالے سانڈ کی پرستش کی جاتی تھی جس کے ماتھے کے بیچوں بیچ ایک سفید داغ ہوتا تھا۔ کیلو پڑا کے زمانے میں یہ سمجھا جاتا تھا کہ ایسا سانڈ قیامت ڈھا سکتا ہے اگر اس کی پرستش کرکے اس کو منایا نہ گیا۔
انگلینڈ میں جھینگر کو مارنا ایک خطرناک عمل تصور کیا جاتا تھا کہ ایسا کرنے والے لوگ ساری زندگی پریشانیوں میںگویا مبتلا رہتے تھے۔ مصر اور عرب کے بعض علاقوں میں ایلوا کی پتیوں کو اپنے گھر کے باہر لٹکادیتے تھے اور باور کرتے تھے کہ اس کی بنا پران میں قوت برداشت پیدا ہوتی ہے ، اسی لیے اس کا نام صبر ہوگیا۔
پولینڈ میں بکرا تو خوش قسمتی کی نشانی سمجھا جاتا ہے لیکن کوا اور کبوتر بدقسمتی کی علامت تھے۔ اسکاٹ لینڈ میں نئے سال کے دن گھر کی ساری نمک دانیاں نمک سے بھر دی جاتی تھیں کیونکہ ایسا کرنے سے نیا سال خوشحالی لاتا تھا۔ ترکی میں دلہا سے شادی کے وقت ایک پکے ہوئے انار کو زمین پر پھینکنے کے لیے کہا جاتا، اعتقاد یہ تھا کہ ٹوٹ کر انار کے جتنے دانے بکھر جائیں گے اتنی ہی اولادیں نئے جوڑے کی ہوں گی۔
امریکہ کی نیو جرسی کے علاقہ میں کچھ اس قسم کی روایت تھی کہ اگر چرایا ہوا آلو جیب میں رکھ لیا جائے تو اس سے جوڑوں کا درد جاتا رہتا ہے۔ امریکہ میں ہی ایک عرصے تک میساچیویسٹ کے لوگ یقین کرتے تھے کہ اگر رات کے سناٹے میں گائے بولتی ہے تو اس کے مالک کے گھر میں کوئی موت ہونے والی ہے۔
افریقہ کے کچھ علاقوں میں آج بھی قبیلہ کے سردار کی موت پر اس کی لاش کو دفنایا نہیں جاتا بلکہ بواباب نام کے پودے کے تنے میں خول کرکے اس کو اس میں بہ حفاظت رکھ دیا جاتا ہے اس طرح ان کا عقیدہ ہے کہ وہ سردار گویا زندہ جاوید رہ کر قبیلہ کی رہنمائی کرتا رہے گا۔
قطب شما ل کے علاقے میں رہنے والے اسکیموز طوفانی ہواؤں سے نجات پانے کے لیے زور زور سے چیختے چلاتے اور ڈھول بجاتے ہیں اور اگر اس سے طوفان نہیں تھمتا ہے تو بعض قبروں میں آگ لگا دیتے ہیں گویا ایسا کرنے سے طوفان سہم کر اپنا اثر کھودیتا ہے۔ گرین لینڈ کے رہنے والے اپنے بچوں کی موت پر ان کو کتے کے ساتھ دفن کرتے ہیں۔ ان کے عقیدے میں کتا ہی ایک ایسا جانور ہے جو صحیح راستے کی نشاندہی کرتا ہے، چنانچہ وہ بچے اپنی آئندہ زندگی میں راستہ تلاش کرنے میں کتے کی مدد لیتے رہیں گے۔
قبل اسلام عرب معاشرے میں عوام گمراہ کن توہمات اور عبرتناک فرسودہ رسم و رواج میں مبتلا تھے، جنھیں وہ دینی فریضہ سمجھتے تھے۔ قبروں کے پاس اونٹ کو باندھ کر اسے بھوک و پیاس سے مرنے دینا گویا اس بات کو یقینی بنانا تھا کہ قبر کا مردہ جب چاہے گا اس اونٹ پر سواری کرسکے گا۔ قبروں پر جاکر عورتیں گریہ کرتیں اور وجد کی حالت میں اپنے اوپر خاک ڈالتیں اور سمجھتیں کہ ایسا کرنے سے قبر کا مردہ سکون پائے گا۔
عرب کوے کو منحوس اور موجب فراق بتاتے تھے۔ خرگوش کی ہڈیاں بچوں کے گلے میں باندھ کر انھیں بلاؤں سے محفوظ کرنے کا تصورکرتے، وباؤں سے بچاؤ کی خاطر گدھے کی آوازیں نکالتے۔ کاہن اور نجومی سماج میں اہم مقام رکھتے تھے۔ مسائل کا حل تلاش کرنے کے لیے جوئے کھیلے جاتے ، جن میں سب سے بڑا جوا جبلی نامی بت کے سامنے کھیلا جاتا۔ غرض یہ کہ ساری عرب قوم قبل اسلام عبرت انگیز توہمات میں مبتلا تھی۔
