تکبر
تکبر کا معنی اپنے آپ کو بڑا سمجھنا اور دوسرے کو حقیر جاننا ہے۔ کتاب وسنت میں تکبر کرنے والے کے لیے ’متکبر‘ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ متکبرین کے لیے قرآن و حدیث میں بہت شدید وعید آئی ہے۔ ایک روایت کے الفاظ ہیں:
لا یدخل الجنۃ من کان فی قلبہ مثقال ذرۃ من کبر۔ (صحیح مسلم)
’’وہ شخص جنت میں داخل نہ ہوگا، جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر بھی اپنی بڑائی ہو۔‘‘
اہلِ علم نے تکبر کی تین بڑی اقسام بیان کی ہیں، جو درج ذیل ہیں:
(۱) اللہ پر تکبر کرنا، یعنی اللہ کے مقابلے میں اکڑنا، جیسا کہ فرعون نے اس تکبر کا اظہار کیا تھا اور انا ربکم الاعلیٰ کا دعویٰ کیاتھا۔ تکبر کی یہ قسم براہِ راست اللہ کا انکار ہے۔ دہریہ یعنی اللہ کا منکر تکبر کی اس قسم میں لازماً مبتلا ہوتا ہے۔ عموماً دہریوں کی زبان سے یہ الفاظ سننے میں آتے ہیں کہ ہم نے اہلِ مذہب کے خدا کو اس دنیا سے نکال دیا ہے۔ یہ تکبر کی بدترین صورت ہے۔ بعض پریشان خیال افراد جن کا نام بظاہر مسلمان جیسا ہوتا ہے، وہ بھی اس تکبر میں مبتلا ہوجاتے ہیں اور ایسے پریشان خیال افراد کی زبان پر آپ کو اکثر یہ جملے ملیں گے کہ پتا نہیں خدا ہے بھی یا نہیں؟ اگلی دنیا میں جزا و سزا ہے بھی یا نہیں؟ ہم نہ تو خدا کا اقرار کرتے ہیں اور نہ ہی انکار، وغیرہ۔
(۲) اللہ کے رسول ﷺ پر تکبرکرنا یعنی حق کے معاملہ میں اللہ کے رسول ﷺ کی اطاعت نہ کرنا اور اکڑجانا۔ ایک روایت میں ہے کہ ایک صحابی نے آپ ﷺ سے سوال کیا کہ کیا اچھے کپڑے یا نیا جوتا پہننا بھی تکبر میں داخل ہے؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ جمیل ہے اور خوبصورتی کو پسند کرتا ہے۔‘‘ اور جہاں تک تکبر کا معاملہ ہے تو وہ یہ ہے:
الکبر بطر الحق وغمط الناس۔(مسلم)
’’تکبر تو حق بات کو جھٹلا دینا اور لوگوں کو حقیر سمجھنا ہے۔‘‘
تکبر کی اس قسم میں اعتقادی منافقین اور منکرینِ رسول مبتلا ہوتے ہیں۔ ایسے حضرات کی زبانوں سے ایسے جملے بکثرت سننے کو ملتے ہیں کہ محمد ﷺ بھی تو ہمارے ہی جیسے انسان ہیں تو ان کی اتباع و اطاعت کیوں؟ یا ہم بھی اللہ کے کلام کو ایسے ہی سمجھ سکتے ہیں جیسا کہ محمد ﷺ نے سمجھا ہے، یا محمد ﷺ کی قرآنی تفسیر و تشریحات تو عرب کے غیر متمدن معاشرے کے لیے تھیں نہ کہ ہماری آج کی متمدن اور مہذب دنیا کے لیے یا محمد ﷺ کو قرآن سمجھنے کا جتنا حق حاصل تھا اتنا ہمیں بھی حاصل ہے۔
(۳) اللہ کے بندوں پر تکبر کرنا، یعنی کسی بھی وصف کے اعتبار سے دوسرے انسانوں کی نسبت اپنے آپ کو بڑا سمجھنا اور انھیں حقیر جاننا۔ صحیح مسلم کی مذکورہ بالاروایت میں ’’غمط الناس‘‘ کا معنی بعض اہلِ علم نے یہ بیان کیا ہے کہ اللہ کی دی ہوئی کسی نعمت میں اپنے آپ کو بڑا سمجھنا اور دوسروں کو اس نعمت میں حقیر جاننا غمط الناس ہے، جسے آپﷺ نے تکبر کہا ہے۔ انسانوں میں تکبر کی سب سے عام قسم یہی ہے۔
