توہین رسول کا واقعہ اور ہندوستان کی شبیہ

شمشاد حسین فلاحی

ڈنمارک کے بعد ہندوستان کی سر زمین پر “دنیا کی سب سے بڑی سیاسی پارٹی” کے آفیشیل ترجمان کے ذریعہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے سلسلے میں نازیبا الفاظ کہے جانے سے نہ صرف ہندوستان کے مسلمانوں میں شدید غم و غصہ دیکھنے کو ملا بلکہ عالمی سطح پر بھی مسلمانوں نے شدید احتجاج اور نا پسندیدگی نوٹ کرائی۔کچھ ملکوں نے اپنے یہاں موجود ہندوستان کے سفیر کو طلب کر کے حکومتی سطح پر احتجاج درج کرایا تو کچھ مقامات پر عوامی سطح پر ہندوستان کے خلاف شدید جذباتی رد عمل سامنے آیا۔ سوشل میڈیا پر ہندوستانی پروڈکٹس کے بائی کاٹ کی خبریں بھی وائرل ہوئیں، جن کے سبب ہندوستان نےمسلم ممالک، خصوصا عرب ممالک کے سفارتی دباؤ کومحسوس کیا۔چنانچہ فوری طور پر پارٹی نے ایسا کرنے والی بھارتیہ جنتا پارٹی کی آفیشیل ترجمان “نپور شرما”کو ان کے عہدے سے برخواست کر کے اور ایک دوسرے فرد کو پارٹی کی ابتدائی رکنیت سے ہٹا کر پارٹی اور حکومت دونوں کی شبیہ کو ہوئے نقصان کی بھر پائی کرنے کی کوشش کی۔ پارٹی نے مختلف سطحوں پر بیان دے کر توہین رسالت سے رجوع کرنے کی کوشش کی جو بہ ہر حال اچھی چیز تھی کہ غلطی کو غلطی مان لیا گیا،جبکہ ایسا کم ہی ہوتا ہے۔

عرب اسلامی ممالک کے اتحادی پلیٹ فارم “او آئی سی “نے بھی اس پر شدید رد عمل ظاہر کیا، جسے حکومت نے “اندرونی معاملہ” کہتے ہوئے سفارتی سطح پر تو رد کردیا ہے،مگر عالمی سطح پر ملک کو ہونے والے” ڈیمج کو کنٹرول” کرنا مشکل ہو رہا ہے کہ مسلم ممالک میں اس معاملہ نے عوام کے جذبات کو ٹھیس پہنچائی ہے اور شاید اسی کا مظہر ہے کہ بڑے بڑے سپر بازاروں سے ان کے مالکان کو ہندوستان کی بنی اشیاء کو ہٹانا پڑ گیا۔

ہندوستان کا یہ موقف کہ یہ ’’ملک کا اندرونی معاملہ‘‘ ہے، دیگر معاملوں کی طرح اندرونی معاملے کی نظر سے نہیں دیکھا جا سکتا کیونکہ نبی کریم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کوئی مقامی نہیں بلکہ یہ دنیا میں بسنے والے تمام مسلمانوں کے دل کی دھڑکن ہے اس لئے اسے اندرونی معاملہ قرار دینا کس حد تک درست ہے ، یہ خود حکومت بھی اچھی طرح جانتی ہے۔ عرب اور اسلامی ممالک نے اس سے پہلے نہ توکبھی اس طرح کا رد عمل ظاہرکیا اور نہ اس طرح کا احتجاج کیا،جبکہ ہندوستان میں مسلمانوں کے ساتھ پیش آنے والے واقعات و حالات، جو اس وقت برسر اقتدار پارٹی کی مستقل سیاسی پالیسی کا حصہ ہیں، دنیا بھر کے مسلمانوں کے لئے تکلیف کا سبب ہیں ، کیونکہ وہ ان چیزوں کو اندرونی معاملہ ہی تصور کرتے رہے ہیں۔ اسی طرح بعض خوشامد پسند علماء ، جو اسے اندرونی معاملہ قرار دے رہے ہیں ،ان کے بارے میں پوری دنیا کے مسلمان کیا سوچتے ہیں، اس پر بحث کی کوئی خاص ضرورت نہیں اور نہ ہی ان کے بیان کو ہندوستان یا باقی دنیا میں سنجیدگی سے لیا گیا ہے۔اس میں کوئی شبہ نہیں کہ توہین رسول کے اس تکلیف دہ واقعے، بلکہ حادثے نے ہندوستان کی شبیہ کو زبردست نقصان پہنچایا ہے اور یہی بات ملک کے دیگر سیاسی و سماجی گروپس کہتے سنائی دے رہے ہیں۔