یہ چند مثالیں ان حیرت انگیز اور افسوسناک توہمات کی ہیں، جن پر ماضی میں دنیا کے مختلف علاقوں میں ایمان رکھا جاتا تھا لیکن اب ان سے زیادہ تر مغربی ممالک نے نجات حاصل کرلی ہے۔ ہمارے ملک میں بھی فرسودہ رسم و رواج اور توہمات کی کمی نہیں ہے، جس سے عوام نے پوری طور سے چھٹکارا حاصل نہیں کیا ہے۔ اس کی تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں لیکن پھر بھی یہ عرض کرنا ضروری ہے کہ ہمارے سماج میں دو اقسام کے توہمات کا چلن ہے۔ ایک تو وہ جو غیر منطقی اور مضحکہ خیز ہیں، لیکن کچھ زیادہ نقصان نہیں پہنچاتے۔ جیسے بلی کے راستہ کاٹنے سے کام کا نہ ہونا، کچھ خاص دنوں میں کچھ خاص سمتوں میں سفر نہ کرنا، کسی کے پیار سے دیکھنے پر نظر لگ جانا، خاص تاریخوں کا منحوس ہونا، شیشہ ٹوٹنے کی بدبختی سے تعبیر کرنا، چھینک آنے کو کام کی رکاوٹ سمجھنا، آلو کھلا کر کسی کو اپنا عاشق بنالینا وغیرہ وغیرہ۔ دوسری قسم ان توہمات کی ہے جو جان کا وبال ہی نہیں بلکہ جان لیوا بھی ہیں۔ جیسے یرقان کے علاج اور زہریلے کیڑوں سانپ بچھو کے زہر کو اتارنے کے لیے جھاڑ پھونک کو ضروری سمجھنا، دماغی خلل کو آسیبی کیفیت سمجھنا، مختلف مہلک بیماریوں کے متعلق یہ تصور کرلینا کہ کسی دشمن کی طرف سے کیے گئے گنڈہ تعویذ کی بنا پر مرض پیدا ہوا ہے۔ ایسے نہ جانے کتنے توہمات ہیں جو صرف معصوم جانیں لیتے ہیں بلکہ آپس کے خاندانی تعلقات خراب کرانے کے ذمہ دار بھی ہوتے ہیں۔ میرے چند ڈاکٹر دوست بتاتے ہیں کہ گاؤں اور قصبات سے اکثر لوگ پیلیا یعنی یرقان اور دوسری خطرناک بیماریوں کے مریضوں کو ایسی حالت میں لاتے ہیں جب مریض لاعلاج ہوچکا ہوتا ہے۔ کیونکہ وہ کافی عرصے تک مریض کو جادو ٹونا کرنے والوں کے پاس لے جاتے رہتے ہیں اور پھر جب مرض حد سے بڑھ جاتا ہے تو اسپتال لاتے ہیں۔ دماغی امراض کو زیادہ عرصہ تک آسیبی کیفیت سمجھنے والے جب پچھتاتے ہیں تو دیر ہوچکی ہوتی ہے۔ غرضیکہ ایسے نہ جانے کتنے غلط، نقصاندہ، فاسد، گمراہ کن، عبرتناک، بے جا، نامعقول، بے ادراک، جہل سے بھر پور توہمات ہیں جو ہمیں ایک طرف اذیتوں کا شکار بناکر زندگیوں کو تاریک بنادیتے ہیں اور اب بات یہاں تک آپہنچی ہے کہ انہی فرسودہ رسم و رواج اور توہمات کا سہارا لے کر مفاد پرست مختلف گروہوں کے درمیان تفرقہ پھیلانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ نہ جانے ملک میں کتنے جھگڑے اور فساد صرف اعتقاد کی کمزوری کی بنا پر ہوتے ہیں۔ ان سے کچھ سماج کے ٹھیکہ دار تو فائدہ اٹھالیتے ہیں لیکن معصوم اور غریب عوام مشکلات اور پریشانیوں کا شکار ہوجاتے ہیں۔ غریبوں کی معاشی زبوں حالی کچھ اور ہی بڑھ جاتی ہے۔ یہ صورتِ حال صرف اس لیے ہے کہ عوام میں سائنسی شعوراور مزاج کی کمی ہے۔ لیکن اس کا ذمہ دار کون ہے۔ یہ ایک طولانی بحث ہے جس میں قطعی فیصلہ ممکن نہیں۔ لیکن وقت آگیا ہے کہ اس مسئلے پر سنجیدگی سے توجہ دی جائے۔ ایک بھر پور کوشش ہو اس بات کی کہ عوام میں سائنسی رویہ پیدا ہو اور توہمات زندگی میں اثر انداز نہ ہوں۔ اس کام کی ذمہ داری ہر تعلیم یافتہ فرد پر عائد ہوتی ہے خواہ وہ کسی طبقہ یا فن سے تعلق رکھتا ہو۔ ادیبوں اور صحافیوں کا اس میں مثبت اور کسی حد تک aggressiveرول ہونا چاہیے۔