اسلامی معاشروں میں تکبر کی اس قسم کی بے شمار صورتیں پائی جاتی ہیں، جن میں چند ایک کی ہم نشاندہی کررہے ہیں:
(۱) مال کے ذریعے تکبر کرنا، جو بادشاہوں، تاجروں اور مالداروں میں ہوتا ہے۔ اس صورت میں ایک مالدار شخص مال کی وجہ سے اپنے آپ کو بڑا اور دوسروں کو حقیر سمجھتا ہے۔ جو مالدار بھی غریب کو حقیر جانے، یعنی اس کے پاس بیٹھنے یا اس کے ساتھ کھانے یا اس کے ساتھ چلنے یا اس سے گفتگو کرنے یااس کے گھر جانے یا اس کے محلے میں جانے یا اس کے ساتھ دوستی کرنے میں ہچکچاہٹ اور حجاب محسوس کرے تو بلاشبہ وہ اس تکبر میں مبتلا ہے۔ عموماً مالدار دین دار گھرانوں میں بھی یہ بات دیکھنے میں آئی ہے کہ وہ اس تکبر میں مبتلا ہوتے ہیں۔ ایک دینی ادارے میں حفظ کی کلاس سے ایک مالدار دینی رجحان رکھنے والے خاندان نے اپنے بچے اس لیے اٹھا لیے کہ اس ادارے میں ان کے ملازمین کے بچے بھی ساتھ ہی حفظ کررہے تھے۔ عام طور پر اس کا بہانہ بنایا جاتا ہے کہ غرباء کے بچوں میں تہذیب نہیں ہوتی، حالانکہ امراء کے بچے جس قدر مہذب ہوتے ہیں، اس کا جائزہ انگلش میڈیم اسکول کے بچوں کے چال چلن کی رپورٹس سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔
(۲) جمال کے ذریعے تکبر کرنا، جیسا کہ عموماً عورتوں میں ہوتا ہے۔ جب کوئی خاتون اللہ کی طرف سے عطا کیے گئے حسن پراترائے اور دوسری خواتین کو اپنے سے کم تر سمجھے تو وہ تکبر کی اس قسم میں بلاشبہ مبتلا ہوچکی ہے۔ اس صورت میں حسین خاتون دوسری خواتین کے خدوخال یا رنگت یا پہننے اوڑھنے کے سلیقے پر منفی تبصرے کرتی نظر آتی ہے کہ فلاں کو تو پہننے کا ڈھنگ ہی نہیں ہے یا فلاں اپنی شکل و صورت میں بہت ہی سادی ہے یا فلاں کے چہرے پر تو مسکینی ہی چھائی رہتی ہے یا فلاں اسٹائلش نہیں ہے۔ ایسے تمام تبصروں سے اگر حسین عورت کا مقصود اپنے آپ کو دوسری خواتین کے بالمقابل برتر سمجھنا یا ثابت کرنا ہو تو یہ تکبر ہے اور اگر اس کے دل میں ان تبصروں کے وقت اپنے حسن کی بڑائی موجود نہ ہو تو یہ غیبت ہے، جو تکبر ہی کی طرح حرام ہے۔
(۳) اپنے پیروکاروں کی کثرت کے ذریعے تکبر کرنا، جیسا کہ علماء یا صوفیاء یا گدی نشینوں یا خطباء یا واعظین یا مذہبی و سیاسی جماعتوں یا انقلابی تحریکوں کے قائدین میں ہوتا ہے۔ تکبر کی اس صورت میں ایک شخص اپنے متبعین یا متاثرین کی کثرت کی وجہ سے اپنے آپ کو بڑا اور دوسروں کو حقیر سمجھنا شروع کردیتا ہے۔ بعض اوقات متبعین اور متاثرین بھی اس تکبرمیں مبتلا ہوتے ہیں، مثلاً کسی جماعت یا تحریک سے وابستہ کارکنان اپنی جماعت یا تحریک کے ممبران کی کثرت پر اتراتے نظر آتے ہیں، یا علماء، شیوخ، اساتذہ، صوفیاء اور مربیین کے پیرو کار اپنے عالم، پیر، شیخ، مربی اور استاد کو دوسرے علماء، صوفیاء، شیوخ، مربیین اور اساتذہ کے مقابلے میں آسمان پر چڑھانے میں مصروف نظر آتے ہیں۔ بنظرِ غائر جائزہ لیا جائے تو یہ حضرات اپنے شیخ، استاذ، پیر یا مربی کو دوسروں سے بالاتر قرار دیتے ہوئے دراصل یہ ثابت کرنا چاہ رہے ہوتے ہیں کہ جب ہمارے شیخ اور استاذ تمہارے شیخ اور استاد سے بہتر ہیں تو ہم ان شیوخ و اساتذہ کے شاگرد دوسرے شیوخ واساتذہ کے شاگردوں سے بہتر ہیں۔
(۴)اپنے علم پر تکبر کرنا، جیسا کہ بعض علماء میں یہ مرض پایا جاتا ہے۔ اس صورت میں ایک عالمِ دین اپنے علاوہ علماء کو اپنے سے حقیر سمجھتا ہے اوراپنے آپ کو بڑا جانتا ہے۔ بعض شیوخ الحدیث، مفتیانِ کرام، کبار علماء اور محققین کو آپ دیکھیں گے کہ سائلین کے ساتھ بیٹھنا اپنے وقار کے منافی سمجھتے ہیں، یا طالبانِ دین اور نوجوان علماء کے ساتھ علمی تبادلۂ خیال میں عار محسوس کرتے ہیں، یا کسی بدو مخلص سائل کی رہنمائی کو اپنے وقت کا ضیاع سمجھتے ہیں، یا دوسرے علماء کے دلائل پر اس لیے توجہ نہیں دیتے یا ان کی تحقیقات سے استفادہ نہیں کرتے کہ وہ علم میں ان کو اپنے سے کم تر سمجھتے ہیں۔امر واقعہ یہ ہے کہ علمی تکبر کے اس دریا میں فقہی مسالک و مذاہب کے متبعین کی اکثریت سرتاپا غرق ہے۔ اس بحث سے مقصود ِ کلام یہ ہے کہ ہمارے ذہنوں میں عام طور پر تکبر کی یہ صورتیں نہیں ہوتی ہیں۔ ہم میں سے ہر شخص کو اپنے ہر ہر فعل اور عمل کامحاسبہ اور تجزیہ کرتے رہنا چاہیے کہ میرا یہ عمل کہیں میری باطنی نشوونما یا تزکیہ میں رکاوٹ تو نہیں بن رہا ہے۔
تکبر کے درجات
بعض اہلِ علم نے تکبر کے تین درجات بیان کیے ہیں:
(۱) دل میں اپنی بڑائی ہو اور ظاہر میں تواضع و انکساری۔ تکبر کا یہ درجہ انتہائی خطرناک ہے اور اس کا تجزیہ کرنا بھی انسان کے لیے بہت مشکل ہوتا ہے۔ اس درجہ میں تکبر صرف دل تک محدود رہتا ہے اور انسان کے عمل یا قول میں داخل نہیں ہوتا۔
(۲) تکبر کا دوسرا درجہ دل کے بعداپنے افعال و اعمال میں تکبر کا اظہار کرنا ہے۔ مثلاً کوئی شخص مجالس، محافل، دوستوں، خاندان اور معاشرے میں اپنے عمل و فعل کے ذریعے اپنی بڑائی چاہے۔
(۳)تکبر کا تیسرا درجہ یہ ہے کہ انسان اپنے دل اور عمل سے بڑھ کر اپنی زبان سے فخر کا اظہار کرے، مثلاً اپنے تزکیۂ نفس یا نیک ہونے کے دعوے کرے۔ بعض لوگوں کی یہ عادت ہوتی ہے کہ وہ باتوں باتوں میں ہر کسی کو اپنے تہجد گزار ہونے یا نیک ہونے یا بڑا عالمِ دین ہونے یا تعلیمی اسناد کی تاریخ سنانے یا عظیم محقق ہونے یا فل پروفیسر ہونے یا دین کا عظیم خادم بتانے کے لیے بے چین و مضطرب ہوتے ہیں۔ بلاشبہ اس قسم کے اقوال میں تکبر قولی کی واضح صورت جھلکتی نظر آتی ہے۔ اگر کسی شخص میں یہ عادت ہو تو اسے اپنی باطنی اصلاح کی طرف خصوصی توجہ دینی چاہیے۔
تکبر کے اسباب
تکبر کیوں پیدا ہوتا ہے؟ یا اس کے اسباب کیا ہیں؟ تکبر کے اسباب میں سے اہلِ علم نے حسد، بغض، کینہ، عجب اور ریا کا تذکرہ کیا ہے۔ جب کوئی شخص مال، علم، حسن و جمال یا مقام و مرتبے میں دوسرے سے حسد محسوس کرتا ہے تو عموماً اس پر تکبر کے ذریعے بڑائی حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
اسی طرح جب کوئی شخص کسی دوسرے سے اپنے دل میں بغض اور کینہ رکھتا ہے تو یہ بھی اس کے تکبر کا سبب بن جاتے ہیں۔ اپنے نفس کے عشق میں مبتلا ہونا یعنی خود پسندی اور عجب بھی تکبر کے اسباب میں سے ایک اہم سبب ہے۔ اسی طرح ریاکاری بھی تکبر کے اسباب میں داخل ہے۔
تکبر کا علاج
اہلِ علم نے تکبر کے دو قسم کے علاج تجویز کیے ہیں، جو ذیل میں بیان کیے جارہے ہیں:
علمی علاج
تکبر کا علمی علاج یوں کیا جاسکتا ہے کہ انسان جب اللہ کی دی ہوئی کسی نعمت یا صفت یا کمال پر اپنے نفس میں بڑائی محسوس کرے تو یہ سوچ بار بار پیدا کرے:
(۱) میرے اندر کا یہ کمال حق سبحانہ و تعالیٰ کا پیدا کردہ ہے، یعنی عطائی ہے اوراس کے حصول میں میرا کوئی ذاتی عمل دخل نہیں ہے۔
(۲) میں کسی ذاتی اہلیت کی بنا پر اس نعمت خداوندی کا مستحق نہیں تھا، لیکن اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے یہ کمال عطا فرماکر مجھے اپنی رحمت سے نوازا ہے۔
(۳) اس کمال کے اللہ کی طرف سے عطا کیے جانے کے بعد اس کی بقا میرے اختیار اور بس میں نہیں ہے اور کسی بھی وقت اللہ سبحانہ و تعالیٰ اسے سلب کرسکتے ہیں۔
(۴) اگرچہ دوسرے شخص میں یہ کمال فی الحال نہیں ہے، لیکن ممکن ہے مستقبل قریب یا بعید میں اسے یہ کمال مجھ سے بھی زائد درجہ میں حاصل ہوجائے۔
(۵) اس کا بھی غالب امکان ہے کہ دوسرے شخص میں کچھ ایسے کمالات ہوں جو میری نظر سے مخفی ہوں اور ان کی بنا پر اس کا رتبہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے ہاں مجھ سے زائد ہو۔
عملی علاج
تکبر کا عملی اور بہترین علاج یہ ہے کہ انسان جس کو اپنے نفس سے چھوٹا سمجھے، اس کے ساتھ بیٹھے، کھائے پئے، گفتگو کرے، دوستی کرے، اس کا احترام کرے، اس کے بارے میں تحسین کے کلمات کہے اور اس کے ساتھ حسنِ سلوک سے پیش آئے۔ مثلاً ایک امیر اپنے تکبر کو غرباء میں بیٹھ کر اور ایک عالمِ دین اپنے تکبر کو طلبہ میں بیٹھ کر دور کرسکتا ہے۔ اللہ کے رسول نے واضح طور پر ہدایت دی ہے:
احبوا المساکین وجالسوہم۔
’’مسکینوں سے محبت کرو اور ان کے ساتھ اٹھو بیٹھو۔‘‘
ہمارے ایک بزرگ رشتہ دار اپنے عالم دین بچوں کو نصیحت کیا کرتے تھے کہ تم لوگ کبھی کبھی راہ چلتے کسی غریب اور کمزور بوڑھے یا بڑھیا کی گٹھڑی اپنے سر پر رکھ لیا کرو۔ کبھی کبھی اپنے گھر کے کوڑے کی ٹوکری خود گھر سے دور پھینک کر آیا کرو۔ اس طرح تمہارے اندر علم اور مرتبہ کا احساس برتری پیدا نہ ہوگا اور یہ اعمال تمہارے اندر حقیقی خاکساری پیدا کریں گے۔ واقعی یہ بڑی عملی بات ہے۔
——