اس سلسلے میں موجودہ حکومت ایک طرف تو بیرونی دنیا کے سفارتی دباؤ میں ہے دوسری طرف اندرون ملک بھی شدید تنقید کی زد میں ہے۔ اندرونی اور بیرونی ہر دو سطح پر تنقید کا سبب برسرِ اقتدار پارٹی کی وہ پالیسی ہے جس کو لے کر وہ ملک میں کاربند ہے۔ امریکہ جو ہندوستان کا کلیدی حلیف ہونے کا دعویٰ کرتا ہے وہ بھی موقع موقع ہندوستان میں جاری اس پالیسی کو ہدف تنقید بناتا رہتا ہے۔ چنانچہ اہانتِ رسول کے اس تکلیف دہ واقعہ کے بعد امریکی سکریٹری آف اسٹیٹ نے ہندوستان میں مذہبی ہم آہنگی کی بگڑتی صورتِ حال پر تشویش ظاہر کرکے یہ بتادیا ہے کہ وہ اس معاملےمیں ہندوستان کے ساتھ نہیں ہے۔

اٹل بہاری واجپئی کی حکومت میں کابینی وزیر رہے یشونت سنہا نے اپنے ایک مضمون میں جو 9؍جون کے انڈین ایکسپریس میں شائع ہوا ہے حکومت پر سخت تنقید کرتے ہوئے “Mask Comes Off” (مکھوٹا اترگیا) تک کہہ دیا۔ دوسری طرف ملک کے معروف تجزیہ نگار اور پالیسی ساز افراد اور ادارے، جن میں برسرِ اقتدار پارٹی کی فکر سے ہم آہنگ بھی شامل ہیں حکومت کو یہ مشورہ دیتے نظر آرہے ہیں کہ اس معاملہ میں حکومت کو عرب اسلامی دنیا سے اختلاف بڑھانے کے بجائے مصالحتی رویہ اختیار کرنا چاہیے۔حقیقت یہ ہے کہ ملکی اور عالمی سطح کے معاشی بحران کے اس دور میں ہندوستان کے لیے عرب اسلامی دنیا کے ساتھ جو اب تک ہندوستان کے سیاسی سے کہیں زیادہ معاشی مفادات میں شریک رہی ہے، تعلقات خراب کرنے سے نقصان زیادہ اور فائدہ یا تو بالکل نہیں ہوگا یا پھر بہت کم ہوگا۔

دوسری اور اہم بات یہ ہے کہ ملک میں نفرت اورمذہبی تنازعات کو ابھارنے اور انہیں ہوا دینے کی روش ملک کو اندرونی طور پر بھی اور عالمی سطح پر بھی نقصان کے علاوہ کچھ دینے کے قابل نہیں ہوسکتی اس لیے ملک اور اہلِ ملک کے مفاد میں بہترین بات یہی ہوگی کہ یہاں تمام مذہبی اکائیوں اور مختلف خیالات رکھنے والے افراد کےدرمیان باہمی اعتماد، امن و امان اور خیرسگالی و ہم آہنگی کی فضا کو بڑھاوا دینے کی پالیسی اختیار کی جائے۔

ایسے میں ڈیمج کنٹرول کی بہترین شکل یہ ہے کہ جس طرح پارٹی نے ضروری اور فوری ایکشن لیا ہے، اسی طرح حکومتی نظام بھی ان کے خلاف سخت قانونی کاروائی کرتے ہوئے حکومتی ذمہ داری ادا کرے، اس لئے کہ اس سلسلے میں ابھی تک جو کچھ کیا گیا ہے وہ محض پارٹی کی سطح پر ہے۔اگر حکومت اس شرارت کو انجام دینے والوں کے خلاف حکومتی ایکشن لے کر گرفتار کرے اور دنیا کو یہ یقین دلائے کہ آئندہ ایسا نہیں ہوگا اور اگر کوئی کرتا ہے تو قانون بلا تفریق اس کے خلاف کاروائی کرے گا تو کسی حد تک ملک کی شبیہ کو پہنچنے والے نقصان کی بھر پائی ہو سکتی ہے اور یقیناً لوگ اسی کا انتظار بھی کر رہے ہیں اور اسی کا مطالبہ بھی ہے۔

ایک مخلص کا سانحۂ وفات

گزشتہ یکم جون کو درمیان شب محترمہ منیرہ خانم صاحبہ (پونے) کاانتقال ہوگیا، ان کی عمر تقریباً 75سال تھی۔ خلوص و محبت اور اخلاص و للہیت کی پیکر یہ خاتون بوہرہ خاندان سے نکل کر آغوش اسلام میں آئیں اور ایسی آئیں کہ پوری زندگی اسلام کی خدمت میں گزار کر راہئ ملک عدم ہوئیں۔ اللہ تعالیٰ ان کی خدمات جلیلہ کو شرفِ قبولیت بخشے، ان کی نیکیوں کو شرف باریابی دے، ان کی کوتاہیوں سے درگزر فرمائے اور انھیں جنت میں اعلیٰ ترین مقام عطا فرمائے۔ آمین!

محترمہ منیرہ خانم صاحبہ ایک طویل عرصے تک جماعت اسلامی مہاراشٹر کے حلقہ خواتین کی سربراہ رہیں اور تحریکی کام کو خواتین میں پھیلانے میں گراں قدر خدمات انجام دیں۔ انھوںنے اپنی محنت، خلوص اور لگن کے ذریعہ خواتین کی ایک اچھی ٹیم کھڑی کرنے میں کامیابی حاصل کی۔ وہ اور ان کے مرحوم شوہر خالد خاں صاحب کو اللہ تعالیٰ نے اولاد سے محروم رکھ کر آزمایا تھا اور انھوںنے اللہ کی رضا پر راضی رہتے ہوئے درجنوں بےسہارا اور مستحق لڑکیوں کی تعلیم و تربیت میں حصہ لے کر اس محرومی سے اجر کمانے کی کوشش کی۔

منیرہ خانم صاحبہ حجاب اسلامی کی مجلس مشاورت کی رکن تھیںاور اس حیثیت سے انھوںنے حجاب اسلامی کے فروغ اور اس کی توسیع اشاعت کے ساتھ ساتھ اسے معنوی اعتبار سے بہتر بنانے میں اپنے مشوروں کے ذریعے قیمتی رول ادا کیا۔ وہ ہمیشہ اس کےبارے میں سوچتی رہتیں، سفر پر جاتیں تو رسالے کی کاپیاں ساتھ رکھتیں اور لوگوں سے تعارف کراتیں، دہلی آتیں تو ایڈیٹر کو مرکز جماعت، جو ان کی قیام گاہ ہو تا، بلاکر دیر تک بات چیت کرتیں۔ اکثر ایسا ہوتا کہ وہ اپنی گفتگو کے پوائنٹس اور مشورے پہلے سے لکھ کر لاتیں۔ یہ اہتمام کم ہی لوگ کرپاتے ہیں۔

جماعت ان کا اوڑھنا بچھونا اور ان کے فکر و عمل کا واحد مرکز تھی۔ وفات سے محض دو دن قبل فون پر ان سے بات چیت ہوئی تو کہا: ’’حالات یقینا سخت ہیں مگر انہی حالات میں ہمیں تحریکی کام کے لیے راہیںنکالنی ہیں، مایوس نہیںہونا ہے اور اللہ پر بھروسہ رکھنا ہے۔‘‘

ان کی موت کی صورت میں حجاب اسلامی ایک مشفق سرپرست اور قیمتی مشیرو مخلص ساتھی سے محروم ہوگیا اور ہماری تحریک ایک ایسی قیمتی شخصیت سے محروم ہوگئی جو بلند نگاہ تھی، دلنواز گفتگو اور سوز قلب سے متصف تھی۔ اللہ تعالیٰ ان کی قبر کو نور سے بھردے اور ہم پسماندگان کو صبر واجر سے نوازے۔ آمین!

شمشاد حسین فلاحی

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146