کچھ لوگ اوہام پرستی کو مذہب سے جو ڑ کر سچ پوچھئے تو مذہب کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ توہمات پر یقین نہ تو خدائی عبادت ہے اور نہ ہی مذہبی اعتقادات کا جز ہے۔ جو واقعی عالمِ دین ہوتے ہیں وہ نہ تو ہم پرست ہوتے ہیں اور نہ ہی سائنسی خیالات کے مخالف۔ بھوتوں اورجنات کو بوتلوں میں بند کرنے کا دعویٰ کرنے والے عالمِ دین نہیںہوتے بلکہ یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جن کو نہ دین کا علم ہوتا ہے نہ سائنس کا۔ کیا کسی نے واقعی کسی عالم کو یہ تجویز کرتے سنا ہے کہ کسی خاص جادو کی کاٹ کے لیے یہ ضروری ہے کہ دسمبر کی سردیوں میں رات کے بارہ بجے دریا کے بیچ ایک پیر پر آدھا گھنٹہ کھڑا رہنا چاہیے۔
پنڈت نہرو نے ایک مرتبہ سائنس کانگریس کو خطاب کرتے ہوئے بہت صحیح بات فرمائی تھی کہ سیاسی آزادی اس وقت تک کوئی معنی نہیں رکھتی، جب تک سماج توہم پرستی اور فرسودہ رسم و رواج سے آزاد نہیں ہوجاتا۔ یہ توہم پرستی ایک طرف ہماری ایکتا کو نقصان پہنچا رہی ہے اور دوسری طرف سماجی اور معاشی ترقیوں میں رکاوٹ پیدا کررہی ہے۔ اور تیسری جانب یہ لوگوں میں دین کی صحیح فہم کی راہ میں بھی روڑا بنی ہوئی ہے۔ اس کا صرف ایک ہی حل ہے وہ یہ کہ متحدہ کوشش سے ہر طبقے اور ہر حصے میں سائنسی شعور پیدا کیا جائے اور توہمات کی آڑ لے کر جو لوگ غریبی و جہالت کا استحصال کرتے ہیں ان کے عمل کو قابلِ مذمت اور ہوسکے تو قابلِ سزا سمجھا جائے۔
اسلام کی تاریخ اس سچائی کی گواہ ہے کہ ساری دنیا میں سب سے کاری ضرب جو توہمات پر لگائی گئی و ہ اسلام نے لگائی ہے۔ عرب اور اسلامی دنیا سے توہمات اور فرسودہ رسوم و رواج کا بڑی حد تک خاتمہ ہوگیا۔ مسلمانوں نے پیغمبراسلام ﷺ کے ارشادات پر سختی سے عمل کیا جن میں توہمات سے بچنے کی ہدایت کی گئی تھی۔ صحیح مسلم کی ایک حدیث کے مطابق کسی ایسے شخص کی نماز اس وقت تک قبول نہ ہوگی، جو عراف (آئندہ کا حال بتانے والے) سے سوال کرے۔ ابن عباسؓ سے مروی حدیث میں بتایا گیا کہ نجومی، کاہن اور جادوگری کفر ہیں۔ ایک حدیث میں خرافات سے بچانے کی ہدایت فرمائی گئی ہے۔ بخاری اور مسلم کے بموجب اللہ کی نشانیوں (مثلاً سورج گہن) کو انسان کی زندگی اور موت سے لاتعلق بتایا گیا ہے۔ بیماریوں کو اللہ کا قہر نہ سمجھنے کا حکم دیا گیا اور علم کے حصول کی تاکید اس طرح کی گئی کہ علم حاصل کرو ’’مہد سے لے کر لحد تک‘‘ اور یہ بھی فرمایا گیا کہ علم کے حصول کے لیے کچھ اس طرح سرگرداں رہو جیسے کہ وہ تمہاری اپنی ہی کھوئی ہوئی دولت ہے۔
——

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں